کورونا کیا ہے ایک سیاسی کھیل یا آفاقی وبا؟ سیاق و سباق نشست ہائے سوال و جواب تحریر؛ بلال شوکت آزاد

0
49

سیاق و سباق نشست ہائے سوال و جواب (مورخہ سات اپریل دو ہزار بیس)

کل ایک نشست ہائے سوال و جواب منعقد کی تھی جس میں سنجیدہ اور علم کے متلاشی احباب نے بھرپور شرکت کرکے حوصلہ افزائی کی اور بہت سے دلچسپ اور اہم سوالات کیے جن کے جواب دیکر مجھے بے خوشی, طمانیت اور علمی تازگی کا احساس ہوا۔

میں ان سوالات اور جوابات کا سیاق و سباق بطور تحریر پیش کررہا ہوں تاکہ دیگر احباب بھی استفادہ لیں۔

میں سوالات اور جوابات بالترتیب درج کررہا ہوں ضروری ترمیم اور نام حذف کرکے۔

تو پہلا سوال کچھ یوں تھا کہ

سوال: کیا خلافت کی جدوجہد کرنے کا حکم اسلام میں ملتا ہے ؟

جواب: نہیں, میرے ناقص علم کے مطابق خلافت کوئی انسانی ساختہ نظام نہیں لہذا اسکے لیے جد و جہد کا کشٹ اللہ نے انسان کے ذمہ لگایا ہی نہیں۔

خلافت تسلیم و رضا اور پیہم عمل اور فرمانبرداری کا نظام ہے جبکہ جس چیز کے حصول میں طمع لالچ اور جدوجہد آجائے وہ فتنہ بن جاتا ہے رحمت نہیں جبکہ ہم جانتے ہیں خلافت ناصرف مسلمانوں کے لیے بلکہ تمام انسانوں کے لیے رحمت ثابت ہوئی تھی۔

جمہوریت اور وطن کے حصول میں جدوجہد کا عمل دخل ہے لہذا ان میں کمزوریاں اور فتنے بھی ان گنت ہیں۔

قصہ مختصر خلافت کو جدوجہد کی ضرورت نہیں بلکہ یہ شریعت پر عمل کرنے سے خودبخود نافذ العمل ہوسکتی ہے۔

بیشک ہم اہل القرآن کا یہ ایمان اور وقت کا تقاضہ ہے کہ ہم تعامل مع الحکام پر زور دیں اور عمل کریں۔

یہ بذات خود ایک فتنہ ہے کہ ہم خلافت کی خواہش اور جدوجہد کرتے پھریں۔
ابھی تک جن جن نے خلافت کا نعرہ لگا کر جدوجہد کی انہوں نے کیا پایا اور مسلمانوں کو کیا فائدہ دیا؟

ایک تنکے کا بھی نہیں۔

سوال: کیا کورونا وائرس "نیو ورلڈ آرڈر” کی طرف اشارہ ہے؟

جواب: پوری طرح نہیں, مبینہ اور خود ساختہ سپر پاورز اور سیکرٹ سوسائٹیز صرف موقع پیدا نہیں کرتی طاقت کے حصول کی خاطر بلکہ بعض اوقات قدرتی و فطرتی عوامل اور مصائب کا فائدہ بھی اٹھاتی ہیں۔

نیو ورلڈ آرڈر دراصل کچھ بھی نہیں ماسوائے سپرمیسی کی دوڑ کے۔

فلحال تو انسانی بقاء اہم مسئلہ بنی ہوئی ہے۔کورونا وائرس صرف اللہ سے رجوع کرنے اور حقوق العباد نبھانے کا اشارہ ہے۔

سوال: پاکستان اور پوری دنیا سے کورونا وائرس کا مکمل خاتمہ کب تک ممکن ہے؟ کوئی آئیڈیا یا تحقیق؟

جواب: یہ ایک آفاقی وباء ہے, کسی انسان کی اختراع نہیں۔

اور قرین قیاس یہی جواب بنتا ہے کہ جو چیز آفاق سے سر پر مسلط ہو وہ آفاق والے کو منا کر ہی سر سے اتاری جاسکتی ہے۔

سردست آفاق والا یہی چاہتا ہے کہ ہم صلہ رحمی, اخوت, ایثار اور ایمان کامل کے ساتھ نہایت صبر اور تشکر سے رہیں۔

البتہ دنیاوی لحاظ سے بتاتا چلوں کہ جب تک چین آف انفیکشن نہیں ٹوٹتی اور جب تک ویکسین تیار نہیں ہوتی یہ وباء ٹلنے یا ختم ہونے والی نہیں۔

سوال: اس کے لیے کئی ویکسین تیار ہوئی بھی ہے یا صرف قیاس آرائیاں ہیں اور اگر نہیں تو کب تک ممکن ہے؟

جواب: ویکسین کی دریافت اور تیاری میں اس وقت درجن سے زائد ممالک شامل ہیں۔
دراصل ویکسین اسی وائرس یا بیکٹیریا کے کمزور جراثیم ہوتے ہیں جنہیں تھوڑی بہت ڈی این اے موڈیفیکیشن کے بعد انسان میں داخل کردیا جاتا ہے تاکہ اگر انسان کو کبھی متعلقہ وائرس یا بیکٹیریا لاحق ہو تو وہ بے اثر ہوکر زائل ہوجائے کیونکہ ویکیسن قوت مدافعت کو مستحکم کردیتی ہے اور مرض کمزور ہوجاتا ہے۔

سوال: کیا ھمارے اداروں میں امتیازی عہدوں پر قادیانی قابض ہیں, اگر ہاں تو ایسا کیوں ہے اور جنکو پتہ ھے اس بارے تو وہ کیوں ایکشن نہیں لیتے یا عوام تک یہ بات کیوں نہیں پہنچاتے؟

جواب: پہلے سوال کا جواب ہے کہ نہیں ہمارے اداروں میں سپر سیڈ یا امتیازی عہدوں پر اعلانیہ قادیانی تعینات نہیں تو قبضہ کی صورتحال ہی ندارد۔

تو جیسا میں نے کہا کہ ایسا نہیں ہے بلکہ یہ محض افواہ ہے تو ایکشن اور نوٹیفیکیشن کی ضرورت ہی نہیں بچتی۔

سوال: بھائی اب اعلانیہ کون کہے گا کہ وہ قادیانی ہے؟

جواب: تو آپ کس طرح کسی کے باطل میں جھانک سکتے ہیں؟, میرے ناقص علم میں ہے کہ ہمارے لیے ظاہر ہی کافی ہے جب تک اگلا اعلان نہ کردے کہ وہ کافر ہے وغیرہ وغیرہ۔

سوال: اچھا دوسری بات اگناسٹکس کے خدا کے بارے میں کیا نظریہ ہے؟

جواب: اگناسٹکس دراصل متذبذب اور متشکک ہوتے ہیں۔ مطلب یہ نا تو خدا کے مکمل طور پر انکاری ہوتے ہیں اور نا ہی مکمل طور پر اقراری, ان کا خدا پر یقین تحقیق سے مشروط ہوتا ہے اسی لیے انہیں اگناسٹکس کہا جاتا ہے۔

جبکہ ایتھسٹ خدا کے صاف انکاری ہوتے ہیں اور انہیں خدا کے وجود سے کوئی سروکار نہیں ہوتا بیشک دلیل سے ثابت کردیا جائے تب بھی لیکن اگناسٹک دلیل ملنے پر خدا پر یقین کرنے کو تیار رہتے ہیں پر دلیل صیقل ہو تب۔

سوال: مبشر زیدی کے بارے کیا خیال ہے, 100 لفظوں کی کہانی والا؟

جواب: وہ دراصل متشکک یا اگناسٹک ہی ہے پر اس کا عمل ایتھسٹ ہونے کی چغلی کھاتا ہے باقی واللہ عالم بلصواب۔

سوال: کچھ لوگوں کے نزدیک دجال کا ظاہری و جسمانی وجود نہیں اس پر آپ کا کیا کہنا ہے؟

جواب: بلکل متضاد, کیونکہ میں قرآن و حدیث کا طالبلعلم اور ماننے والا ہوں۔ احادیث میں دجال کی بابت بہت واضح اشارے اور احکامات موجود ہیں۔

دجال دراصل دجل یا دجلے کی جمع ہے جبکہ دجل یا دجلہ فریب اور دھوکے کو کہتے ہیں مطلب دجال ایک مخلوق ہوگی جو کثیر الفتنہ کردار ہوگا, باقی واللہ عالم بلصواب۔

سوال: شریعت میں جمہوریت کی کیا حیثیت ہے ؟ نیز اگر ملک میں جمہوری نظام نافذ ہو تو امیر (جمہوری حکومت ) کے خلاف خروج کر کے اسلامی شریعتی نظام کے نفاذ کی کوشش کرنا درست ہو گا؟

جواب: جمہوریت ایک باطل اور انسانی ساختہ نظام ہے جس کی اسلام میں کوئی گنجائش نہیں لیکن ہم اس وقت اضطراری کیفیت کا شکار ہیں اپنی خامیوں اور کمزوریوں کی بدولت تو ہم اس نظام کے تحت زندہ رہ سکتے ہیں "نفرت کی نگاہ” سے اس نظام کو دیکھتے ہوئے پر اس کا حصہ بننا صریح گمراہی اور عمل بد ہے۔

اور جہاں تک بات ہے جمہوری حکومت کا دھڑن تختہ کرنا تو اسلام کا اصول واضح ہے کہ حکومت خواہ اسلامی ہو یا غیر اسلامی, ہم پر خروج یا بغاوت حلال نہیں بلکہ حکومت جیسی بھی ہو ہمیں تعامل مع الحکام کا حکم ہے مطلب بلا چوں چراں اور لعن طعن کے حکمران اور امیر کی اطاعت فرض ہے ماسوائے شعار اسلام پر قدغن کے لیکن خروج کا حکم تب بھی موجود اور حلال نہیں, واللہ عالم بلصواب۔

سوال: آپ کی ساری باتوں پر اتفاق کرتا ہوں پر جب اسلامی ملک ہو اور اس پر انسانوں کا بنایا ہوا قانون لاگو کیا جائے جبکہ اسلام اس چیز کی سخت مخالفت کرتا ہے کہ انسان کے بنائے ہوئے قانون و آئین میں خامیاں ہو سکتی ہیں تو پھر ایسا کیوں ہے کہ انسان کے بنائے ہوئے قانون کے خلاف آپ یا ہم بغاوت نہیں کر سکتے, تھوڑی وضاحت کر دیں؟

جواب : کیونکہ بغاوت اور خروج اسلام کا مزاج نہیں۔ اسلام اگر افراد پر لاگو نہیں ہوسکتا تو کم سے کم فرد اسلام کو خود پر ضرور لاگو کرے۔

اسی اصول کی بنیاد پر تعامل مع الحکام کا حکم وضع ہوتا ہے۔ ہماری ذاتی پسند ناپسند یا علمی ضد کے لیے اسلام کا مزاج اور فطرت نہیں بدلی جاسکتی۔

اور ثانیاً بتادوں کہ خلافت اب کبھی نہیں آئے گی اور نہ ہی اسلامی ملوکیت کی گنجائش نظر آتی ہے اس لیے جو نظام رائج ہے اس کو پسند کیے بغیر نفرت کی نگاہ سے دیکھتے ہوئے اضطراری کیفیت میں ماننا اور اس کے تحت بنے حکمران کی اطاعت کرنا واجب ہے, واللہ عالم بلصواب۔

سوال: اگر کوئی حکمران اور اس کے ماتحت ادارے عوام کی خدمت کرنے سے قاصر ہوں اور ایسا مسلسل ہو رہا ہو تو اس صورت میں کیا کرنا چاہیئے؟

جواب: صبر اور شکر اور اپنے کام سے کام رکھیں, اسلام کا یہی حکم ہے۔

جہاد کی آٹھ وجوہات میں ایک بھی وجہ ایسی نہیں جو یہ بتائے کہ ہم جہاں رہتے ہیں وہیں ہتھیار اٹھا لیں, واللہ عالم بلصواب۔

سوال: یہاں ہر دوسرا شخص یہ بات کر رہا ہے کہ کوئی کرونا نہیں ہے گورنمنٹ اپنے آقاؤں (امریکہ) کو خوش کرنے کے لیے یہ سب کُچھ کر رہی ہے, صرف میڈیا وار ہے, جسکا عملی نمونہ بھی نظر آیا, مطلب کسی کو کوئی فکر نہیں, بس عوامی مقامات بند ہیں, آپ کیا کہتے ہیں؟

جواب: میں جز وقتی دانشور ہونے کے علاوہ کل وقتی طبی و ادویاتی نمائندہ بھی ہوں, سارا دن ہسپتال و ڈاکٹرز اور مریضوں میں گزرتا ہے۔کورونا کوئی ڈرامہ اور گریٹ گیم نہیں بلکہ فطرت کا انسان سے بدلہ ہے۔ کورونا ایک سنگین جان لیوا مرض ہے اور میں خود کافی مریضوں کا گواہ ہوں۔ جو لوگ یہ کہتے ہیں کہ کورونا کچھ نہیں وغیرہ وغیرہ وہ جاہل ہیں۔ اور کچھ اثرات سازشی تھیوریز کا بھی ہے۔

جہاں تک بات ہے لاک ڈاؤن میں تفاوت کا تو لاک ڈاؤن کا حکم سب کے لیے ایک جیسا ہے پر یہ عوام ڈنڈے کے بغیر نہیں سمجھتی۔

جب تک بڑے شہروں میں کرفیو نہیں لگتا اور باقی شہروں کو سخت لاک ڈاؤن نہیں کیا جاتا اس وبا پر کنٹرول ناممکن ہے۔

سوال: ہر سوال کا کوئی نا کوئی جواب ہوتا ہے, بس اتنا بتا دیں کہ (لفظ سوال) کا مطلب کیا ہے؟

جواب: سوال کا لفظی مطلب ہے کہ پوچھنا ، معلوم کرنا ، دریافت کرنا جبکہ قران پاک میں ہے کہ یایھا الذین امنوا لا تسالوا عن اشیاء ان تبدلکم تسئوکم مطلب ایسی باتیں تم دریافت نہ کرو کہ تم کو بتادی جائیں تو تم کو ناگوار ہوں اور دوسری جگہ ہے کہ فاسال بہ خبیرا مطلب اسے کسی باخبر سے پوچھو۔

سوال: لیڈر شپ کا فقدان کیوں ہے, کیوں مخلص قیادت نہیں؟ آپ کیا کہتے ہیں؟

جواب: اللہ پر یقین کامل, سنت سے محبت, شریعت کی ضرورت اور اخلاق کی قدرو منزلت میں جب کمی آجائے اور انسان کو لگے کہ وہ عقل کل ہے تب قیادت اور مخلص قیادت کا بحران ہی جنم لیتا ہے۔

مانو یا نا مانو جب اوپر مذکورہ عوامل پر ہماری گرفت تھی تب ہم مخلص قائدین سے قطعی محروم نہیں تھے۔

سوال: نفس کی پاکیزگی کیا ہے؟

جواب: نفس پاکیزگی یہ ہے کہ ہم دوسروں کے نفس مت ٹٹولیں مطلب ٹوہ اور تجسس سے گریز کرکے خوش گمان رہیں اور نیک اعمال کی دعوت دیں اور خود بھی نیک اعمال پر عمل کریں۔

نفس ناپاک ہی تب ہوتا ہے جب ہم اس کو دوسرے کے نفس کی جاسوسی کرنے اور خودساختہ نتائج سمجھنے پر لگاتے ہیں۔

سوال: کیا موجودہ نظام جمہوریت سے پاکستان کو ترقی کی راہ پر گامزن کیا جا سکتا ہے یا اس جمہوری نظام میں تبدیلی لا کر؟ کیا کہتے ہیں آپ اس پر؟

جواب: پاکستان کی ترقی اب نظام سے زیادہ افراد اور ان کی ایمانداری سے جڑی ہے۔
موجودہ زمانے میں نظام خواہ خلافت کا بھی ہوا لیکن افراد ایماندار نہ ہوئے تو ترقی کے بجائے تنزلی طے ہے۔

سوال: عالمی اسٹیبلشمنٹ پاکستان کی سیاست اور خود مختاری پر کیسے اثر انداز ہوتی ھے
اور کتنا کنٹرول ھے عالمی اسٹیبلشمنٹ کا؟ اور سیاست میں کچھ ایسے لوگ جو اداروں کو بھی پتہ ھے کے یہ دشمن ملک کے آلہ کار ہیں پھر بھی انکو دوسرے ممالک کی طرح کیوں نہیں پکڑ کر کیفر کردار تک پہنچایا جاتا؟

جواب: بہت سے طریقے ہیں عالمی اسٹیبلشمنٹ کے پاکستان پر حاوی ہونے کے لیکن ایک رائج طریقہ ہے گھر میں کمند ڈالنا یا سیندھ لگانا۔ غدار وہ واحد سہارہ ہیں عالمی اسٹیبلشمنٹ کا جو پاکستانی اسٹیبلشمنٹ کو ٹف ٹائم دیتے ہیں۔

اور یہ کہ ہماری اسٹیبلشمنٹ میں بھی انسان ہی ہیں جن سے صحیح غلط سب کی بعید ہے لہذا ان میں چھپی کالی بھیڑوں کی بدولت غدار اور عالمی اسٹیبلشمنٹ کے ایجنڈے تاحال محفوظ اور کارگر ہیں۔

ہمارے محب وطن اور ایماندار لوگ کام کررہے ہیں اور ان جونکوں کا صفایا خاموشی سے کرنے کی کوشش کررہے ہیں پر وقت لگے گا۔

سوال: دنیا تو ہے ہی کافر, پاکستان میں بنے گستاخانہ پیجز اور پاکستان مخالف نعرے مارنے والوں کا اسٹیبلشمنٹ, سیکیورٹی ایجنسیز اور نمبر ون کچھ بھی نہیں اکھاڑ پاتی, آپکے خیال میں اس کی کیا وجہ ہے؟

جواب: جواب ہے کہ بوجہ جمہوریت وہ قاصر یا معذور ہیں بہت سے معاملات پر سخت اور خودکار و رضاکارانہ ایکشن لینے میں۔ قصہ المختصر تمام ادارے اور ایجنسیز جمہوری ایوانوں کے ماتحت ہیں لہذا ان سے ہر کام کی توقع رکھنا سراسر کج فہمی اور بیوقوفی ہے۔

سوال: ہم نے تو سنا ہے جمہوریت آتی ہی ان (اسٹیبلشمنٹ, سیکیورٹی ایجنسیز اور نمبر ون) سے ہے, کیا یہ جھوٹ ہے؟

جواب: یہ کتنا جھوٹ ہے اور کتنا سچ ہے یہ میں نہیں بتاسکتا پر اتنا بتادوں کہ جمہوریت ایک عفریتی چکر ہے اور یہ دنیا کی طرح گول ہے, گھوم پھر کر وہیں واپس لاتی ہے جہاں سے سب شروع ہوتا ہے۔

آخری سوال یہ تھا کہ

سوال: آپ کے نذدیک کورونا وائرس خدا کا عذاب ہے یا اسرائیل کی سازش یا پھر چائینہ اس میں ملوث ہے؟ یہ کیا کہانی ہے؟

جواب: یہ فطرت کا ایکو سسٹم ہے۔
جب سے یہ کائنات بنی ہے اور دنیا سجی ہے تب سے کچھ بھی ایسا نہیں جس کی تخلیق اللہ نے نہیں کی۔

بے جان اشیاء کی ایجاد تو انسان کرسکتا ہے پر جاندار مخلوق انسان کی ایجاد کبھی ہو ہی نہیں سکتی۔

وائرس اور بیکٹیریا جیسا خوربینی جاندار تو بہت دور انسان ایک سانس خود نہیں بناسکتا جس پر یہ زندہ ہے۔

البتہ یہ جو اس وقت ہورہا ہے یہ نہ عذاب ہے, نہ یہودی و اسرائیلی سازش اور نہ ہی کوئی جنگ۔

یہ اللہ کی قدرت ہے کہ مبینہ طور پر ہر سو سال بعد بعد زمین خود کو ری سیٹ کرتی ہے اوپر اور نیچے سے تب وبائیں اور مصیبتیں پھوٹنا ایک عام سی بات ہے۔

"محدود رہیے اور محفوظ رہیے”, یہ اللہ کا حکم نبیوں کو بھی ہوتا تھا جب اللہ واقعی عذاب مسلط کرتا تھا اب عذاب تو معلوم نہیں پر فطرت کا احتساب چلتا ہے تو کیفیت عذاب والی ہی بنتی ہے لہذا احتیاط اور محدود رہنے میں ہی عافیت ہے۔

تو یہ تھے کچھ سنجیدہ نوعیت کے دلچسپ سوال جن کے ممکنہ جوابات دیکر مجھے بے حد خوشی اور طمانیت ہوئی اور میرا دماغ بھی تازہ ہوا۔

امید ہے کہ احباب کو یہ نیا سلسلہ ضرور پسند آئے گا کیونکہ میں اس کو ایک دن چھوڑ کر مستقلاً چلانے کا ارادہ رکھتا ہوں۔

#سنجیدہ_بات

#آزادیات

#بلال #شوکت #آزاد

Leave a reply