سپریم کورٹ میں بھٹو قتل صدراتی ریفرنس کی سماعت ،کمرہ عدالت میں سابق صدر آصف زرداری سابق وزیر خارجہ بلاول بھٹو، سینیٹر رضا ربانی، نئیر بخاری موجود ہیں ،پی پی رہنما نثار کھوڑو، ناصر شاہ، ڈاکٹر شیریں مزاری، ڈاکٹر نفیسہ شاہ اور دیگر بھی موجود ہیں

سابق وزیر اعظم ذولفقار بھٹو کے قتل سے متعلق صدارتی ریفرنس پر سماعت شروع ہو گئی،چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کی سربراہی میں سپریم کورٹ کا نو رکنی لارجر بینچ سماعت کررہا ہے۔چیف جسٹس کی سربراہی میں لارجر بینچ میں جسٹس سردار طارق ، جسٹس منصور علی شاہ اور جسٹس یحییٰ آفریدی شامل ہیں،جسٹس امین الدین خان ، جسٹس جمال خان مندوخیل اور جسٹس محمد علی مظہر بھی لارجر بینچ کا حصہ ہیں،جسٹس حسن اظہر رضوی اور جسٹس مسرت ہلالی بھی صدارتی ریفرنس کی سماعت کے لارجر بینچ میں شامل ہیں

فاروق ایچ نائیک اور اٹارنی جنرل عدالت میں پیش ہوئے، چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نےکہا کہ ہم یہ کاروائی براہ راست نشر کر رہے ہیں ،آپ سپریم کورٹ کی ویب سائٹ اور یوٹیوب پر کیس براہ راست دیکھ سکتے ہیں،آپ کی درخواست سے پہلے ہی ہم نے انتظام کر لیا تھا، فاروق ایچ نائیک کی جانب سے کاروائی براہ راست نشر کرنے پر اظہار تشکر کیا گیا ، چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے کہا کہ شکریہ کی بات نہیں یہ اہم سماعت ہے، ہم صدارتی ریفرنس شروع کر رہے ہیں،اٹارنی جنرل صاحب آپ آغاز کریں،اٹارنی جنرل نے کہا کہ مجھے کوئی ہدایات نہیں ملی کہ یہ ریفرنس نہ سنا جائے، چیف جسٹس قاضی فائز عیسیی نے کہا کہ یہ صدارتی ریفرنس ہے تو کیا حکومت اس کو اب بھی چلانا چاہتی ہے؟ اٹارنی جنرل نے کہا کہ مجھے ہدایات ہیں کہ صدارتی ریفرنس کو حکومت چلاناچاہتی ہے،اٹارنی جنرل نے کہا کہ ریفرنس 15 صفحات پر مشتمل ہے، چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے اٹارنی جنرل سے سوال کیا کہ صدارتی ریفرنس میں صدر صاحب ہم سے کیا چاہتے ہیں،اٹارنی جنرل نے کہا کہ یہ کیس آخری بار 2012 میں سنا گیا، بلاول بھٹو نے فریق بننے کی درخواست دے دی،فاروق ایچ نائیک نے کہا کہ میں بلاول بھٹو کی نمائندگی کرونگا، چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے کہا کہ پہلے یہ دیکھ لیتے ہیں کون کس کی نمائندگی کرتا ہے، ہم آپ کو ورثا کے طور پر بھی سن سکتے ہیں اور بحثیت سیاسی جماعت کے طور پر بھی،

عدالت نے ریفرنس میں پیش ہونے والے وکلا کے نام لکھ لیے، چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے کہا کہ سپریم کورٹ کی کارروائی پہلے پاکستان ٹیلی ویژن پر نشر کرتے تھے،اب ہماری کمیٹی نے فیصلہ کیا کہ سپریم کورٹ کی ویب سائٹ پر کارروائی لائیو ہوگی،کون سے صدر نے یہ ریفرنس بھیجا تھا، اٹارنی جنرل نے کہا کہ یہ ریفرنس صدر زرداری نے بھیجا تھا, چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے استفسار کیا کہ اس کے بعد کتنے صدر آئے،اٹارنی جنرل نے کہا کہ ان کے بعد دو صدور آ چکے ہیں،چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے کہا کہ کسی صدر نے یہ ریفرنس واپس نہیں لیا، سپریم کورٹ کی جانب سے پہلے ریفرنس مقرر نہ کئے جانے پر افسوس کا اظہار کرتا ہوں، احمد رضا قصوری نے کہا کہ اس کیس میں مجھے بھی سنا جائے، چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے کہا کہ ہر قانونی وراث کا حق ہے کہ اسے سنا جائے، جسٹس منصور علی شاہ نے کہا کہ آپ ریفرنس کا ٹائٹل پڑھیں،اٹارنی جنرل نے ریفرنس میں اُٹھائے گئے سوالات عدالت کے سامنے رکھ دیئے،ریفرنس میں جج کے تعصب سے متعلق آصف زرداری کیس 2001 کا بھی حوالہ دیا گیا،جسٹس مسرت ہلالی نے استفسار کیا کہ کیا لاہور ہائی کورٹ میں ٹرائل کے دوران بنیچ پر اعتراض کی کوئی درخواست دی گئی،اٹارنی جنرل نے کہا کہ ریکارڈ کے مطابق کئی درخواستیں دی گئی تھی، ،اٹارنی جنرل نے جسٹس (ر)نسیم حسن شاہ کے انٹرویو کا حوالہ دیا، چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے استفسار کیا کہ یہ انٹرویو کس کو دیا گیا تھا، فاروق ایچ نائیک نے کہا کہ یہ انٹرویو جیو پر پروگرام جوابدہ میں افتخار احمد کو دیا گیا تھا، چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے استفسار کیا کہ کیا افتخار احمد اب بھی جیو میں موجود ہے، فاروق ایچ نائیک نے کہا کہ اب وہ جیو میں نہیں ہے، انٹرویو موجود ہے، چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے کہا کہ دو انٹرویو کا ذکر کیا گیا ہے، فاروق ایچ نائیک نے کہا کہ دوسرا انٹرویو کسی انجان کو دیا گیا ، دوسرے انٹرویو میں نسیم حسن شاہ نے کہا مارشل لاء والوں کی بات ماننی پڑتی ہے، احمد رضا قصوری روسٹروم پر آگئےماحمد رضا قصوری نے نسیم حسن شاہ کے نوائے وقت کے انٹرویو کا حوالہ دیامجسٹس جمال مندو خیل نے کہا کہ کیا آپ نسیم حسن شاہ کے انٹرویو پر انحصار کریں گے، جسٹس نسیم حسن شاہ نے یہ بتایا کہ کس نے ان پر دباو ڈالا تھا،فاروق ایچ نائیک نے کہا کہ اس وقت مارشل لا تھا تو مارشل لا کی بات کی گئی،

چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے کہا کہ ایک سینئر ممبر بینچ میں شامل نہیں ہونا چاہتے تھے، دو اور ججز نے ذاتی وجوہات پر معذت کی، اس کے بعد 9 رکنی بنچ تشکیل دیا گیا، احمد رضا قصوری نے کہا کہ ریفرنس میں کوئی قانونی سوال نہیں اٹھایا تھا، بابر اعوان بوکھلاہٹ کا شکار ہو گئے تھے،جسٹس میاں محمد علی مظہر نے کہا کہ کیا اس میں ضمنی ریفرنس بھی آیا تھا، اٹارنی جنرل نے کہا کہ متفرق درخواست کے ساتھ چیزیں آئی تھیں،چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے کہا کہ سپریم کورٹ آرڈر میں اس کا ذکر کیوں تھا،اٹارنی جنرل نے کہا کہ 21 اپریل 2011 کو صدارتی حکمنامہ جاری کیا گیا تھا، جسٹس سردار طارق مسعود نے کہا کہ بھٹو ریفرنس میں تو کوئی سوالات تھے ہی نہیں تو سپلیمنٹری ریفرنس داخل کیوں کیا گیا؟اٹارنی جنرل نے کہا کہ صدارتی حکمنامے کے ذریعے بھٹو ریفرنس کے سوالات فریم کیے گئے، چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے استفسار کیا کہ صدارتی ریفرنس کس وکیل نے دائر کیا؟ اٹارنی جنرل نے کہا کہ صدارتی ریفرنس 2011 میں بابر اعوان کے ذریعے دائر کیا گیا لیکن ان کا لائسنس دو سال کیلئے منسوخ ہوا، احمد رضا قصوری نے کہا کہ صدارتی ریفرنس کی 2012 میں سماعت کے دوران بابر اعوان سے سخت سوالات ہوئے،بابر اعوان کے پاس عدالتی سوالات کا جواب نہیں تھا تو وہ مشتعل ہوئے اور عدالت نے ان کا لائسنس منسوخ کیا،

چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے اٹارنی جنرل کو ہدایت کی کہ آپ ریفرنس کے سوالات پڑھیں، اس کیس میں کئی وکلا وفات پاچکے،اس کیس میں عدالتی معاونین مقرر کریں گے ، ناموں کا فیصلہ بعد میں کرتے ہیں،فاروق ایچ نائیک نے کہا کہ میں انٹرویوز کا ٹرانسکریپٹ اور ویڈیوز پیش کروں گا،احمد رضا قصوری نے کہا کہ تو یہ چیزیں تو میں نے دینی تھی،چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے کہا کہ وہ دیتے اور صفائی میں آجاتے،ایس ایم ظفر اور مختلف وکلا استعمال کرچکے ہیں ،علی احمد کرد صاحب کیا آپ معاونت کرینگے، علی احمد کرد نے کہا کہ جی میں معاونت کروں گا، چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے کہا کہ کیا اعتزاز احسن اس کیس میں آئینگے؟ معاون وکیل اعتزاز احسن نے کہا کہ اعتزاز وکیل بھی ہیں بطور معاون نہیں آئینگے، چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے کہا کہ آپ تقریر نہ کریں ہاں یا نہ میں بتائیں، معاون وکیل نے کہا کہ نہیں وہ بطور معاون نہیں آئینگے، چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے کہا کہ قاضی اشرف بھی اس کیس میں معاون تھے،فاروق ایچ نائیک نے کہا کہ قاضی اشرف تندرست ہیں اور پریکٹس کررہے ہیں، چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے استفسار کیا کہ کیا پولیس سے کیس کا اصل ریکارڈ ملا تھا، اٹارنی جنرل نے کہا کہ ریکارڈ اصل نہیں ملا، فاروق ایچ نائیک نے کہا کہ ریکارڈ کے تین بنڈل آئے تھے ،

