نیب ترامیم،سپریم کورٹ نے محفوظ فیصلہ سنا دیا، سپریم کورٹ نے انٹرا کورٹ اپیلیں منظور کر لیں

چیف جسٹس پاکستان قاضی فائز عیسیٰ کی سربراہی میں 5 رکنی بینچ نے فیصلہ سنایا ،جسٹس امین الدین خان، جسٹس جمال خان مندوخیل، جسٹس اطہر من اللّٰہ اور جسٹس حسن اظہر رضوی بینچ میں شامل ہیں،سپریم کورٹ نے فیصلے میں کہا کہ عمران خان ثابت نہیں کر سکے کہ نیب ترامیم غیر آئینی ہیں، سپریم کورٹ نے نے نیب ترامیم کالعدم قرار دینے کے خلاف اپیلوں پر 3 ماہ بعد محفوظ فیصلہ سناتے ہوئے نیب ترامیم بحال کر دیں، فیصلے میں کہا ہے کہ 3 رکنی بینچ کا فیصلہ ثابت نہیں کر سکا کہ نیب ترامیم آئین سے متصادم تھیں،جسٹس اطہرمن اللہ نے وفاقی حکومت کی انٹرا کورٹ اپیل مسترد کی،جسٹس اطہر من اللہ نے اکثریتی فیصلے سے اتفاق کیا،جسٹس حسن اظہر رضوی نے بھی اضافی نوٹ تحریر کیا ،زوہیر احمد اور زاہد عمران نے متاثرہ فریق کے طور پر انٹراکورٹ اپیلیں دائر کی تھیں

سپریم کورٹ نے فیصلے میں کہا کہ سپریم کورٹ کا نیب ترامیم کالعدم قرار دینے کیخلاف فیصلہ متفقہ ہے،سپریم کورٹ پارلیمنٹ کیلئے گیٹ کیپرکا کردارادا نہیں کرسکتی،چیف جسٹس اورججز پارلیمنٹ کیلئے گیٹ کیپر نہیں ہوسکتے،تفصیلی فیصلہ سپریم کورٹ کی ویب سائٹ پر جاری کیا جائے گا،

پی ڈی ایم کے دورِ حکومت میں نیب ترامیم منظور کی گئی تھیں، نیب قوانین کے سیکشن 2، 4، 5، 6، 14، 15، 21، 23، 25 اور 26 میں ترامیم کی گئی تھیں،نیب ترامیم کے خلاف عمران خان نے سپریم کورٹ میں درخواست دائر کی تھی، جس پر اس وقت کے چیف جسٹس عمر عطاء بندیال کی سربراہی میں 3 رکنی بینچ نے 5 ستمبر 2023ء کو کیس کا فیصلہ محفوظ کیا تھا،سپریم کورٹ نے 15ستمبر 2023ء کو عمران خان کی درخواست منظور کرتے ہوئے نیب ترامیم کالعدم قرار دیں،سپریم کورٹ نے فیصلہ سناتے ہوئے نیب ترامیم کی 10 میں سے 9 ترامیم کالعدم قرار دی تھیں،جس پر وفاقی اور صوبائی حکومتوں نے سپریم کورٹ میں انٹرا کورٹ اپیلیں دائر کیں۔

عمران خان نے نیب ترامیم کیس میں دائر اپیلوں پر ذاتی حیثیت میں دلائل دینے کی درخواست دائر کی تھی،سپریم کورٹ نے 10 مئی 2024ء کو انٹرا کورٹ اپیلیں سماعت کے لیے مقرر کرتے ہوئے 5 رکنی لارجر بینچ تشکیل دیا تھا،لارجر بینچ نے بانیٔ پی ٹی آئی کی بذریعہ ویڈیو لنک پیشی کی اجازت دی تھی،چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کی سربراہی میں 5 رکنی لارجر بینچ نے 3 رکنی بینچ کے فیصلے کے خلاف دائر وفاقی حکومت کی انٹرا کورٹ اپیل کی سماعت مکمل ہونے کے بعد 6 جون 2024ء کو فیصلہ محفوظ کیا تھا۔

نیب ترامیم کے تحت بہت سے معاملات کو نیب کے دائرہ اختیار سے نکال دیا گیا تھا، نیب ترامیم کو قومی احتساب آرڈیننس 1999 کے آغاز سے نافذ قرار دیا گیا تھا، نیب ترامیم کے تحت نیب 50 کروڑ سے کم مالیت کے معاملات کی تحقیقات نہیں کر سکتا، ترمیم کے تحت نیب دھوکا دہی کے مقدمے کی تحقیقات تب ہی کر سکتا ہے جب متاثرین 100 سے زیادہ ہوں،نیب ترامیم کے تحت ملزم کا زیادہ سے زیادہ 14 دن کا ریمانڈ لے سکتا ہے جسے بعد میں 30 دن تک بڑھا گیا، ترامیم کے تحت نیب وفاقی، صوبائی یا مقامی ٹیکس کے معاملات پر کارروائی نہیں کر سکتا تھا،ترامیم کے تحت ملک میں کام کرنے والے ریگولیٹری اداروں کو نیب کے دائرہ کار سے نکال دیا گیا تھا، افراد یا لین دین سے متعلق زیرِ التواء تمام پوچھ گچھ، تحقیقات، ٹرائلز متعلقہ اداروں اور عدالتوں کو منتقل ہوئیں۔

عمران خان نے نیب ترامیم کالعدم قرار دینے کے خلاف حکومتی انٹرا کورٹ اپیل سے متعلق تحریری جواب سپریم کورٹ میں جمع کروا یا تھاجس میں کہا تھا کہ کسی شخص کی کرپشن بچانے کے لیے قوانین میں ترامیم کرنا عوامی مفاد میں نہیں، کرپشن معیشت کے لیے تباہ کن اور اس کے منفی اثرات ہوتے ہیں، مجھ سے دوران سماعت جسٹس اطہر من اللہ نے کہا ترامیم کا فائدہ آپ کوبھی ہو گا مگر میرا مؤقف واضح ہے یہ میری ذات کا نہیں ملک کا معاملہ ہے،اسی طرح دبئی لیکس پر کوئی تحقیقا ت نہیں کی گئیں جس میں مختلف پبلک آفس ہولڈرز اور ان لوگوں کی آف شور جائیدادوں کا انکشاف ہوا جنہیں سرکاری خزانے سے ادائیگی کی جاتی ہے، وزیر داخلہ محسن نقوی کو یہ ظاہر کرنا چاہیئے کہ انہوں نے دبئی میں جائیداد خریدنے کے لیے رقم کیسے کمائی اور کن ذرائع سے بیرون ملک بھیجی ،نواز شریف، زرداری خاندان، راؤ انوار اور کئی سابق جرنیلوں کی جائیدادیں بھی بے نقاب ہو چکی ہیں، نیب یا ایف آئی اے کو ان کیسز کی فوری انکوائری کرنی چاہیئے تھی لیکن نیب ایسا نہیں کر رہا کیونکہ انہیں میرے خلاف خصوصی طور پر کام کرنے کی ہدایت کی گئی ہے، انصاف کا یہ منتخب نفاذ اس بدعنوانی کا واضح اشارہ ہے جو ہمارے نظام میں جڑ پکڑ چکی ہے،اگر کسی کے بیرون ملک اثاثہ جات ہوں تو ان کی تفصیلات پہلے ایم ایل اے کے ذریعے حاصل کی جاتی تھی لیکن اس کو بھی ختم کردیا گیا، اس سے پہلے، یہ ثابت کرنے کی ذمہ داری فرد پر تھی کہ ان کی دولت ان کے ذرائع آمدن سے مماثل ہو، نئے قانون کے تحت نیب کو ثابت کرنا ہوگا کہ پیسہ کرپشن کے ذریعے کمایا گیا، پبلک آفس ہولڈرز کی آمدنی کے ذرائع معروف ہیں، اور اگر کوئی رقم ان کے خاندان یا ملازمین کے نام ظاہر ہوتی ہے، تو ان سے اس کی اصلیت ثابت کرنے کے لیے نہیں کہا جائے گا کرپشن سے پاک پاکستان مزید سرمایہ کاری کو راغب کرے تاہم ان ترامیم کا مقصد ملکی اداروں کو کمزور کرنا اور طاقتوروں کو بچانا ہے، سپریم کورٹ کو ان سب معاملات کو مد نظر رکھنا چاہیے، پارلیمنٹ کو قانون سازی آئین کے اندر رہ کر کرنی چاہیئے، نیب اگر اختیار کا غلط استعمال کرتا ہے تو ترامیم اسے روکنے کی حد تک ہونی چاہئیں، اختیار کے غلط استعمال کی مثال میرے خلاف نیب کا توشہ خانہ کیس ہے، نیب نے میرے خلاف کیس بنانے کے لیے ایک کروڑ 80 لاکھ کے ہار کو 3 ارب 18 کروڑ کا بنا دیا۔

نیب ترامیم کیخلاف درخواست،جسٹس منصور علی شاہ کی فل کورٹ تشکیل دینے کی تجویز

 جسٹس منصور علی شاہ نے نیب ترامیم کیس میں دو صفحات پر مشتمل تحریری نوٹ جاری کر دیا

میری ریٹائرمنٹ قریب ہے، فیصلہ نہ دیا تو میرے لئے باعث شرمندگی ہوگا،چیف جسٹس

قیام پاکستان سے اب تک توشہ خانہ کے تحائف کی تفصیلات کا ریکارڈ عدالت میں پیش

نیب ٹیم توشہ خانہ کی گھڑی کی تحقیقات کے لئے یو اے ای پہنچ گئی، 

نیب قانون کا اصل مقصد سیاستدانوں کو سیاسی انتقام کا نشانہ بنانا یا سیاسی انجنئیرنگ تھا،سپریم کورٹ
نیب ترامیم کالعدم قرار دینے کے فیصلے کیخلاف انٹرا کورٹ اپیل کا تحریری فیصلہ جاری کردیا گیا،تحریری فیصلہ 16 صفحات پر جاری کیا گیا،جسٹس اطہر من اللہ کا اضافی نوٹ بھی تحریری فیصلہ میں شامل ہے جس میں کہا گیا ہے کہ چیف جسٹس کے فیصلہ سے اتفاق کرتا ہوں،حکومتی اپیلیں پریکٹس پروسیجر قانون کےتحت قابل سماعت نہیں،حکومت کی انٹرا کورٹ اپیلیں مسترد کی جاتی ہیں،متاثرہ فریقین کی انٹرا کورٹ اپیلیں منظور کی جاتیں ہیں،نیب ترامیم کیخلاف فیصلہ کالعدم قراردیا جاتاہے،ججز اور آرمی فورسز کے ارکان کو نیب قانون سے استثنی حاصل نہیں،اضافی نوٹ کی تفصیلی وجوہات بعد میں جاری کی جائیں گی،جسٹس اطہر من اللہ

فیصلہ چیف جسٹس قاضی فائز عیسٰی نے تحریری کیا ہے،فیصلہ میں کہا گیا کہ نیب قانون سابق آرمی چیف پرویز مشرف نے زبردستی اقتدار میں آنے کے 34 دن بعد بنایا،پرویز مشرف نے آئینی جمہوری آرڈر کو باہر پھینکا اور اپنے لئے قانون سازی کی،پرویز مشرف نے اعلیٰ عدلیہ کے ان ججز کو ہٹایا جنہوں نے غیر آئینی اقدام کی توسیع نہیں کی، آئین میں عدلیہ اور مقننہ کا کردار واضح ہے، عدلیہ اور مقننہ کو ایک دوسرے کے دائرہ کار میں مداخلت پر نہایت احتیاط کرنی چاہیے،آئین میں دئیے گئے فرائض کی انجام دہی کے دوران بہتر ہے کہ ادارے عوام کی خدمت کریں، چیف جسٹس اور سپریم کورٹ ججز پارلیمنٹ کے گیٹ کیپرز نہیں،مشرف دور میں بنائے گئے قانون کے دیباچہ میں لکھا گیا کہ نیب قانون کا مقصد کرپشن کا سدباب ہے جن سیاستدانوں یا سیاسی جماعتوں نے پرویز مشرف کو جوائن کیا انہیں بری کردیا گیا،نیب قانون کا اصل مقصد سیاستدانوں کو سیاسی انتقام کا نشانہ بنانا یا سیاسی انجنئیرنگ تھا،

Shares: