ایک سٹور کے کاونٹر پر بقایا میں ایک نیا چمکتا
ہوا سکہ بھی آیا۔ کافی عرصے سے سکہ نہیں دیکھا تھا۔ معلوم ہوا کہ دس روپے کا بھی سکہ آیا ہے۔ پہلے ایک، دو پانچ، دس، پچیس اور پچاس پیسے اور ایک روپے کے سکے ہوتے تھے۔ ایک روپے کا نوٹ بھی چلتا تھا۔ شروع میں یہ سکے پیتل، تانبے یا نکل کے ہوتے تھے۔ پھر ایلیمونیم کے سکے آنے لگے۔ ایک پیسے سے شروع ہوکر دس پیسے تک۔ پرانے سکے غائب ہوگئے۔ پھر یہ ایلیمونیم کے سکے بھی غائب ہوگئے۔ بعد میں پچیس اور پچاس کے سکے بھی نکل گئے۔ ایک اور دو روپے کے نئے سکے نکل کے بجائے تانبے کے آگئے۔ ایک، دو اور پانچ کے نوٹ بند ہوگئے اور ان کی جگہ سکے چلنے لگے۔ اب یہ بھی خال خال نظر آتے ہیں۔ ان سکوں کے غائب ہونے کی ایک وجہ تو ان کی ویلیو کا کم ہونا ہے۔ ایک دو بلکہ پانچ روپے کا بھی کچھ نہیں ملتا۔ لیکن زیادہ مقدار میں سکوں سے تو خریداری کی جاسکتی ہے۔ پھر یہ سکے کہاں جاتے ہیں؟ سکوں کی قیمت خرید مہنگائی بڑھنے کے ساتھ کم ہوتی جاتی ہے۔ ایک وقت ایسا آتا ہے کہ سکے کی سرکاری قیمت خرید اس دھات کی قیمت سے کم رہ جاتی ہے جس سے سکہ بنا ہوتا ہے۔ اس وقت لوگ اس سکے کو خرید و فروخت کے لیے استعمال کرنے کے بجائے اسے پگھلاکر زیادہ قیمت پر فروخت کریں گے۔ یہ گراہم لا ہے۔ یہ صاحب سولہویں صدی میں انگلینڈ میں بینکر تھے یا شاید بادشاہ کے مالی مشیر بھی۔ ان کا خیال تھا کہ ملک میں سونے اور چاندی کے سکے ایک ساتھ چلیں گے تو چاندی کے سکے سونے کے سکوں کو مارکیٹ سے نکال باہر کریں گے۔ ہم ابتدائی معاشیات میں اسے پڑھتے تھے تو اسے زمانہ قدیم کی کہانی سمجھتے تھے۔ لیکن اب برسوں سے ہمارے ہاں یہ لاء کام کر رہا ہے۔ ایلومینم کے سکے آئے تو تانبے کے سکے غائب ہوگئے۔ ایلومینم کے سکوں کو کاغذ کے نوٹوں نے نکال باہر کیا۔ یہ دس روپے کا سکہ بھی ایک دو سال چلے گا۔ جب اس میں شامل پیتل کی قیمت دس روپے سے بڑھ جائے گی تو لوگ کاغذ کے نوٹوں کے بدلے سکے خرید کر انہیں پگھلا لیں گے۔
ٹوئیٹر : Jawad_Yusufzai@
ای میل : TheMJawadKhan@Gmail.Com
Baaghi Digital Media Network | All Rights Reserved