جسٹس میاں گل حسن اورنگزیب نے سائفر کیس کا ٹرائل 11 جنوری تک روکنے کا حکم جاری کر دیا، عدالت نے سائفر کیس میں حکم امتناع دے دیا،اسلام آباد ہائیکورٹ کے جسٹس میاں گل حسن اورنگزیب نے بانی پی ٹی آئی عمران خان کی درخواست پر سماعت کی اور کہا کہ یہاں پر مجھے دو سوالات کے جوابات چاہئیں، اس عدالت نے کہا تھا کہ اوپن ٹرائل ہوناچاہیے تو ان کیمرہ سماعت کیوں شروع ہوئی؟ سیکیورٹی عدالتی دائرہ اختیار نہیں تو اس میں ہم مداخلت نہیں کریں گے،عدالت نے کہا کہ سائفر کیس کا ٹرائل عارضی طور پر روکا جاتا ہے اور پہلے وفاقی حکومت اور ایف آئی اے کو نوٹس کیا جائے گا تاکہ ان کا جواب آ سکے

اسلام آباد ہائیکورٹ نے سائفر کیس ٹرائل میں 12 دسمبر کے حکم کیخلاف عمران خان کی درخواست پر وفاق کو نوٹس جاری کر دیئے. جسٹس میاں گل حسن اورنگزیب نے کیس کی سماعت کی،جسٹس میاں گل حسن اورنگزیب نے ریمارکس دیتے ہوئے کہا کہ یہ معاملہ پہلے ایک درخواست میں بھی سامنے آیا تھا ،پراسکیوشن کے مطابق کابینہ کی منظوری کے بعد کیس فائل کیا گیا ،عمران خان کے وکیل نے عدالتی فیصلے کا حوالہ دیتے ہوئے موقف اپنایا کہ آفیشل سیکرٹ ایکٹ کے تحت کیس درج کرانے کیلئے قانونی طریقہ نہیں اپنایا گیا.

سماعت کے آغاز پر جسٹس میاں گل حسن نے استفسار کیا کہ آپ کا نکتہ کیا ہے؟ اس پر وکیل عثمان گل نے کہا کہ نکتہ یہ ہے کہ فرد جرم سے پہلے قانونی طریقہ کار مکمل نہیں کیا گیا، جج نے جس نوٹیفکیشن کا حوالہ دیا وہ یکم دسمبر کا ہے اور سائفر ٹرائل روزانہ کی بنیاد پر چل رہا ہے،عدالت نے استفسار کیا کہ اب تک کتنے گواہان کے بیانات مکمل ہو چکے ہیں؟ وکیل نے بتایا کہ کُل 27 گواہان میں سے 25 کے بیانات اور تین کی جرح مکمل ہوئی ہے،

دوران سماعت بانی تحریک انصاف عمران خان کے وکیل نے سائفر ٹرائل پر حکم امتناع کی استدعا کی جسے عدالت نے مسترد کرتے ہوئے کہا کہ پہلے نوٹس ہوں گے،عدالت نے سائفر کیس میں فرد جرم عائد کرنے کے خلاف درخواست پر وفاق کو نوٹس جاری کردیا اور عمران خان کے وکیل کو ہدایت کی کہ آئندہ سماعت پر سائفر ٹرائل سے متعلق تمام ضروری دستاویزات جمع کرائیں،

سائفر کیس ،ان کیمرہ کاروائی کیخلا ف درخواست پر سماعت ملتوی
دوسری جانب سائفر کیس کی ان کیمرہ کارروائی کے خلاف درخواست پر سماعت اسلام آباد ہائی کورٹ کے جسٹس میاں گل حسن اورنگزیب نے کی، بیرسٹر سلمان اکرم راجا ویڈیو لنک کے ذریعے پیش ہوئے،بانی پی ٹی آئی عمران خان کی جانب سے وکلاء سکندر ذولقرنین، عثمان ریاض گل، انتظار پنجوتا و دیگر عدالت پیش ہوئے ،عدالتی حکم پر اٹارنی جنرل منصور عثمان اعوان، ایڈیشنل اٹارنی جنرل منور اقبال دوگل عدالت پیش ہوئے، ایف آئی اے اسپیشل پراسیکوشن ٹیم بھی عدالت کے سامنے پیش ہوئی،سماعت کے آغاز پر جسٹس میاں گل حسن اورنگزیب نے ریمارکس دیتے ہوئے کہا کہ مجھے کچھ تشویش ہے جس طرح کارروائی آگے بڑھ رہی ہے، بند دروازوں کے پیچھے ہونے والے ٹرائل سے متعلق اٹھنے والے سوالات کا جائزہ لینا ہے، ایک دو لوگوں یا خاندان کے افراد کی موجودگی سے بھی یہ کلوزڈ ڈور ٹرائل ہی رہے گا، اٹارنی جنرل نے عدالت میں کہا کہ پراسکیوشن کے 25 گواہان کا بیان ریکارڈ کیا جاچکا ہے، 21 دسمبر کے بعد 12 گواہان کے بیانات میڈیا کی موجودگی میں ریکارڈ کیے گئے،

