اسلام آباد: سینیٹ کی قائمہ کمیٹی تعلیم کا جعلی اور غیررجسٹرڈ اعلیٰ تعلیمی اداروں کی موجودگی پر ہائیرایجوکیشن کمیشن پر شدید برہمی کااظہارکیا ہے-
صرف اشتہارویب سائٹ پر لگانے سے ایچ ای سی کی ذمہ داری پوری نہیں ہوتی جعلی دکانوں کوفورا بند کریں،چیرمین کمیٹی
ایچ ای سی بغیر چیرمین کے چل رہی ہے اوربیرو ن ملک جانے والے طالب علموں کاان کے پاس کوئی ڈیٹا نہیں ہے ،حکام کا انکشاف
بیرون ملک جانے والے طلبہ کامکمل ریکارڈ رکھاجائے کہ طالب علم کس ملک اور س چیز کی تعلیم کے لیے جارہاہے ،کمیٹی
ٹیکنالوجسٹ کی ایکوینس(برابری)کے سرٹیفکیٹ کوفورا بحال کیاجائے اور سروس سٹکچربنایاجائے ،کمیٹی کی ہدایت
سندھ میں یکساں نصاب تعلیم نافذنہ کرنے پر سینیٹر جام مہتاب کو سند ھ حکومت کے اعتراضات سے کمیٹی کوآگاہ کرنے کی ہدایت
سندھ میں یکساں نصاب تعلیم اچھا اقدام ہے سندھ کے اعتراضات دور کریں گے
یکساں نصاب کےماڈل کتابوں کا سیٹ کمیٹی نے طلب کرلیا
باغی ٹی وی : تفصیلات کے مطابق سینیٹ کی قائمہ کمیٹی تعلیم نے ملک میں جعلی اور غیررجسٹرڈ اعلیٰ تعلیمی اداروں کی موجودگی پر ہائیرایجوکیشن کمیشن پر شدید برہمی کااظہارکرتے ہوئے کہاکہ صرف اشتہارویب سائٹ پر لگانے سے ایچ ای سی کی ذمہ داری پوری نہیں ہوتی جعلی دکانوں کوفورا بند کریں ان سے طلبہ کے پیسے اور تعلیم دونوں کانقصان ہورہا ہے –
ایچ ای سی حکام نے کمیٹی میں انکشاف کیاکہ ایچ ای سی بغیر چیرمین کے چل رہی ہے اوربیرو ن ملک جانے والے طالب علموں کاان کے پاس کوئی ڈیٹا نہیں ہے جس پر کمیٹی نے ہدایت کی کہ بیرون ملک جانے والے طلبہ کامکمل ریکارڈ رکھاجائے کہ طالب علم کس ملک اور س چیز کی تعلیم کے لیے جارہاہے ،کمیٹی نے ایچ ای سی کو ہدایت کی کہ ٹیکنالوجسٹ کی ایکوینس(برابری)کے سرٹیفکیٹ کوفورا بحال کیاجائے اور جب تک ٹیکنالوجسٹ کا سروس سٹکچر نہیں بنتاہے اس وقت تک اس کو منسوخ نہ کیاجائے ،جس اجلاس میں ایکوینس سرٹیفکیٹ کو منسوخ کیاگیاتھااس فیصلہ کی فائل کمیٹی میں پیش کی جائے ،یکساں نصاب کےماڈل کتابوں کا سیٹ کمیٹی نے طلب کرلیا،سندھ میں یکساں نصاب تعلیم نافذنہ کرنے پر سینیٹر جام مہتاب کو سند ھ حکومت کے اعتراضات سے کمیٹی کوآگاہ کرنے کی ہدایت کردی گئی سندھ میں یکساں نصاب تعلیم اچھا اقدام ہے سندھ کے اعتراضات دور کریں گے ۔
منگل کو سینیٹ کی قائمہ کمیٹی تعلیم کا اجلاس عرفان الحق صدیقی کی سربرہی میں پارلیمنٹ ہاوس میں ہوا۔اجلا س میں سینیٹر مہرتاج روغانی ،اعجاز چوہدری ،فلک ناز چترالی ،جام مہتاب ، انجینئررخسانہ زبیری،سکندر میندرو،شاہین خالدبٹ،مشتاق احمد،مولوی فیض محمد نے شرکت کی ۔جبکہ پارلیمانی سیکرٹری تعلیم وجہیہ قمرم،سیکرٹری تعلیم ،ایچ ای سی حکام ویگر نے شرکت کی ۔
ڈائریکٹرایچ ای سی ڈاکٹر شاہستہ سہیل نے کمیٹی کوبتایاکہ کہاکہ ایچ ای سی ادارے جو قانون کے مطابق کام نہیں کرتے ہیں اس کو بلیک لسٹ کردیتے ہیں ان کا ڈیٹا ویب سائٹ پر لگادیتے ہیں ۔ ملک سے باہر جانے والے طلبہ کا کوئی ریکارڈ نہیں ہے ۔ طلبہ کس ملک اور کس ادارے میں تعلیم لینے جارہاہے ۔چیرمین کمیٹی نے کہاکہ جو طالب علم بیرون ملک جارہاہے ان کا ریکارڈ بنایا جائے ۔ملک میں جواعلیٰ تعلیمی ادارے غیر رجسٹرڈ ہیں ان کو بند کیوں نہیں کرتے ہیں اس طرح کی جعلی دکانیں کیون بند نہیں کرتے جس کی وجہ سے طلبہ کا نقصان ہورہاہے ۔
ایچ ای سی حکام نے بتایاکہ تعلیمی اداروں کی کوالٹی کو دیکھنے کے لیے ایچ ای سی پینل بناتاہے اور دورہ کرتے ہیں ۔ ہر سال میں 30سے 35دورے ہوتے ہیں جو ریکوائرمنٹ پورے کرتے ہیں ان کو اجازت دیتے ہیںجو معیارپر پورا نہیں اترتے ان اداروں کو بند بھی کرتے ہیں ۔
چیرمین کمیٹی نے کہاکہ اس طرح تو پاکستان میں ایک بھی غیر رجسٹرڈ ادارہ نہیں ہونا چاہیے یا دو نمبر ادارہ نہیں ہے ۔پاکستان میںدو نمبر ادارے کھلے کیوں ہوئے ہیں ۔
سیکرٹریوفاقی تعلیم نے کہاکہ اس حوالے سے سب کمیٹی بنا دیں یونیورسٹی اور کالج دو نمبر بنے ہوئے ہیں ۔چیرمین کمیٹی نے کہاکہ جعلی ادارے طالب علموں کو لوٹ رہے ہیں ایچ ای سی کو ایکٹیو رول ادا کرنا چاہیے ۔بچے 5سال پڑھیں گے بعد میں پتہ چلا گیاکہ وہ تو رجسٹرڈ ہی نہیں ہے اس کے بعد وہ احتجاج کریں گے ۔رکن کمیٹی سینیٹر خالد شاہین بٹ نے کہاکہ بیرون ممالک سے پاکستان آنے والے طالب علموں کو میڈیکل کالج میں ہراساں کیا جاتا ہے ۔ وہ بچے بیرون ملک سے آتے ہیں بھاری فیسیں ادا کرتے ہیں مگر اس کے باوجود ان کے ساتھ رویہ انتہائی خراب ہوتا ہے ۔
سینیٹرمشتاق احمد نے کہاکہ بیرون ملک جانے والے بچے ہمارا اثاثہ ہیں ان کا ریکارڈ رکھا جائے کہ بچے کہاں اور کیا بیرون ملک پڑھنے جارہے ہیں اور سالانہ کتنے لوگ جارہے ہیں۔چیرمین کمیٹی نے کہا کہ مزدوروں کا ریکارڈ ہوتا ہے کہ کس ملک جارہے ہیں مگر طالب علموں کانہیں ہے ۔
