دنیاوی تاریخ میں دیکھا جائے تو وبا کے بڑے طویل مدتی اثرات مرتب ہوئے ہیں، خاندانوں کے زوال سے لے کر نوآبادیاتی نظام میں اضافہ اور یہاں تک کہ آب و ہوا میں تبدلیاں بھی دیکھی گئی ہیں۔
١٣۵٠ء میں یورپ میں پھیلنے والے طاعون کا پیمانہ خوفناک تھا جس نے یورپی کے تقریبا ایک حصے کو ختم کردیا تھا۔ اس ہی طرح ١۵ ویں صدی کے اختتام پر امریکہ میں چیچک اور نوآبادیات نے اتنے لوگوں کو ہلاک کیا کہ جو شاید دنیا کی آب و ہوا کو تبدیل کرنے کا باعث بنا ہو۔ ١٨٠١ء میں زرد بخار اور غلاموں کی بغاوتوں کے نتیجے میں ہیٹی میں فرانسیسی حکمرانی کا خاتمہ ہوا۔ اس ہی طرح رینڈپسٹ نامی جانوروں کو متاثر کرنے والی ایک مہلک بیماری نے افریقہ میں یورپ کے نوآبادیات کو تیز کرنے میں مدد فراہم کی۔ اس بیماری نے افریقہ کے مویشیوں کا ایک بڑا حصہ ہلاک کیا۔ ١٨٧٠ء کی دہائی میں افریقہ کا صرف دس فیصد حصہ یورپی کنٹرول میں تھا لیکن ١٩٠٠ء تک یہ بڑھ کر نوے فیصد ہوچکا تھا۔ اور اس اراضی پر قبضہ رینڈپسٹ پھیلنے کی وجہ سے افراتفری کی مدد سے ہوا۔ ١٦۴١ء میں چین میں طاعون منگولوں کے زوال کا سبب بنا۔
وبا کی دنیاوی تاریخ دیکھی جائے تو ہمیں خوفناک اور منفرد تبدیلیاں دیکھنے کو ملتی ہیں۔ اس ہی طرح آج کی دنیا میں بھی کرونا وائرس کے پھیلاو کے بعد ہم نے دنیا بھر کے لاکھوں افراد کو اپنی زندگی بسر کرنے کے انداز کو ڈرامائی انداز میں بدلتے ہوئے دیکھا۔
عالمی ادارہ صحت کے مطابق ٣١ دسمبر ٢٠١٩ کو چین میں ایسے نمونیا کے کیسز
کے بارے میں آگاہ کیا گیا جو ووہان میں کسی نامعلوم وجہ کے باعث سامنے آئے۔ تقریبا ایک سال کے بعد اسے نوول کرونا وائرس یا کووڈ – ١٩ کا نام دیا گیا۔ اس وبا کو اس سال دسمبر میں دو سال مکمل ہونے کو ہیں اور سائنسدان تاحال اس وبا کو نہ ہی مکمل طور پر سمجھ سکے ہیں نہ اس کا علاج دریافت کرسکے ہیں۔
اس وائرس کے سبب دنیا کے بیشتر ممالک میں لاک ڈاؤن کی وجہ سے
معمولات زندگی تھم چکی تھیں۔ عالمی معیشت کرونا وائرس کی پہلی لہر کے باعث ہونے والے لاک
ڈاؤن کے سبب پڑنے والے جٹھکے سے خود کو سنبھالنے کی جدوجھد میں لگی رہی اور تاحال عالمی معیشت خود کو مضبوط کرنے کی ان تھک کوششوں میں لگی ہے۔
دیکھا جائے تو اس وبا کے مثبت اور منفی دونوں پہلو ہیں اور زیادہ تر منفی پہلوؤں کو زیر غور لایا گیا ہے جیسے اس عالمی وبا کی وجہ سے بے وقت اموات کا سلسلہ اور صنعتوں کی بندش کے باعث لاکھوں لوگوں کی بےروزگاری وغیرہ۔
کرونا وبا کے جہاں منفی اثرات نے خاص کر ہر سطح اور ہر طبقے کو متاثر کیا تھا اس کا ازالہ کرنے کی کوشش میں کئی لوگ آج تک لگے ہیں۔ لیکن جہاں اس وبا کے نقصانات دیکھے گئے وہیں یہ وبا سماجی سطح پر بھی ہمارے معموالات زندگی اور ماحولیات پر چند مثبت تبدیلیوں کا سبب بھی بنی ہے۔
ان چند مثبت پہلوؤں کو زیر غور لاتے ہوئے ان کا ذکر کرتے ہیں، کرونا وائرس کے باعث سب سے مثبت اثر ماحولیات پر پڑا۔ صنعتوں کی بندش کے باعث کاربن کے اخراج میں کمی آئی جس کی وجہ سے ماحولیاتی آلودگی میں پچاس
فیصد کمی دیکھی گئی۔
کرونا وبا کی شدت پکڑتے ہی پیٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں میں ریکارڈ کمی بھی دیکھی گئی تھی۔ اس کی ایک وجہ تو کرونا وائرس کے باعث صنعتوں کا بند ہونا اور کئی ملکوں اور شہروں میں نافذ لاک ڈاؤن تھا جس کے باعث پیٹرولیم مصنوعات کے استعمال میں واضح فرق پڑا تھا۔
مسلمانوں پر پانچ وقت کی نماز فرض ہے جس کے لیے پانچ وقت وضو کا اہتمام کیا جاتا ہے۔ اور سائنسی اعتبار سے بھی یہ بات ثابت ہوئی ہے کہ دن میں کم از کم ۵ سے
۶ مرتبہ ہاتھوں کو صفائی سے دھونا ضروری ہے،
ماہرین کی جانب سے مسلسل تلقین کی جاتی رہی کہ اپنے ہاتھوں کو بار بار دھوئیں۔
اس طرح لوگوں نے خوشی سے یا نہ چاہتے ہوئے بھی اس عادت کو اپنا لیا ہے۔
گلیوں اور سڑکوں کی صفائی کا خاص خیال رکھا جارہا تھا، لوگ خود کو اور اپنے اردگرد کے ماحول کو خودساختہ طور پر صاف رکھنے کی کوشش کررہے تھے۔
لوگوں کو ٹیلی ورکنگ سیکھنے کا موقع ملا۔ لوگوں نے وقت کو بچا کر گھر بیٹھے
کام کو کس طرح مکمل کیا جاسکتا ہے یہ سیکھا، جس کے باعث دنیا اب ڈیجیٹل ورلڈ بننے کی جانب بڑھ رہی ہے۔
لاک ڈاون کے باعث بازاروں کا جلدی بند ہونا اور شادی بیاہ میں غیر ضروری رسومات میں کمی اور سادگی کے رجحان کا بڑھنا بھی دیکھا گیا۔ کرونا وائرس کے باعث دنیا جہاں ورک فرام ہوم اور آئن کالسز پر آگئی تھی، اس وجہ اہل خانہ کے ساتھ گزارنے اور عبادتوں کی لیے لوگوں کو ایک اچھا وقت ملا، اس وبا کی وجہ سے ملنے والے وقت نے لوگوں کو عبادات میں باقاعدگی کا موقع بھی فراہم کیا۔
کرونا وائرس نے ہمیں یہ بتایا ہے کہ انسان کس قدر بے اور بس ہے اور بڑی سے بڑی دنیاوی طاقتیں بھی قدرتی آفات کے سامنے ڈھیر ہیں، سپر پاور ہونے کا دعوی کرنے والے بھی خدا کی مرضی کے بغیر کچھ نہیں کرسکتے، یہ بات سمجھنے والوں پر واضح ہوگئی کہ زندگی بہت مختصر ہے اور دنیا فانی ہے، ایک وبا پوری دنیا کی معیشت و کاروبار پر تالے لگوا سکتی ہے۔
یہ کچھ مثبت پہلو وہ ہیں جو کرونا وبا کے باعث ہماری زندگی پر پڑے یا شاید اب تک پڑ رہے ہیں،
لیکن ہم نے دیکھا کہ لاک ڈاؤن میں جہاں کچھ رعایت ملی وہاں لوگ اپنے معموالات زندگی میں واپس لوٹتے ہوئے ان مثبت اثرات اور عادتوں سے بھی دور ہونے لگے،
کرونا وبا نے ہمیں زندگی کے کئی مثبت پہلووں سے آشنا کرایا ہے۔ ہمیں چاہیے کہ وبا
ختم ہونے کے بعد بھی وبا کے دوران ہماری زندگی پر اثرانداز ہونے والے مثبت پہلوؤں اور تبدیلیوں سے دور نہ ہوں۔ بلکہ صفائی اور عبادت جیسی چند مثبت عادتوں، سادگی سے شادیاں اور سادہ معمولیات زندگی جیسے رجحانات کو اپنی زندگی میں ہمیشہ کے لیے شامل کرلیں۔
@KainatFarooq_