جسٹس میاں گل حسن اورنگزیب نے ریمارکس دیتے ہوئے کہا کہ گزشتہ سماعت کے مطابق ٹرائل جیل میں ہو گا تو اوپن ہو گا ، اب صورتحال تبدیل ہوئی ہے کہ جیل ٹرائل ان کیمرہ ٹرائل ڈکلیئر کر دیا گیا ، ان کیمرہ کا سیکشن 14 کا آرڈر فیلڈ میں ہے اس کی موجودگی میں کیا ہوا ، ہم نے اس ججمنٹ میں اوپن ٹرائل کو سمجھنے کی کوشش کی ہے کیوں نہیں سمجھتے،سائفر ٹرائل کو جلد بازی میں کیا جا رہا ہے، اوپن سماعت کی اہمیت خصوصی عدالت کے جج پر واضح ہے نہ ہی پراسیکیوٹرز پر،سائفر ٹرائل اپنی نوعیت کا پہلا ٹرائل ہے،دیکھنا ہو گا کہ اس طرح کے کیسز میں آرٹیکل 10 اے کے تحت فئیر ٹرائل کا حق ملا یا نہیں؟ 1923 میں انسانی حقوق بنیادی حقوق دنیا کو معلوم نہیں تھے، یہ میرے سامنے فرسٹ ایمپریشن کا کیس ہے ، اسٹیٹ کی سیفٹی کمپرومائز نہیں ہونی چاہیے ،سپریم کورٹ کا فیصلہ دیکھیں وہ کہہ رہے ہے میٹریل ناکافی ہے،

اٹارنی جنرل نے عدالت میں کہا کہ اسٹیٹ کا موقف ہے کہ 3 ایسے گواہ تھے جن کا بیان نشر نہیں کیا جانا چاہیے تھا،ان گواہان کے بیانات 15 دسمبر کو ریکارڈ کیے گئے ہیں،جسٹس میاں گل حسن اورنگزیب نے ریمارکس دیتے ہوئے کہا کہ 12 دیگر گواہان کے بیانات بھی تو کلوزڈ ڈور ٹرائل میں ہوئے ہیں ناں، آپ سمجھتے کیوں نہیں ہیں ، ہم نے آپ کو سمجھانے کی کوشش کی ہے کہ اوپن ٹرائل کیا ہوگا ، ان کیمرہ کرنے کی جج کی وجوہات دیکھ لیں اس میں 3 لائنیں لکھی ہوئی ہیں ، اوپن ٹرائل کیا ہے یہ واضح کر چکے ہیں، تم آ جاؤ اور تم آ جاؤ، یہ اوپن ٹرائل نہیں ہوتا، اوپن ٹرائل میں جو چاہے آ سکتا ہے، میڈیا کو اجازت ہے کہ جو چاہے آ سکتا ہے، ایسے نہیں ہوتا، اس بارے باقاعدہ آرڈر ہونا چاہیے، کیا جرح میڈیا کی موجودگی میں کی گئی؟اٹارنی جنرل نے عدالت میں کہا کہ جن 3 افراد کی جرح ہوئی وہ سائفر کی کوڈ، ڈی کوڈ سے متعلق تھے، سائفر سے متعلق سیکرٹری خارجہ کا بیان بھی ان کیمرہ ہو گا،عدالت نے ریمارکس دیتے ہوئے کہا کہ پراسیکیوشن کو کہنا چاہیے تھا کہ جج صاحب 3 گواہان کے لیے ان کیمرہ ٹرائل کا حکم دیں تا کہ ٹرائل پر سوالات نہ اٹھیں، کبھی کبھی اچھا بھلا کیس ہوتا ہے لیکن جس طریقے سے چلایا جاتا ہے،خراب ہو جاتا ہے،پراسیکیوٹر راجا رضوان عباسی نے عدالت میں کہا کہ سائفر ان کیمرہ ٹرائل کے خلاف درخواست قابل سماعت نہیں ہے،اٹارنی جنرل نے عدالت میں کہا کہ سائفر ٹرائل کے لیے 14 دسمبر کو حکم ہوا اور 15 دسمبر کو ٹرائل شروع ہوااگر عدالت چاہتی ہے کہ جرح اوپن ہو تو ہو جائے گی،عدالت نے ریمارکس دیتے ہوئے کہا کہ یہ عدالت نہیں کہہ رہی یہ ضرورت ہے کہ ٹرائل اوپن ہو اور یہ پوری دنیا میں ہوتا ہے،

اٹارنی جنرل نے کہا کہ یقین دہانی کراتا ہوں کہ ان کیمرہ جرح صرف ان 4 گواہان کی ہو گی جو دفتر خارجہ کے سائفر سکیورٹی سے جڑے ہیں،عدالت نے استفسار کیا کہ یہ چاروں گواہان دفتر خارجہ کے ملازمین ہیں؟اٹارنی جنرل نے کہا کہ چاروں گواہان دفتر خارجہ کے ملازمین ہیں۔چاروں گواہان سائفر ٹرانسکرپٹ کرنے اور سائفر سکیورٹی سسٹم سے جڑے ہیں۔ان ملازمین کا کام پوری دنیا سے سائفر ڈی کوڈ کرنا ہے، سائفر سسٹم کیسے کام کرتا ہے یہ تفصیلات پبلک کے سامنے نہیں لائی جا سکتی۔ 13 میں سے جو باقی 9 گواہان ہیں ان کی جرح دوبارہ کر لیں گےاگر عدالت 13 میں سے 9 گواہان کے بیانات کالعدم قرار دیتی ہے تو دوبارہ ہوں گے،

عدالت نے وکیل سے استفسار کیا کہ آپ اٹارنی جنرل کی اس پیشکش پر کیا کہیں گے کہ گواہان کے بیانات دوبارہ ریکارڈ کرلیے جائیں؟ وکیل سلمان اکرم راجا نے کہا کہ ہماری استدعا ہے کہ عدالت پہلے ٹرائل کورٹ کے ان کیمرہ پروسیڈنگ کے آرڈر کو دیکھے، میرے پاس پہلے 3 گواہان کے بیانات کے عدالتی آرڈر کی کاپی ہے،ہ سرٹیفائیڈ کاپی تو پبلک دستاویز ہوتی ہے،اٹارنی جنرل نے کہا کہ میری استدعا ہوگی کہ اسے پبلک نہ کیا جائے،جسٹس میاں گل حسن اورنگزیب نے ریمارکس دیتے ہوئے کہا کہ میں یہ دستاویزات دیکھنا چاہتا ہوں، آپ یہ مجھے فوری طور پر فراہم کریں، اس معاملے میں اہم آئینی ایشوز سامنے آئے ہیں عدالت ان کو دیکھے گی، سپریم کورٹ نے اس کیس میں اپنے فیصلے میں بھی مواد کو ناکافی قرار دیا تھا، میرا مائنڈ آج آپ نے بہت کلئیر کردیا ، عدالت نے کیس کی سماعت 11 جنوری تک کے لیے ملتوی کردی.

سائفر کیس کی سماعت کل تک کیلئے ملتوی 

سائفر کیس، آج مایوسی ہوئی، عدالت کو کہا فیصلے کو منوائیں، وکیل عمران خان

سائفر کیس میں چیئرمین پی ٹی آئی کا جیل ٹرائل کالعدم قرار

سائفر کیس،لگی دفعات میں سزا،عمر قید،سزائے موت ہے،ضمانت کیس کا فیصلہ

سائفر کیس، اسلام آباد ہائیکورٹ کا حکم امتناع،اڈیالہ جیل میں سماعت ملتوی

سائفر کیس، شاہ محمود قریشی کی درخواست ضمانت مسترد

اسلام آباد ہائیکورٹ کا سائفر کیس کی سماعت روکنے کا حکم

سائفر معاملہ؛ اعظم خان کے بعد فارن سیکرٹری بھی عمران خان کیخلاف گواہ بن گئے

سائفر کیس، عمران خان کو بیٹوں سے بات کروانے کی اجازت

Shares: