چترال: علاقہ بیستی کی عوام کا زمرد کی کان کے لیز ہولڈر کے خلاف احتجاج

ہمیں لیز ہولڈر کے ظلم اور غنڈہ گردی سے نجات دلائی جائے، مظاہرین کی دہائی

چترال،باغی ٹی وی (نامہ نگارگل حمدفاروقی ) علاقہ بیستی کی عوام کا زمرد کی کان کے لیز ہولڈر کے خلاف احتجاج، ہمیں لیز ہولڈر کے ظلم اور غنڈہ گردی سے نجات دلائی جائے، مظاہرین کی دہائی
چترال کے علاقے بیستی کے عوام نےلیز ہولڈر کے ظالمانہ رویے کے خلاف احتجاجی جلسہ کرتے ہوئے بیستی کی سڑک کوبلاک کیا اور احتجاج کے طور پر دھرنا بھی دیا۔ بیستی کے مین چوک میں اس احتجاجی جلسے کی صدارت مرزا خان کررہے تھے جو تین مرتبہ اس علاقے سے منتحب ہوچکے ہیں۔

جلسہ سے خطاب کرتے ہوئے مقررین نے کہا کہ بیستی کے پہاڑوں میں زمرد کے قیمتی پتھروں اور دیگر معدنیات کے ذحایر موجود ہیں۔ انہوں نے کہا کہ عمران نامی ایک غیر مقامی شحص نے انوار الدین کے ساتھ مل کر اس کی لیز لی ہوئی ہے انہوں نے کہا کہ ہمیں یہ بھی معلوم ہوا ہے کہ محکمہ معدنیات سے جو بیستی کے کان یعنی پہاڑ کا لیز لیا ہوا ہے وہ کسی کمزور معدنیات کے نام پر ہے مگر یہاں قیمتی معدنیات جیسے زمرد وغیرہ نکلتی ہے۔

انہوں نے جلسہ عام میں کہا کہ ابھی تک لیز ہولڈر نے یہاں سے تقریبا ایک ارب روپے کا زمرد اور قیمتی پتھر ، معدنیات نکال چکے ہیں مگر وہ یہ مال رات کے اندھیرے میں لے جاتا ہے تاکہ اسے کوئی چییکنگ نہ کرے۔انہوں نے کہا کہ مذکورہ لیز ہولڈر عمران اور انورا لدین بیستی بالا کے اکتالیس گھرانوں کو رائیلٹی اور سروس چارجز کے مد میں سالانہ کروڑوں روپے دیتے ہیں حالانکہ ان لوگوں کے مال بردار گاڑیاں سات کلومیٹر تک بیستی پایین کے اندر سے سڑک اور لوگوں کے گھروں سے گزرتی ہیں انہوں نے کہا کہ یہ ایک دیہی سڑک ہے جسے علاقے کے عوام نے اپنی مدد اپ کے تحت بنایا تھا۔

انہوں نے کہا کہ مروجہ قوانین کے مطابق جس علاقے میں کوی قدرتی ذحائر یا وسائل ہوں جیسے معدنیات، قیمتی پتھر، پانی، جنگلی حیات، جنگلات وغیرہ وہاں کے مقامی لوگوں کو رائیلٹی دی جاتی ہے اور سروس چارجز کے مد میں ان کو بھی وہاں سے ہونے والی آمدنی میں سے حصہ ملتا ہے۔مگر مذکورہ لیز ہولڈر ہمیں اپنے جائز حق سے محروم کرنے کے ساتھ ساتھ ہمارے گاؤں کے نوجوانوں کو مزدوری کیلئے بھی نہیں بلاتے اور اس نے غیر مقامی مزدوروں کو یہاں لایا ہے جس کی وجہ سے ہماری چادر اور چاردیواری کی تقدس پامال ہورہا ہے۔

انہوں نے کہا کہ چترال ایک عورت آباد ضلع ہے جہاں مال مویشی پالنا اور ان کیلئے چارہ لانے کا کام اکثر خواتین کرتی ہیں مگر ان غیر مقامی مزدوروں کی موجودگی کی وجہ سے یہاں کے خواتین اپنے مال مویشی بھی اپنے کھیتوں میں نہیں لے جاسکتی اور اثر لوگوں نے مجبورا اپنی مال مویشی اونے پونے دام پر فروخت کئے ہیں۔

انہوں نے کہا کہ لیز ہولڈر کے گاڑیاں جب یہ قیمتی معدنیات اور پتھر لاتی ہیں تو ہماری مائیں بہنیں اکثر اپنی مال مویشی کو بچانے کی خاطر کسی دوسرے کے کھیتوں مِیں گھس جاتی ہیں کیونکہ وہ نہایت بے احتیاطی اور لاپرواہی سے گاڑی چلاتے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ یہ علاقہ ایک سینکچوری علاقہ ہے جہاں ای بیکس، مارخور، تیتر، اور قومی پرندہ چکور اپنی نسل بڑھاتے ہیں پاکستان کے مروجہ قوانین کے مطابق پروٹیکٹڈ ایریا میں کسی کو بلاسٹنگ کرنے یا اس قسم کی سرگرمیوں کیلئے این او سی دینا سراسر غیر قانونی بلکہ ایک ناقابل معافی جرم ہے۔مگر ان لوگوں کو محکمہ جنگلی حیات اور معدنیات وغیرہ نے این او سی دیا ہے جو سمجھ سے بالاتر ہے۔

ان لوگوں کی آمد کے بعد ان قیمتی پتھروں کو پہاڑ یعنی کان سے نکالنے کیلئے بارود سے دھماکہ کرواتے ہیں جس کی وجہ سے یہ حسین اور جنگلی جانور اور پرندے یہاں سے غائب ہوچکے ہیں۔ جبکہ ماضی میں یہاں انگریز آکر ای بیکس کا ہنٹنگ ٹرافی کے تحت باقاعدہ شکار کرتے تھے جس سے اس پسماندہ علاقے کو کروڑوں روپے کی آمدنی ہوا کرتی تھی۔ مگر اب یہ جنگلی حیات یہاں سے غائب ہوچکہ ہے اور وہ پڑوسی ملک افغانستان کو ہجرت کرچکے ہیں جو ہماری سرحد پر واقع ہے۔ جس کی وجہ سے اس علاقے کا حسن اور نیچر کو سخت نقصان پہنچا ہےاور اس علاقے کی حسن ناپید ہوچکا ہے۔

مقررین نے کہا کہ کمر توڑ مہنگائی کی وجہ سے یہاں کے لوگ انتہائی مشکل حالات میں زندگی کے تلخ دن گزارنے پر مجبور ہیں۔ جب یہ لیز ہولڈر ہماری غاریوں یعنی چراہ گاہوں میں اگئے تو ان کی آمد کی وجہ سے ہماری خواتین ان چراہ گاہوں میں جانے سے محروم ہوگئی ہیں کیونکہ ہمیں عزت کا مسئلہ درپیش ہے اب ہم ان کی وجہ سے مجبور ہوکر اپنے مال مویشی بھی بیچ دیے۔ مگر بدقسمتی سے ان کے ساتھ روابط رکھنے کی وجہ سے بستی پایین اور سفید ارکاری کے لوگوں کو سروس چارجز سے محروم رکھا ہوا ہے جو کہ ایک اخلاقی جرم بھی ہے۔

مقررین نے کہا کہ لیز ہولڈر نہایت غیر سائنسی اور غیر تیکنیکی طریقے سے زمرد اور دیگر قیمتی پتھر اور معدنیات کو پہاڑ یعنی کان سے بلاسٹنگ کرکے نکال رہے ہیں جس کی وجہ سے گلیشیر بھی گررہے ہیں اور اس کے باعث یہاں سالانہ دریا میں طغیانی اور سیلاب کی وجہ سے فصلیں، زیر کاشت زمین، پھلدار درختو ں کے باغآت کو بڑے پیمانے پر نقصان پہنچ رہا ہے۔ انہوں نے کہا کہ تمام پانیوں کے بیچ گلیشیر یعنی برفانی تودے ہیں جن کو گرایے جاتے ہیں اگر یہ عمل جاری رہا تو چند سالوں میں بیستی کا ذرحیز علاقہ بنجر ہوکر رہ جایے گا اور نتیجے کے طور پر یہاں کے لوگ مزید یہاں زندگی نہیں گزار سکیں گے اور وہ نقل مکانی پر مجبور ہوں گے۔

عمائدین نے الزام لگایا کہ جب ہم لیز ہولڈر سے اپنے جائز حق کا مطالبہ کرتے ہیں تو وہ ہمیں دھمکیاں دیکر کہتا ہے کہ ان کے بڑے لمبے ہاتھ ہیں اور ان کا اعلے عہدہ داروں تک رسائی ہے جس کی وجہ سے ان کا کوئی بھِی کچھ نہیں بگاڑ سکتا۔ یہ احتجاجی دھرنا ڈی ایس پی گرم چشمہ تمیزالدین کی تحریری یقین دہانی کے بعد ختم کیا گیا کہ وہ مذکورہ لیز ہولڈر کو بھی بلاکر مذاکرات کے میز پر بٹھائیں گے اور ان لوگوں کو ان کا جائز حق دلوانے میں کردار ادار کرے گا۔ جلسہ میں کثیر تعداد میں لوگوں نے شرکت کی۔ اس موقع پر لوگوں نے ہاتھوں میں بینرز اور پلے کارڈ بھی اٹھارکھے تھے جس پر لیز ہولڈر کے خلاف اور انصاف کی حصول کے بارے میں مختلف نعرے درج تھے۔ یہ اختجاجی جلسہ بعد میں پرامن طور پر منتشر ہوا۔

Comments are closed.