جسٹس منصور علی شاہ نے صدارتی ریفرنس پر سوالات اٹھا دیئے ، جسٹس منصور علی شاہ نے کہا کہ سپریم کورٹ بھٹو کیس میں فیصلہ سنا چکی اور نظرثانی بھی خارج ہو چکی،ایک ختم ہوئے کیس کو دوبارہ کیسے دیکھ سکتے ہیں؟ سپریم کورٹ دوسری نظرثانی نہیں سن سکتی، ایک معاملہ ختم ہو چکا ہے، عدالت کو یہ تو بتائیں کہ اس کیس میں قانونی سوال کیا ہے،فیصلہ برا تھا تو بھی سپریم کورٹ کا فیصلہ حتمی ہے بدلا نہیں جا سکتا،یہ آئینی سوالات ہیں جن کا جواب ضروری ہے، جسٹس منصور علی شاہ نے فاروق ایچ نائیک سے مکالمہ کرتے ہوئے کہا کہ آپ عدالت کو کوئی قانونی حوالہ تو دیں،آرٹیکل 186 کے تحت دائر صدارتی ریفرنس کے ذریعے سپریم کورٹ کے فیصلوں پر نظرثانی نہیں ہو سکتی،اب ہم بھٹو فیصلے کو چھو بھی نہیں سکتے، عدالت کو بتائیں کو جو معاملہ حتمی ہو کر ختم ہو چکا اسے دوبارہ کیسے کھولیں؟ فاروق ایچ نائیک نے کہا کہ بھٹو کیس عوامی اہمیت کا حامل کیس تھا، جسٹس منصور علی شاہ نے کہا کہ عوامی اہمیت کا حامل سوال صدر نے دیکھنا تھا عدالت قانونی سوال دیکھے گی، جو بھی کیس ہو عدالت قانونی سوالات کے بغیر فیصلہ کیسے کر سکتی ہے؟عدالت کس قانون کے تحت یہ ریفرنس چلائے؟ کیا جب یہ سارا کیس چلا مُلک میں آئین موجود تھا ؟ اٹارنی جنرل نے کہا کہ اُس وقت ملک میں مارشل لاء تھا ،فاروق ایچ نائیک نے کہا کہ کیس میں جو شکایات دائر ہوئی تھی اس کا ریکارڈ موصول نہیں ہوا تھا،عدالت نے حکم نامے میں رجسٹرار لاہور ہائی کورٹ کو سارا ریکارڈ فراہم کرنے کا کہا تھا، چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے کہا کہ جو ٹریبونل بنایا تھا اس کا کیا نام تھا ؟ فاروق ایچ نائیک نے کہا کہ ٹریبونل نے دیکھنا تھا کہ ذوالفقار علی بھٹو کے خلاف مقدمات درست تھے یا نہیں،ٹریبونل نے ذوالفقار علی بھٹو کے خلاف تمام مقدمات کو جعلی قرار دیا تھا ،اب معلوم نہیں اس ٹریبونل کا ریکارڈ کہاں ہے، چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے کہا کہ آپ چاہتے ہیں کہ یہ ریفرنس کھبی نہ سنا جائے تو اعتراض اٹھاتے رہیں،ہمارے سامنے وہ بات کریں جو سامنے موجود ہے،ایسا کرنا ہے تو ایک درخواست دے دیں کہ کس کس کو احکامات دیئے جائیں،اٹارنی جنرل نے کہا کہ شفیع الرحمان ٹریبونل رپورٹ کو پبلک کیا تھا،جسٹس منصور علی شاہ نے کہا کہ پھانسی کا فیصلہ سپریم کورٹ سے برقرار رہا اور نظرثانی کی اپیل بھی مسترد ہوئی ،اٹارنی جنرل آپ ہمیں اب اس ریفرنس کے قابل سماعت ہونے پرمطمئن کریں، آپ ہمیں بتائیں ارٹیکل 186 کے تحت قانونی سوال کیا ہے؟جو فیصلہ حتمی ہوچکا ہے اس کو ٹچ نہیں کرسکتے ،

چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے حکم نامہ لکھوانا شروع کر دیا، حکمنامہ میں کہا گیا کہ آرٹیکل 186 کے تحت صدارتی ریفرنس دائر کر دکیا گیا،آخری بار ریفرنس 2012 میں سنا گیا،بدقسمتی سے یہ ریفرنس اس کے بعد سنا نہیں گیا اور زیر التوا رہا،فاروق اییچ نائیک نے بلاول بھٹو کی جانب سے فریق بننے کی درخواست دی،فاروق ایچ نائیک نے بتایا کہ ذوالفقار بھٹو کی صرف ایک بیٹی زندہ ہیں،عدالت کو بتایا گیا کہ ذوالفقار بھٹو کے 8پوتے پوتیاں،نواسے نواسیاں ہیں،ورثا کی جانب سے جو بھی وکیل کرنا چاہے کر سکتا ہے،بلاول بھٹو کی جانب سے براہ راست نشریات کی بھی درخواست دائر کی گئی،براہ راست نشریات کی درخواست غیر موثر ہو چکی،ہم آئینی معاملات پر بھی اور کریمنل معاملات پر بھی ماہر معاون مقرر کر دیتے ہیں ،

جسٹس منظور ملک کو عدالتی معاون بنانے کا فیصلہ کیا گیا، چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے کہا کہ خواجہ حارث،خالد جاوید خان اور سلمان صفدر کو بھی عدالتی معاون بنالیتے ہیں،کیا کسی کو ان معاونین پر اعتراض ہے؟ احمد رضا قصوری نےرضا ربانی پر اعتراض کیا، اور کہا کہ عدالتی معاونین نیوٹرل ہونے چاہئیں ،چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے کہا کہ صلاح الدین،زاہد ابراہیم ،فیصل صدیقی بھی معاون ہوسکتے ہیں ،ذوالفقار علی بھٹو کے ورثا اگر اپنا وکیل مقرر کرنا چاہے تو کرسکتے ہیں، ریفرنس پر آئندہ سماعت کب رکھیں، اٹارنی جنرل نے کہا کہ سردیوں کی چھٹیوں کے بعد کی تاریخ رکھیں،چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے کہا کہ اس بار کی چھٹیوں کے بعد ہی رکھیں نا ،آخری سماعت کب ہوئی تھی،یہ کیس گیارہ سال بعد مقرر کیوں ہوا، اٹارنی جنرل نے کہا کہ یہ جواب آپ نے دینا ہے،احمد رضا قصوری نے سماعت الیکشن کے بعد تک ملتوی کرنے کی استدعا کی اور کہا کہ یہ کیس الیکشن کے لیے استعمال نہیں ہونا چاہیے، چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے کہا کہ قصوری صاحب اس ریفرنس کے بعد کئی ریفرنس آئے، اس وقت بھی الیکشن معاملات تھے مگر وہ ریفرنس سنے گئے، اب یہ ریفرنس دیر آئد درست آئد پر ہے،جنوری میں آئندہ سماعت ہوگی

