چین کا افغانستان کے لیے سرمایہ کاری اور تجارت کے منصوبوں کا باضابطہ اعلان

0
31

بیجنگ:چینی سفیر نے افغانستان کے لیے تجارتی اور سرمایہ کاری کے منصوبوں کا اعلان کردیا جو طالبان کی حکومت میں کاروبار کرنے کے لیے عالمی سطح پر کسی ملک کی جانب سے توثیق ہے ۔

غیر ملکی خبر رساں ادارے کے مطابق کابل میں طالبان انتظامیہ کے قائم مقام وزیر برائے ڈیزاسٹر منیجمنٹ کے ہمراہ پریس کانفرنس کرتے ہوئے چینی سفارت کار وینگ یو نے اسی لاکھ ڈالر امداد کا اعلان کیا ہے۔ یہ رقم 22 جون کے زلزلے کے ریلیف کی مد میں دی جائے گی۔

اس موقع پر ان کا کہنا تھا کہ انسانیت کے لیے ہنگامی امداد کے علاوہ گزشتہ سال سیاسی تبدیلی اور زلزلے کے بعد ہمارے پاس اقتصادی تعمیرِ نو کے طویل المدتی منصوبے ہیں، جس میں تجارت کو ترجیح دی جائے گی۔ بعدازاں، سرمایہ کاری اور زراعت پر توجہ مرکوز کی جائے گی۔

طالبان حکومت کو تا حال کسی بھی ملک نے باضابطہ طور پر تسلیم نہیں کیا ہے۔

اس حوالے سے مغربی ممالک کا کہنا تھا کہ افغانستان سے پابندیاں اسی صورت میں ہٹائی جا سکتی ہیں جب یہ گروپ ہماری شرائط پورا کرے جن میں خواتین اور لڑکیوں کو حقوق دینا شامل ہے۔

Advertisement

مغربی ممالک کی جانب سے افغانستان پر عائد پابندیوں میں غیرملکی اربوں ڈالر کے ذخائر منجمد کرنا بھی شامل ہے۔

مغربی بینکوں میں افغانستان کے منجمد اثاثوں کے حوالے سے بات کرتے ہوئے وینگ یو کا کہنا تھا کہ چین ہمیشہ سمجھتا ہے کہ یہ پیسہ افغانستان کے عوام کا ہے، چین ہمیشہ عالمی برادری سے مطالبہ کرتا ہے کہ منجمد فنڈز جاری کیے جائیں

پریس کانفرنس کے موقع پر چینی سفیر وینگ یو کا کہنا تھا کہ کان کنی کے دو بڑے منصوبوں پر مذاکرات جاری ہیں، جس میں جنوبی افغانستان میں تانبے کی ایک کان ‘میس عینک’ بھی شامل ہے، اس کے حقوق چین کی سرکاری کمپنی کے پاس ہیں، جس کا معاہدہ گزشتہ افغان حکومت کے ساتھ ہوا تھا۔افغانستان معدنی ذخائر سے مالا مال ہے، جس میں لوہے اور تانبے کے بڑے ذخائر بھی شامل ہیں۔

یاد رہے، چین کے ہمسایہ ملک افغانستان کے ساتھ طویل سرحد ہے، وہ اپنے بڑے منصوبے ‘بیلٹ اینڈ روڈ’ پر سرمایہ کاری کے حوالے سے ہمسایہ ممالک میں اثر و رسوخ رکھتا ہے۔

ڈیجیٹل چائنا کنسٹرکشن سمٹ کی پریس کانفرنس میں چین کے نیشنل انٹرنیٹ انفارمیشن آفس کے انچارج نے کہا کہ 2017سے 2021 تک ، چین کی ڈیجیٹل اکانومی کا حجم 27 ٹریلین سے 45 ٹریلین تک پہنچ گیا، جو دنیا میں دوسرے نمبر پر ہے۔ ڈیجیٹل اکانومی کے کل جی ڈی پی کا تناسب انتالیس اعشاریہ آٹھ فیصد تک ہو گیا ہے۔

“جدت نئی تبدیلیاں لاتی ہے، اور ڈیجیٹل نئے انداز کا رہنما ہے” کے موضوع پر پانچویں ڈیجیٹل چائنا کنسٹرکشن سمٹ 23 سے 24 جولائی تک صوبہ فوجیان کے شہر فو زو میں منعقد ہو گی ۔

“چینی وزارتِ خارجہ اطلاعات کے مطابق پانچ جولائی کوحکومت سندھ اور پاکستان کےمحکمہِ انسداد دہشت گردی نے کراچی میں ایک پریس کانفرنس کی اور بتایا کہ جامعہ کراچی کے کنفیوشس انسٹی ٹیوٹ میں ہونے والے دہشت گرد حملے کے اہم ملزم کو گرفتار کر لیا گیا ہے۔ “بلوچ لبریشن فرنٹ” اور “بلوچ لبریشن آرمی” جیسے کئی دہشت گرد گروپ اپنے رابطے مضبوط کر رہے ہیں، اور ان کے پیچھے غیر ملکی قوتیں ہو سکتی ہے۔چینی وزارت خارجہ کے ترجمان چیاؤ لی جیان نے چھ جولائی کو منعقدہ پریس کانفرنس میں کہا کہ چین ، کراچی میں کنفیوشس انسٹی ٹیوٹ پر دہشت گردانہ حملے کی تحقیقات میں پیش رفت پر بھرپور توجہ دیتا ہے اور اس سلسلے میں پاکستان کی کوششوں کو سراہتا ہے۔ فی الحال اس کیس کی مزید تفتیش جاری ہے اور امید ہے کہ پاکستان سچائی کا پتہ لگائے گا اور مجرموں کو سخت سزا دی جائے گی ۔

عالمی ترقی: مشترکہ مشن اور شراکت ” تھنک ٹینک اور میڈیا کا اعلیٰ سطحی فورم بیجنگ میں شروع ہو گیا ۔ افتتاحی تقریب میں صدر شی جن پنگ نے فورم کے نام مبارکباد کا خط بھیجا جس میں عالمی ترقی کو فروغ دینے کی صورتحال اور درپیش چیلنجز کی وضاحت کی گئی ہے اور گلوبل ڈویلپمنٹ انیشیٹو کو عملی جامہ پہنانے کے تصورات اور تجاویز کا واضح طور پر اعلان کیا گیا ہے ۔ بلاشبہ، ہنگامہ خیز اور بدلتی ہوئی دنیا اور اقتصادی ترقی کی سست روی کے پیشِ نظر، صدر شی کی طرف سےپیش کردہ جی ڈی آئی یقیناً بنی نوع انسان کی مشترکہ ترقی کے حصول کے لیے جستجو کی عکاسی کرتا ہے۔چین اقوام متحدہ کے پائیدار ترقی کے اہداف کی تکمیل کے لیے اپنی دانشمندی اور چینی حل کے ذریعے عالمی تعاون اور مشترکہ ترقی کا ایک نیا دروازہ کھول رہا ہے ۔

بد ھ کے روز چینی میڈ یا کےمطابق ترقی ہر ملک کا اندرونی تقاضا ہے اور عالمی ترقی کے لیے ایک ناگزیر ضرورت ہے، اس لیے عالمی ترقی دنیا کے تمام ممالک کا مشترکہ مشن ہے۔ گزشتہ سال 21 ستمبر کو صدر شی جن پھنگ نے اقوام متحدہ کی 76ویں جنرل اسمبلی میں جی ڈی آئی پیش کیا، اس کے بعد انہوں نے متعدد مواقع پر عالمی مشترکہ ترقی کے لیے چین کے تصور ات اور تجاویز کو واضح کیا، اور ترقی کو بین الاقوامی ترجیحی ایجنڈے میں شامل کرنے پر زور دیا۔ ا س سے ایک بڑے ملک کے احساس ذمہ داری کو ظاہر کیا گیا ہے ۔

اہداف مقرر کئے گئے ہیں اور تقاضوں کو بھی واضح کیا گیا ہے،تو اب سب سے اہم چیز اسے عملی جامہ پہنانا ہے، جیسا کہ موجودہ “عالمی ترقی: مشترکہ مشن اور شراکت ” تھنک ٹینک اور میڈیا کے اعلیٰ سطحی فورم میں زور دیا گیا ہے۔ چین نے ہمیشہ مشترکہ ترقی، تعاون اور جیت جیت پر مبنی نئے بین الاقوامی تعلقات کے قیام پر زور دیا ہے ۔

چین عالمی مشترکہ ترقی پر مبنی انیشیٹو پیش کرنے والا ہے اور ساتھ ہی عمل کرنے والا بھی ہے۔ چین نے دیگر ممالک کے ساتھ مل کر نوول کورونا وائرس کی وبا کی روک تھام اور کنٹرول کے لیے بھر پور کوششیں کیں اور دوسرے ممالک کے لیے ویکسین اور وبا سے بچاؤ کے سازو سامان کی فراہمی جیسی ہر ممکنہ مدد کی ہے ۔چین نے موسمیاتی تبدیلی سے متعلق بین الاقوامی کانفرنسوں میں سرگرمی سے شرکت کی ہے ۔چین ماحولیاتی ترجیحات ، سبز اور کم کاربن کی حامل ترقی کے راستے پر گامزن ہے۔

چین نے اقوام متحدہ کی فوڈ اینڈ ایگریکلچر آرگنائزیشن، ورلڈ فوڈ پروگرام اور دیگر بین الاقوامی اداروں کے اقدامات اور سرگرمیوں میں گرم جوشی سے حصہ لیا ہے اور عالمی غذائی تحفظ کو یقینی بنانے میں مثبت کردار ادا کیا ہے۔ چین نے نہ صرف اپنے ملک میں غربت کے خاتمے کے لیے عالمی سطح پر پزیرائی حاصل کرنے والی کامیابیاں سمیٹی ہیں بلکہ اقوام متحدہ کے “غربت مٹاؤ اتحاد” میں بھی بانی رکن کی حیثیت سے شرکت کی ہے، جس سے عالمی سطح پر انسداد غربت کو مزید آگے بڑھانے میں اپنا کردار ادا کیا ہے۔ حال ہی میں میزبان ملک کی حیثیت سے چین میں منعقدہ برکس سربراہی اجلاس کا بنیادی نچوڑ بھی عالمی ترقی ہے۔چین ابھرتی ہوئی معیشتوں اور ترقی پذیر ممالک کے ساتھ مل کر نئے عالمی ترقیاتی شراکت داری کے تعلقات کے قیام اور نئے عہد میں پائیدار ترقی کے 2030 ایجنڈے کی تکمیل کے لیے مل کر کام کرنے پر آمادہ ہے ۔

جی ڈی آئی کا مقصد دنیا کی مشترکہ ترقی اور خوشحالی کا حصول ہے ، اور یہ دنیا کے تمام ممالک کے لوگوں کی خواہشات و توقعات کے عین مطابق ہے، خاص طور پر ایسے وقت میں جب کچھ ممالک اپنے ذاتی مفادات کے لیے تسلط پسندی اور طاقت کی سیاسی سوچ سے چمٹے ہوئے ہیں، اور دنیا کو ایک نئی سرد جنگ کے خطرے کا سامنا ہے۔

اس تناظر میں جی ڈی آئی کی اہمیت اور بھی زیادہ نمایاں ہو گئی ہے ۔ لیکن یہ بات بھی قابل غور ہے کہ اس انیشیٹو کے نفاذ کے دوران مختلف چیلنجز کا سامنا ہو گا ۔ یہ ایک ہموار راستہ نہیں ہے اور اس کے لیے لمبا سفر کرنا پڑے گا ۔ لیکن ہمیں یقین ہے کہ جب تک بین الاقوامی برادری مشکلات کا سامنا کرتے ہوئے جی ڈی آئی کے نفاذ کو مستقل طور پر آگے بڑھانے، اور مشترکہ طور پر ایک عالمی ترقیاتی برادری کی تعمیر کے لیے ٹھوس اور بھر پور کوشش کرنے کا پختہ ارادہ رکھتی ہے ، تو کثیرالجہتی اور عالمی تعاون کو مزید قوت محرکہ ملے گی اور ایک بہتر اور روشن مستقبل کا آغاز ہو گا ۔

Leave a reply