مشتاق احمد نے کہاکہ چین میں پڑھنے والے طلبہ ایک سال سے پاکستان میں موجود ہیں ان کو واپس بھیجنے کے لیے کیا اقدامات کئے جارہے ہیں اس کے بارے میں بھی کمیٹی کوبتایاجائے-
ٹیکنالوجسٹ کے حوالے سے کمیٹی کے ایجنڈے پر سینیٹر مشاق احمد نے کمیٹی کوبتایاکہ پاکستان میں 3لاکھ 50ہزار ٹیکنالوجسٹ ہیں اور سالانہ 10ہزار بچے اس میں شامل ہورہے ہیں۔سب کمیٹی نے اس مسئلے کو حل کرنے کی ہدایت کی تھی کہ3ماہ میں مسئلہ کیاجائے مگر ایچ ای سی نےنے تین ماہ دس دن بعد اجلاس بلایا ہے ۔ڈھائی سال پہلے بھی سفارشات کی تھیں مگر اس کے باوجود عمل نہیں ہوا۔
جو ایچ ای سی نے کمیٹی بنائی اس میں ایک بھی ٹیکنالوجسٹ موجود نہیں ہیں ۔انجینئر کبھی ان کا مسئلہ حل نہیں کریں گے کمیٹیوں سے کچھ نہیں ہوا ہے ۔ان کا ایکولینس سرٹیفکیٹ ایچ ای سی نے منسوخ کیا اس کو بحال کیاجائے ۔
مہرتاج روغانی نے کہاکہ ٹیکنالوجسٹ کے ساتھ بہت ظلم ہواہے ۔ایچ ای سی کے حکام امتیاز گیلانی نے کمیٹی کوبتایاکہ ٹیکنالوجسٹ واحد لوگ ہیں جو 16سال کی تعلیم کے باوجود 17گریڈ میں بھرتی نہیں ہوسکتے یہ ان کے ساتھ ظلم ہو رہا ہے۔ایک ہزار ٹیکنالوجسٹ کے لیے بیرون ملک سکالر شپ کا اشتہار دیا مگر صرف 23بچے آئے ۔پی ایم ٹاسک فورس بنائی جائے تاکہ اس کو حل کیا جائے۔
مشتاق احمد نے کہاکہ بھارت نے یہ مسئلہ بہت پہلے حل کردیا تھا ۔بی ٹیک کا ایکویلنس کو فورا بحال کیا جائے ۔این ٹی سی ایکٹ 2015سے پائپ لائن میں ہے اس کا کیا بنا؟ سینیٹراعجاز چوہدری نے کہاکہ انجینئر ٹیکنالوجسٹ کے معاملے کو حل نہیں کررہے ہیں ۔یہ انسانی ایشو ہے ۔ موجودہ انجینئرنگ کے ادارے اس مسئلے کو حل نہیں کریں گے ۔
چیرمین کمیٹی نے کہاکہ ایشو حل نہیں ہورہا ٹاسک فورس بنائی جارہی ہےایچ ای سی کو ایکولینس کو بحال کرنے میں کیا مسئلہ ہے ۔کمیٹی نےایکولینس واپس لینے کے فیصلے کی مکمل تفصیلات کمیٹی کو فراہم کی ہدایت کرتے ہوئے کہاکہ کس نے کیوں یہ فیصلہ کیاہم یہ جانا چاہتے ہیں کہ بغیرکسی وجہ کہ کیوں اس کوختم کیاگیا۔ کمیٹی نے متفقہ طورفیصلہ کیاکہ انجینئرنگ ٹیکنالوجسٹ کو ایکولینس سرٹیفکیٹ کو دوبارہ بحال کیا جائے ۔اس فیصلے کے حوالے سے صرف سینیٹر اعجاز چوہدری نے حق و خلاف میں ووٹ نہیں دیا۔