علی احمد کرد روسٹرم پر آگئے اور کہا کہ کئی عدالتی معاونین کا انتقال ہوچکا ہے، کیا عدالت ان کے لیے افسوس کا اظہار نہیں کرے گی؟ چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے کہا کہ کرد صاحب یہ کیس بھی سنجیدگی کا متقاضی ہے، اسے سنجیدگی سے دیکھنے دیں، آپ نے کوئی بیان دینا ہے تو میڈیا پر جا کردیں ،اٹارنی جنرل سے پوچھا گیا کیا صدارتی ریفرنس کبھی واپس لیا گیا ؟عدالتی حکم پر اٹارنی جنرل نے ریفرنس پڑھ کر سنایا ،ریفرنس میں مقرر کیے گئے معاونین کا انتقال ہوچکا ہے، ایک معاون علی احمد کرد ہیں جو معاونت پر بھی رضا مند ہوئے، مخدوم علی خان کے معاون وکیل نے بتایا کہ وہ معاونت کے لیے تیار ہیں ، آرٹیکل 186 کے اسکوپ کا معاملہ توجہ طلب ہے، کس نوعیت کی رائے دی جاسکتی ہے یہ بھی اہم معاملہ ہے،معاملے کے قابل سماعت ہونے پر فوجداری اور آئینی ماہرین کی رائے کیا ہوگی؟جسٹس (ر) منظور ملک کو بھی عدالتی معاون مقرر کیا جاتا ہے،عدالتی معاون تحریری یا زبانی طور پر معاونت کرسکتے ہیں،خواجہ حارث بطور ایڈووکیٹ جنرل پنچاب کیس کا حصہ رہ چکے ہیں، خواجہ حارث کو عدالتی معاون مقرر کیا جاتا ہے، سلمان صفدر ، رضا ربانی ، خالد جاوید ، ذاہد ابراہیم اور یاسر قریشی بھی معاون مقرر کرتے ہیں ،عدالتی معاونین فوجداری اور آئینی معاملات پر رائے دیں ،یفرنس میں ایک انٹرویو کابھی حوالہ بنایا گیا ہے،احمد رضا قصوری نے بھی نسیم حسن شاہ کی کتاب کا حوالہ دیا،فاروق نائیک نے جسٹس دراب پٹیل کے انٹرویو کا بھی حوالہ دیا،فاروق نائیک اسی انٹرویو کا ٹرانسکرپٹ بھی فراہم کرینگے،

نسیم حسن شاہ کا انٹرویو فراہم کرنے کے لیے نجی ٹی وی چینل کو بھی نوٹس جاری کر دیا گیا،حکمنامہ میں کہا گیا کہ آخری سماعت پر سپریم کورٹ بار اور عاصمہ جہانگیر کو بھی نوٹس جاری کیا گیا تھا،سپریم کورٹ بار بھی وکیل مقرر کرنا چاہتے ہیں تو کرلیں، سابق جج منظور ملک کو عدالتی معاون مقرر کر دیا گیا،جسٹس ر منظور ملک کو عدالتی معاون مقرر کیا جاتا ہے،جسٹس ر منظور ملک کی معاونت ان کی رضامندی سے مشروط ہوگی، جسٹس ر منظور ملک کرمنل معاملات پر عدالت کی معاونت کیلئے تحریری جواب یا ذاتی حیثیت میں پیش ہو سکتے ہیں،فوجداری معاملات پر عدالت کی معاونت کیلئے خواجہ حارث کو بھی عدالتی معاون مقرر کیا جاتا ہے، بیرسٹر سلمان صفدر بھی عدالتی معاون مقرر کیے جاتے ہیں،مخدوم علی خان اور احمد علی کرد پہلے سے ہی عدالتی معاون مقرر ہیں،

