برہنہ ویڈیوز کا سلسلہ ختم کیوں نہیں ہو رہا، تحریر:نوید شیخ

0
103

کپیٹن صفدر نے کہا ہے کہ اتنی گندی ویڈیوز ریلیز ہونے والی ہیں کہ دیکھنے کے بعد عرق گلاب سے آنکھیں دھونی پڑنی ہیں۔ اب یہ ویڈیوز تو پتہ نہیں کب منظر عام پر آنی ہیں ۔ مگر اس وقت پورے پاکستان میں برہنہ ویڈیوز اور لیک ویڈیوز ہونے کا ایک ایسا رواج چل پڑا ہے کہ ہمارا پورا کا پورا معاشرہ ننگا ہو کر رہ گیا ۔ معاشی اور سیاسی طور پر تو ہم پہلے ہی زوال کا شکار ہیں ۔ پر ساتھ اب ہمارے ملک کا اخلاقی طور پر بھی جنازہ نکل رہا ہے ۔ کبھی فیصل آباد میں کاغذ چننے والیوں کی برہنہ ویڈیوز سامنے آتی ہیں تو کبھی تھیڑاداکاروں کی ویڈیوز تو کبھی ایسے ایسے جنسی اسکینڈل نکل کر سامنے آرہے ہیں کہ مجھے تو ٹی وی اور اخبار اٹھاتے ہوئے اب ڈر لگنے لگا ہے ۔

۔ جو کل کوئٹہ سے اسٹوری سامنے آئی ہے ۔ اس نے تو اوسان خطا کر دیے ہیں ۔ سب کچھ بتانے سے پہلے میں واضح کر دوں کہ میری نظر میں ان تمام چیزوں کی سب سے بڑی ذمہ داری ریاست اور حکومت پاکستان کی ہے ۔ کیونکہ جس ملک میں نظام عدل کا وجود نہ ہو ۔ جس ملک کی حکومت بیرون ملک پلٹ نکمے کھلاڑیوں پر مشتمل ہو ۔ وہاں پھر ایسے درندے ۔ ایسے جرائم پیشہ لوگ دلیر ہوجاتے ہیں ۔ کیونکہ ان کو پتہ ہوتا ہے کہ جب مرضی اس قانون کے جالے کو پھاڑ کر ہم نکل جائیں گے ۔ اس لیے جو کرنا ہے کر گزرو۔۔۔ اور یہ جو کچھ بھی اس وقت پاکستان میں ہو رہا ہے ۔ اسکی سب سے بڑی ذمہ داری حکومت وقت پر پڑتی ہے ۔ یہ جو کوئٹہ میں اسٹوری سامنے آئی ہے یہ اتنی خوفناک ہے کہ دل دہل جاتا ہے ۔ یہ میری زندگی کی مشکل ترین اسٹوری ہے ۔ جس کو آپ تک پہنچتے ہوئے ۔ روح کانپ اٹھی ہے ۔ ہوا کچھ یوں کہ کوئٹہ میں ملزمان لڑکیوں کو نوکری کا جھانسہ دے کر بلاتے ۔ پھر جھانسہ دے کر نشہ آور مواد پلایا جاتا اور اس کے بعد نازیبا ویڈیوز بنا کر بلیک میل کیا جاتا تھا ۔ ان ویڈیوز میں نظر آنے والے مناظر نہایت دردناک ہیں، ان میں لڑکیوں کو برہنہ کرکے ان کے گلے میں رسی ڈال کر ان کو گھسیٹا جاتا ہے، تھپڑوں سے مار جاتا ہے، بال نوچے جاتے ہیں، پاؤں انکے منہ پہ مارے جاتے ہیں غرض جس قدر درندگی ہوسکتی ہے ان ویڈیوز میں موجود ہے اس لیے ہدایت خلجی کا ڈارک ویب سے بھی تعلق نظرانداز نہیں کیا جاسکتا۔

۔ یہ 200 سے زائد بچیاں ہیں جن کو نوکری اور روزگار کا جھانسہ دے کر نشے کا عادی بنا کر انہیں تشدد اور جنسی زیادتی کا نشانہ بنا کر برہنہ ویڈیوز بنانے اور بلیک میل کرنے والے گروہ کا سرغنہ، بدنامِ زمانہ ڈرگ ڈیلر حبیب اللہ کا بیٹا سابقہِ کونسلر ہدایت خلجی نامی درندے نے یہ گھناؤنا کھیل بلوچستان یونیورسٹی کی طالبات سے شروع کیا۔ اس سارے گندے کھیل میں اسے بااثر سیاسی افراد کی پشت پناہی حاصل رہی جن کے پاس لڑکیوں کو بھیجا جاتا تھا اس لیے بھی اس کے خلاف کبھی کوئی خاص کاروائی نہیں ہوئی۔ اب مختلف کیسز اور متاثرہ خواتین کی شکایات سامنے آنے کے بعد ہدایت خلجی اور اسکے بھائی کو بظاہر گرفتار کرلیا گیا ہے ان کے قبضے سے سینکڑوں لڑکیوں کی نازیبا ویڈیوز برآمد کرکے لیپ ٹاپ، متعدد موبائلز اور دیگر ڈیوائسز قبضے میں لے لی گئی ہیں۔ تاہم سیاسی دباؤ کی وجہ سے پولیس کاروائی کرنے کی پوزیشن میں نہیں اس لیے کوئی خاص ایکشن نظر نہیں آ رہا۔ ہدایت خلجی کے اثرورسوخ کا اندازہ ایک خاتون کے اس بیان سے بھی لگایا جاسکتا ہے جس میں ایک متاثرہ خاتون کا کہنا ہے کہ جب وہ قائد آباد کوئٹہ کے SHO شیخ قاضی کے پاس ملزم ہدایت خلجی کے خلاف مقدمہ درج کرنے گئی تو شیخ قاضی ایس ایچ او نے بھی متاثرہ لڑکی کو اپنے پاس رکھا اور ذیادتی کا نشانہ بنایا اور بعد میں پریشر ڈالنے کے لیے مجھے، میری بہن اور میرے بھائی کو اٹھا کر لے گئے، میرے بہن، بھائی کا ابھی تک علم نہیں کہ وہ کہاں، کس حال میں ہیں۔

۔ ہدایت خلجی سے جو ویڈیوز برآمد ہوئی ہیں ان میں 6 ہزارہ، 221 پشتون، 63 بلوچ اور 22 اردو بولنے والی لڑکیاں شامل ہیں۔ اس وقت ملزمان ہدایت اللہ اور خلیل 14 روزہ جسمانی ریمانڈ پر پولیس کی تحویل میں ہیں مقدمے میں زیرحراست ملزمان سمیت 3 افراد نامزد کئے گئے ہیں پولیس کے مطابق ملزمان سے تحقیقات جاری ہیں ۔ ملزمان سے برآمد کئے گئے موبائل فون، لیپ ٹاپ، ویڈیو، کو پنجاب فرانزک لیبارٹری بھجوا دیا گیا ہے۔ ویڈیو کی تحقیقات کے لئے ایس ایس پی آپریشنز کی سربراہی میں ایک کمیٹی بھی بنائی گئی ہے۔ جو تحقیقات کر رہی ہے۔ کیس میں نامز د ملزم شائی کی گرفتاری کیلئے چھاپے جاری ہیں ۔ پھر ملزمان کی جانب سے اغوا کی گئی 2 لڑکیاں افغانستان میں ہیں ۔ لڑکیوں کی واپسی کے لیے وفاقی سطح پر افغان حکومت سے رابطہ کیا جا رہا ہے۔

۔ ان نازیبا ویڈیو کیس کے حوالہ سے ڈی آئی جی کوئٹہ کا کہنا ہے کہ کیس کی تحقیقات جاری ہیں، بہت انکشافات سامنے آئی ہیں۔ ملزمان ویڈیوز کب سے بنا رہے تھے اس کی بھی تحقیقات جاری ہیں ،ملزم ہدایت کے خلاف دو مقدمے درج ہیں، ملزم نے کسی بھی لڑکی کو بلیک میل کیا ہو تو وہ ہم سے رابطہ کرے ، نام صیغہ راز میں رکھا جائے گا، ہم چاہتے ہیں ملزمان کے خلاف زیادہ سے زیادہ ثبوت ملیں اور کیس مضبوط ہو تا کہ ملزمان کو کڑی سے کڑی سزا مل سکے۔۔ مجھے نہیں پتہ کب تک اس ملک میں صرف قانون ہی بنتے رہیں گے، کب یہ اندھا، گونگا، بہرہ نظام انصاف جاگے گا۔ کب تک لوگ خود قانون ہاتھ میں لیں گے۔ کب تک ایسے درندے ہمارے معاشرے میں دندناتے پھریں گے۔ کب تک ہماری مائیں،بہنیں اور بیٹیاں مجبوری کے ہاتھ تنگ آ کر ان درندوں کے ہاتھ استعمال ہوتی رہیں گی۔ ایسے درندوں کو لٹکا دینا چاہیے انکے سیاسی یاروں کو جو خدمت کے نام پہ ووٹ لیکر فرعون بن جاتے ہیں عزتوں سے کھیلتے ہیں، مجرموں، زانیوں، قاتلوں اور منشیات فروشوں کی پشت پناہی کرتے۔ ان گندے کرداروں کا نام بھی سامنے آنا چاہیئے ۔ تاکہ عوام جان سکیں کہ کیسے گندے لوگ حکمران بنے بیٹھے ہیں ۔ میرا حکومت سے بھی سوال ہے کہ جب آپ اپنے سیاسی معاملات کے ایجنسیز کو استعمال کرسکتے ہیں تو ایسے گھناونے کرداروں کا قلع قمع کرنے کے لیے ان ایجنسیوں کو استعمال کیوں نہیں کرتے ۔ کیا عوام کا دکھ درد آپ کو دیکھائی نہیں دیتا ۔ یادرکھیں ایک سب نے مر جانا ہے ۔ اور اس وقت نہ کوئی رتبہ ، عہدہ ، پیسہ اور زمین کام نہ آئے گی ۔ ایسا اسکینڈل اور اسٹوری کسی اور ملک میں آئی ہوتی تو ابھی تک اس ملک کے تمام ادارے ، حکومتیں ، عوام جت جاتے کہ ان درندے صفت کرداروں کا قلع قمع کیا جائے ۔ پر یہ پاکستان ہی ہے جہاں وزیر اعظم سے لے کر وزیر اطلاعات تک روز دسیوں پر بار ٹی وی پر آتے ہیں ۔ ان کو اپوزیشن کی بینڈ بجانا یاد رہتا ہے یہ عوام کے دکھ دیکھائی نہیں دیتے ۔ میری شکایت اعلی عدالتوں سے بھی ہے جن کے کسی جج کا نام آجائے تو
suo motoلے لیا جاتا ہے ۔ مگر یہاں دو سو سے زائد بچیوں کی زندگی زندہ درگوں کردی گئی ۔ مگر ہماری حکومت ، ہماری عدالت ، ہمارے ادارے سب خاموش ہیں ۔

Leave a reply