کمیٹی نے فیصلہ کیا کہ جب تک ٹیکنالوجسٹ کے لیے سروس سٹکچر نہیں بنتااس وقت تک اس کوکو بحال رکھاجائے ۔کمیٹی اس بات پر اتفاق کرتا ہے کہ عارضی ریلیف کے لیے ایکولینس بنایا جائے جب تک سروس سٹرکچر نہیں بنتا ہے۔ا
یجنڈے میں شامل یکساں نصاب تعلیم کے حوالے سے ڈاکٹر مریم چغتائی ڈائریکٹر قومی نصاب کونسل پاکستان نے کمیٹی کوبتایاکہ پاکستان میں ایچوکیشن نظام 6طبقے پیدا کررہے ہیں ۔قومی نصاب کے 4حصے ہیں، یکساں نصاب، امتحانات، اس میں شامل ہیں ۔ہمارا نصاب 15سال پرانہ ہے 5ویں تک یکساں نصاب مکمل کرلیا ہے ۔سائنس اور ریاضی پر زیادہ فوکس کیا گیا، 2002میں نصاب 62لوگوں نے بنایا تھا وہ سب لاہور سے تھے 2010کا نصاب زیادہ تر پنجاب کے لوگوں نے بنایا تھا 2020میں نصاب چاروں صوبوں سے نمائندگی تھی 5اقلیتوں کے لیے الگ نصاب بنایا گیا ہے ۔ مدارس کو سکول بنانے جارہے ہیں مدارس5سال میں اس نصاب کو لاگو کریں گے ۔رٹے کے نظام کو ختم کررہے ہیں ۔ٹیکنالوجی کے استعمال سے اساتذہ کو اچھی ٹریننگ دیں گے ۔ 12ویں تک نصاب بنے گا اگلے مرحلے میں امتحانات ہوں گے ۔18ویں ترمیم کے بعد فیڈرل کا رول صرف رابطہ کاری کا ہے ۔پنجاب اور کے پی کے میں اس پر عمل صوبائی اسمبلی کی منظوری کے بعد ہوا ہے ۔اس نصاب پر عمل کرنے میں صوبہ کا اپنا رول ہے ۔سندھ یکساں نصاب کی تیاری میںساتھ تھا مگر اس پر عمل کے دوران وہ پیچھے ہٹ گئے ہیں سندھ میں بھی یکساں نصاب تعلیم پر عمل ہونا چاہیے –
چیرمین کمیٹی نے کہاکہ اصولی طور پر یہ اچھا اقدام ہے ۔نصاب سے قوم کو تیار کیا جاتا ہے ۔کیا تمام صوبے اس پر عمل درآمد پر راضی ہیں جس پرحکام نے بتایا کہ سندھ کے علاوہ سب اس پر متفق ہیں۔4سو لوگوں نے یکساں نصاب پر کام کیا ہے ۔یکساں امتحان کے حوالے سے کمیٹی کوبتایاگیاکہ امتحانات پر ابھی نہیں آئے اس حوالے سے پالیسی نہیں بنائی کہ یکسان امتحان کا منصوبہ نہیں ہے ۔
چیرمین کمیٹی نے کہاکہ قومی کی تعمیر میں دس فیصد نصاب کا کام ہوتا ہے آپ باقی چیزوں پر توجہ نہیں دے رہے صرف نصاب پر فوکس ہے ۔یکسان نصاب میں سیاسی جماعتوں سے رائے نہیں لی گئیں ہے ۔سکولوں میں سہولیات دی جائے ۔تربیت یافتہ اساتذہ نہیں ہیں اور یکساں نصاب دے دیاہے ٹیچنگ ایک سکل ہے ۔ ماڈل کتابوں کا سیٹ کمیٹی کو بھیجا جائے 15سیٹ کمیٹی کو فراہم کردیں ۔حکام نے بتایا کہ ہم نے کتاب نہیں گائیڈ لائن کو یکساں کیاہے ۔ اساتذہ کی تربیت ضروری ہے ۔یکساں نصاب سے یکساں معیار نہیں بن سکتا ہے ۔روشنی سکول میں اساتذہ بھرتی کرنے میں ایم این اے ایم پی اے اور سینیٹر کا کوٹہ تھا اور دس فیصد وزیر اعظم کا کوٹہ تھا ۔