سپریم کورٹ کی جانب سے 9 افراد عدالتی معاون مقرر کر دیئے گئے، سپریم کورٹ نے کہا کہ معاونت کی جائے کہ ریفرنس میں عدالت سے کس قسم کی رائے درکار ہے؟ عدلت کی معاونت کی جائے کہ صدارتی ریفرنس قابل سماعت کیسے ہے؟ ریفرنس کے قابل سماعت ہونے پر فوجداری اور آئینی معاملات پر معاونین درکار ہوں گے،عدالت کے پہلے سے 10مقرر کردہ عدالتی معاونین میں سے6 کا انتقال ہو چکا،جیو نیوز ذوالفقار بھٹو کیس سے متعلق انٹرویوز اور کلپس کا ریکارڈ فراہم کرے ،سپریم کورٹ نے جسٹس دراب پٹیل کے انٹرویو کا ریکارڈ بھی طلب کر لیا،ججز کی دستیابی پر آئندہ سماعت کی تاریخ دی جائے گی،جنوری سے صدارتی ریفرنس کی سماعت روزانہ کی بنیاد پر ہوگی، جنوری میں سماعت شروع ہونے پر کوئی التوا نہیں دیا جائے گا،،ذوالفقار علی بھٹو کی پھانسی سے متعلق صدارتی ریفرنس کی سماعت جنوری تک ملتوی کر دی گئی،تمام عدالتی معاونین کو نوٹس جاری کر دیئے گئے،

بھٹو ریفرنس کی کاروائی براہ راست دکھائی گئی،گزشتہ روز پیپلز پارٹی کے چیئرمین بلاول زرداری نے کاروائی براہ راست دکھانے کی درخواست دائر کی تھی، درخواست بلاول بھٹو کی جانب سے وکیل فاروق ایچ نائیک نے دائر کی، سپریم کورٹ میں‌دائر درخواست میں استدعا کی گئی ہے کہ انصاف کے تقاضوں کو مدنظر رکھتے ہوئے ریفرنس کی سماعت براہ راست نشر کی جائے،

واضح رہے کہ سابق صدر آصف زرداری نے اپریل 2011 میں صدارتی ریفرنس سپریم کورٹ میں دائر کیا تھا، جس کے بعد ذوالفقار بھٹو سے متعلق صدارتی ریفرنس پر اب تک سپریم کورٹ میں 6 سماعتیں ہوچکی ہیں، اس وقت سپریم کورٹ کے چیف جسٹس افتخار محمد چوہدری نے اپنی سربراہی میں 11 رکنی لارجر بینچ تشکیل دیا تھا جس نے 3 جنوری 2012 سے 12 نومبر 2012 تک کیس کی 6 سماعتیں کیں لیکن کوئی فیصلہ نہ دیا، صدارتی ریفرنس پر آخری سماعت 9 رکنی لارجر بینچ نے کی تھی، اب تقریباً 11 برس کے طویل عرصے بعد ریفرنس دوبارہ سماعت کے لیے مقرر کیا گیا ہے۔

بشریٰ بی بی، بزدار، حریم شاہ گینگ بے نقاب،مبشر لقمان کو کیسے پھنسایا؟ تہلکہ خیز انکشاف

لوگ لندن اور امریکہ سے پرتگال کیوں بھاگ رہے ہیں،مبشر لقمان کی پرتگال سے خصوصی ویڈیو

مبشر لقمان کا کہنا تھا کہ بہت ہی اہم خبر لے کر آیا ہوں، 

مبش لقمان کا کہنا تھا کہ ضیا الحق کی مدد کرنے والوں میں نواز شریف سب سے آگے تھے

خاور مانیکا انٹرویو اور شاہ زیب خانزادہ کا کردار،مبشر لقمان نے اندرونی کہانی کھول دی

وزیراعظم سمیت کروڑوں کا ڈیٹا لیک،سیاست کا 12واں کھلاڑی کون

Shares: