بیجنگ :چینی وزارت خارجہ کے ترجمان وانگ وین بین نے کہا ہے کہ چین کو سری لنکا کو درپیش مشکلات اور چیلنجز پر ہمدردی ہے اور سری لنکا کو خوراک اور ادویات سمیت ہنگامی انسانی امداد فراہم کی گئی ہے۔ منگل کے روز چینی میڈ یا کے مطا بق ایک پر یس بر یفنگ میں تر جمان نے کہا کہ چین نے مرکزی حکومت، مقامی حکومتوں اور دوستانہ تنظیموں جیسے چینلز کے ذریعے سری لنکا میں زندگی کے تمام شعبوں کو امداد کی مختلف کھیپیں بھی فراہم کی ہیں۔
چین سری لنکا کی اقتصادی اور سماجی ترقی کے لیے اپنی بہترین صلاحیتوں کے مطابق مدد کی فراہمی جاری رکھے گا اور سری لنکا کی اقتصادی بحالی اور لوگوں کے معاش کو بہتر بنانے میں مدد فراہم کرے گا۔ جہاں تک سری لنکا پر چین کے قرضوں کا تعلق ہے تو چین سری لنکا کے ساتھ گفت و شنید اور مناسب حل تلاش کرنے کے لیے متعلقہ مالیاتی اداروں کی حمایت کرتا ہے۔ ہم سری لنکا میں حالیہ مشکلات سے نمٹنے، قرضوں کے بوجھ کو کم کرنے اور پائیدار ترقی کے حصول کے لیے مثبت کردار ادا کرنے کے لیے متعلقہ ممالک اور بین الاقوامی مالیاتی اداروں کے ساتھ مل کر کام کرنے کے خواہاں ہیں۔
چین کے ریاستی کونسلر اور وزیر خارجہ وانگ ای نے آسیان سیکرٹریٹ میں کھلی علاقائیت پر عمل کرنے کے بارے میں ایک تقریر کی ۔ اس موقع پر انہوں نے آبنائے تائیوان کی کشیدہ صورتحال سے متعلق کیے جانے والے ایک سوال کا جواب دیتے ہوئے واضح الفاظ میں کہاکہ آبنائے تائیوان میں استحکام کی بنیاد ایک چین کا اصول ہے۔
منگل کے روز چینی میڈ یا کے مطا بق وانگ ای نے کہا کہ تاریخ اور عمل نے بارہا ثابت کیا ہے کہ جب ایک چین کے اصول کو پوری طرح سے تسلیم کیا جائے اور اس پرسنجیدگی کے ساتھ عمل کیا جائے تو آبنائے تائیوان میں سکون رہتا ہے اور آبنائے کے دونوں کنارے پرامن ترقی کر سکتے ہیں۔لیکن اگر ایک چین کے اصول کو نتائج کی پرواہ کیے بغیر چیلنج کیا جائے یا اسےنقصان پہنچتا ہے،تو آبنائے تائیوان پر سیاہ بادل چھائیں گے نیز شدید طوفان آئے گا۔
وانگ ای نے اس بات پر زور دیا کہ تائیوان کا مسئلہ چین کے بنیادی مفادات کا مرکز ہے۔ کسی فرد ، کسی طاقت یا کسی ملک کو کبھی یہ سوچنا بھی نہیں چاہیے کہ تائیوان کو چین سےعلیحدہ کیا جائے گا۔ ایک چین کا اصول چین اور مختلف ممالک کے درمیان سفارتی تعلقات کے قیام کا بنیادی اصول بھی ہے اور یہ دوسری جنگ عظیم کے بعد کے بین الاقوامی نظام کا ایک حصہ ہے۔انہوں نے اس امید اور یقین کا اظہار کیا کہ تمام ممالک “تائیوان کی علیحدگی” سے ہونے والے خطرناک نقصان کا صحیح ادراک کرسکتے ہیں اور چین کے ساتھ مل کر ایک چین کے اصول کی مشترکہ حفاظت کر سکتے ہیں۔
جاپان کے “نِکئی ایشیا” میگزین کی ویب سائٹ کی حالیہ رپورٹ کے مطابق اگرچہ ایک نظریہ یہ ہے کہ کووڈ-۱۹ کی وبا سے نمٹنے کے لیے ” ڈائنامک کلیئرنگ پالیسی” سے چین کے علاقائی اقتصادی اور سیاسی اثر و رسوخ کو نقصان پہنچے گالیکن درحقیقت خطے میں چین کا اقتصادی اثر و رسوخ بڑھتا جا رہا ہے۔
منگل کے روز ایک مضمون میں نشاندہی کی گئی ہے کہ 2020 اور 2021 میں، مشرقی اور جنوب مشرقی ایشیائی ممالک سے چین کے لیے برآمدات ان ممالک کی کل برآمدات کا 27 فی صد تھیں۔ تجارتی شراکت دار کے طور پر چین کی اہمیت ان ممالک کے لیے بھی بڑھ گئی ہے جو چین کے بڑھتے ہوئے اثر و رسوخ کو روکنے کے لیے امریکی قیادت میں کی جانے والی کوششوں میں شامل ہیں۔ وبا سے پہلے کے مقابلے میں جاپان اور نیوزی لینڈ کی کل تجارت میں چین کا تناسب بھی بڑھ گیا ہے۔
2020 اور 2021 میں،دنیا کی براہ راست غیر ملکی سرمایہ کاری میں چین کا حصہ 1990 کی دہائی کے بعد بلند ترین سطح پر پہنچ چکا ہے۔ اس کے ساتھ ساتھ اب جاپان کی بجائے چین، خطے میں سرمایہ کاری کا اہم ترین منبع بن چکا ہے۔ گزشتہ دو سالوں میں چین سے ہونے والی براہ راست غیر ملکی سرمایہ کاری تقریباً 300 بلین امریکی ڈالر تک پہنچ گئی ہے۔
امریکی صدرجو بائیڈن اس ہفتےاسرائیل، فلسطین کےمغربی کنارے اورسعودی عرب کا دورہ کریں گے۔ یہ امریکی صدرکا عہدہ سنبھالنے کے بعد ان کا مشرق وسطیٰ کا پہلا دورہ ہے۔ امریکی نشریاتی ادارےسی این این نے دو ٹوک الفاظ میں کہا کہ روس- یوکرین تنازع کی وجہ سے تیل کی عالمی منڈی میں ہنگامہ آرائی کے بغیر امریکی صدر مشرق وسطیٰ بالکل نہیں جا سکتے تھے۔
منگل کے روز چینی میڈ یا کےمطابق اس وقت وسط مدتی انتخابات کا سامنا کرنے والی بائیڈن انتظامیہ پر تیل کی بڑھتی ہوئی قیمتوں، شدید افراط زر اور امریکہ میں معاشی کساد بازاری کے خدشات کا “شدید دباؤ” ہے ایسے میں تیل پیدا کرنے والا ملک سعودی عرب، اس صورتحال کو بدلنے کی کنجی ہے۔
مشرق وسطیٰ کے دورے پر اپنے مضمون میں،جو بائیڈن نے اس دورے کی اہمیت پر زور دیا اور مزید کہا کہ “چین کے ساتھ مقابلہ جیتنا ہے”۔یہ توجہ ہٹانے اور سعودی عرب کے دورے کو جواز فراہم کرنے کا ایک طریقہ ہے۔
بائیڈن انتظامیہ کے اقتدار سنبھالنے کے ایک سال سے زیادہ عرصے میں، ایسے اشارے مل رہے ہیں کہ امریکہ کی عالمی حکمت عملی میں مشرق وسطیٰ کا مقام کم ہو گیا ہے۔
اس کے ساتھ ساتھ مشرق وسطیٰ کا خطہ “دی بیلٹ اینڈ روڈ” کی تعمیر کے مرکز کے طور پر، چین کے ساتھ تعاون میں مسلسل نئے نتائج حاصل کر رہا ہےجس سے امریکی سیاستدانوں کو یہ خدشہ لاحق ہو گیا ہے کہ مشرق وسطیٰ میں ان کے اثر و رسوخ پر اثر پڑے گا۔ عام طور پر بیرونی دنیا کا یہ ماننا ہے کہ امریکہ چین کا مقابلہ کرنے کے لیے نئے علاقائی اتحاد بنانے کی کوشش کر رہا ہے، یا یہاں تک کہ “نیٹو کا مشرق وسطیٰ ورژن” تشکیل دے رہا ہے۔ تاہم کوئی بھی ملک امریکی تسلط کے لیے اپنے مفادات سے دستبردار ہونے کو تیار نہیں ہے۔