مشتاق احمد نے کہاکہ یکسان نصاب تعلیم اگر ہوجائے تو یہ اچھی بات ہے ۔جو چیز پاکستان کے مفاد میں ہوگی اس کی حمایت کریں گے ۔حکومت کا یہ اقدام قابل تحسین ہے ۔مدارس کے اندر دنیا تعلیم بھی دی جاتی ہے ۔چارٹر آف ایجوکیشن سیاسی جماعتوں میں ہونا چاہیے کسی کی بھی حکومت آئے وہی نصاب پڑھایا جائے ۔سیاسی جماعتوں کو بھی ان بورڈ لیا جائے ۔کیمرج پاکستان سے تعلیم پر کتنا کمارہاہے ۔طبقاتی تقسیم ختم کرنے کی ضرورت ہے ۔رخسانہ زبیری نے کہاکہ ہمیں ملک میں تعلیمی ایمرجسنی لگانی چاہیے ۔
اعجاز چوہدری نے کہاکہ یکسان نصاب ایک خواب تھا یہ آغاز ہے ہر مکتبہ فکر کو اس میں شامل کیا گیا ہے۔ جام مہتاب نے کہاکہ سندھ صوبہ کو کیوں یکساں نصاب پر اعتراض ہے ۔سکولوں میں سہولیات دی جائیں ۔حکام نے کہاکہ سیاسی جماعتوں کو ان بورڈ لینا چاہیے ۔سندھ کا کردار اہم تھا۔
حکام نے بتایاکہ سندھ کو کچھ چیزوں پر اعترض تھا جن میں قرآن ناظرہ تعلیمی اداروں میں نہیں پڑھائیں گے ہماری اسمبلی نے یہ بل پاس نہیں کیا۔سندھ میں نہیں پڑھ سکتے ملالہ کو قومی ہیرو پڑھانا چاہتے ہیں ۔نصاب سندھی میں پڑھانا چاہتے ہیں ۔یکساں نصاب میںآدھے نصاب کو اردو اور آدھا انگریزی میں پڑھائیں گے تو سندھ میں 50فیصد نصاب سندھی میں پڑھائی جاسکتا تھا۔50فیصد انگش میں اور 50فیصد اردو میں ہوگا-
حکام نے کمیٹی کوبتایاکہ اس وقت چیرمین ایچ ای سی کوئی بھی نہیں ہے تین ماہ کے لیے قائمقام چیرمین لگایا گیا تھا مگر وہ تین ماہ پورے ہوگئے ہیں ۔ عدالت میں سٹے ہے جس کی وجہ سے کوئی نیا چیرمین نہیں لگاسکتے ۔
کمیٹی نے یکساں نصاب تعلیم سندھ میں نافذ نہ کرنے پر پیپلزپارٹی کے سینیٹر جام مہتاب کو سندھ حکومت سے رابطے اور ان کے اعتراضات سے کمیٹی کوآگاہ کرنے کی ہدایت کردی کمیٹی نے کہاکہ اگلے ضروری ہواتو یکساں نصاب تعلیم پر سندھ حکومت کے نمائندوں کوکمیٹی میں مدعوکرکے ان کے اعتراضات سننے گے یکساں نصاب تعلیم اچھا قدم ہے پورے ملک میں رائج ہوناچاہیے ۔