کرونا کے بعد سموگ کا علاج بھی چھٹیاں ہی ہیں ؟؟ ازقلم صداقت علی ڈوگر

0
50

پاکستانی عوام چھٹیوں سے بڑی خوش ہوتی ہے اور پاکستان کے طالب علم بھی چھٹیوں سے بہت خوش ہوتے ہیں
بلکہ حکومت نے ہر مسئلے کا ہل چھٹیاں ہی بنا لیا ہے پچھلے دو سال سے وبائی مرض کرونا نے اتنی تباہی نہ مچائی ہو گی جتنی ہماری حکومت کی طرف سے تعلیمی اداروں کو بند کرکے مچائی گئی ہے
کرونا نے محض چند ہزار لوگوں کو پاکستان میں متاثر کیا ہو گا لیکن کرونا کی وجہ سے بند ہونے والے پاکستان کے سکولوں کالجوں اور یونیورسٹیوں کے بہت سارے طالب علم جو کہ کرونا کی وجہ سے تعلیم اور تربیت سے محروم ہو گئے ہیں
گیارہ سو نمبر والے بہت سے بچے این ٹی ایس میں فیل ہو گئے ہیں اس کا ذمہ دار کون ہے گیارہ سو نمبر حاصل کرنے والے بہت سے خوش نصیب طالب علم آگے کی بہت سی قابلیت سے محروم رہ گئے ہیں اصل میں جن بچوں نے گیارہ سو نمبر حاصل تو کر لئے لیکن سائنس پریکٹیکل ورک اور تعلیمی قابلیت سے محروم ہوگئے ہیں

اب یہ بچے نہ تو دوبارہ پیپر دے سکتے ہیں اور نہ کچھ کر سکتے ہیں ان بچوں نے جو سیکھنا تھا وہ نہیں سیکھ سکے اب یہ آگے ان چیزوں کو کیسے سیکھیں گے جن کی بنیاد ان بچوں نے پچھلی کلاسز میں چھوڑ دی ہے؟
ابھی لوگ کرونا کے خیالات سے نمٹے نہیں ہیں کہ اب ایک اور مصیبت آن پڑی ہے جسے سموگ کہتے ہیں
سموگ کا علاج ڈھونڈنے کی بجائے اس کا علاج صرف چھٹیوں میں ڈھونڈ لیا ہے اور اب سموگ کا علاج ہفتہ اتوار اور پیر کی چھٹیوں سے دریافت کر لیا گیا ہے

لاہور جو اس وقت آلودگی میں ایشیا بھر میں پہلے نمبر پر ہے اس میں سموگ اور آلودگی سے بچنے کے لیے ہفتہ اتوار اور پیر کی چھٹیوں سے اس کا حل سمجھ لیا گیا ہے جو کہ سمجھ سے بالاتر ہے

یہ چھٹیاں پچھلے پندرہ دن سے جاری ہیں لاہور کے اسکولوں اور کالجز و یونیورسٹیز میں استعمال ہونے والی گاڑیاں ایک منٹ کے لئے بھی نہیں روکی گئیں
اصل میں سموگ ٹرانسپورٹ اور بھٹہ خشت کی وجہ سے بنتی ہے اور بھٹہ خشت کے سسٹم سے اتنی زیادہ آلودگی پیدا ہوتی ہے جس کا آپ اندازہ لگا ہی نہیں سکتے
حکومت نے بھٹہ خشت کے لیے زگ زیگ کا سسٹم متعارف کروایا جو کہ عام آدمی کے لیے لگانا بہت مشکل ہے اسی سسٹم کو پاکستانیوں نے نئے انداز میں لگاتے ہوئے ایک ایسا سسٹم بنایا ہے جسے ہر بندے نے اپنے بھٹہ خشت پر لگا لیا ہے جس سے دھواں تو سفید بظاہر بے ضرر نکل رہا ہے لیکن صرف نام کا بے ضرر نکل رہا ہے
سموگ اور آلودگی ویسے ہی ہیں جیسے پہلے تھی بس فرق صرف اتنا ہے پہلے رنگ کالا تھا اب رنگ سفید ہو گیا ہے اور اسی طرح ہماری پاکستان کی ٹرانسپورٹ کا حال ہے ہر گاڑی پر ناکارہ انجن استعمال کر رہے ہیں اور ناکارہ انجن والی گاڑیاں اتنا دھواں چھوڑ رہی ہیں کہ جس کا کوئی حساب نہیں
بجائے اس کے ٹرانسپورٹ اور بھٹ خشت کے سسٹم کو دیکھا جائے ہماری حکومت نے اس کا علاج صرف چھٹیوں کو ہی بنا لیا ہے
حکومت پنجاب نے سموگ پر قابو پانے کے لیے کون سے عوامل اور کون سی مہم چلائی؟
دھواں دینے والی کتنی گاڑیاں بند کی گئی ہے ؟
نیز دو نمبری سے چلنے والے کتنے بھٹے بند کیے ہیں؟
ہمارا مستقبل خطرے میں ہے جوش کی بجائے ہوش سے کام لیجئے ہر مسئلے کا حل چھٹیاں نہیں ہیں خدارا ہماری حکومت سے اپیل ہے کہ چھٹیاں نہ کریں بلکہ اس کا کوئی اور حل سوچیں اور پاکستان کے طالب علموں کا اور بیڑا غرق نہ کریں بلکہ پاکستان کو ایک اچھا ملک بنانے میں مدد کریں نہ کہ ایک بغیر تعلیم کے ملک، کیوں کہ جو حالات ہیں اس میں پاکستان واحد ملک ہوگا جس میں آنے والے وقت میں سب آفیسر اور انجینئر بغیر تعلیم کے ہوں گے اگر یہی حال پاکستانی حکومت کا رہا تو
خدارا کچھ سوچئے چھٹیاں نہیں تدابیر کیجئے

Leave a reply