کرونا سے جان چھوٹی نہیں، ایک اور وائرس نے خطرے کے گھنٹی بجا دی

0
28

کرونا سے جان چھوٹی نہیں، ایک اور وائرس نے خطرے کے گھنٹی بجا دی

باغی ٹی وی کی رپورٹ کے مطابق کرونا وائرس کی وبا ابھی تک ختم نہیں ہوئی کہ نئی وبا ایبولا سے اموات کا سلسلہ شروع ہو گیا

افریقی ملک گنی میں ایبولا وائرس تیزی سے پھیلنے لگا،ملک میں وائرس سے مزید3 افرادہلاک ہوگئے پانچ سال کے بعد ایبولا کے کیسز افریقہ میں پھر سے سامنے آئے ہیں،ایبولا کا شکار سات افراد نے یکم فروری کو ایک نرس کی آخری رسومات میں شرکت کی تھی،چار افراد ابھی تک وبا سے متاثر ہیں

گنی نے باضابطہ طور پر اعلان کیا ہے کہ ایبولا وائرس سے کم از کم تین افراد کی ہلاکت کے بعد ایبولا کی وبا سے نمٹ رہے ہیں،گنیمیں ایبولا سے اموات ہوئی ہیں، عہدیداروں نے بتایا کہ نئی تیار شدہ ویکسینیں عالمی ادارہ صحت کے ذریعہ حاصل کی جائیں گی۔

خبر رساں ادارے بی بی سی کے مطابق 2013 اور 2016 کے درمیان گنی میں ایبولا کی وبا میں 11،000 سے زیادہ افراد ہلاک ہوگئے تھے۔اس وبائی بیماری نے بنیادی طور پر گیانا اور اس کے پڑوسیوں لائبیریا اور سیرا لیون کو متاثر کیا ،

ایبولا وبا سے نمٹنے کے لئے ڈبلیو ایچ او مکمل الرٹ ہے اور ویکسین تیار کرنے والے کے ساتھ رابطے میں ہے تاکہ اس بات کو یقینی بنایا جاسکے کہ ضروری خوراکیں جلد از جلد دی جائیں

2015 میں گنی میں ایبولا کی ایک ویکسین چار مہینوں میں پہلی بار آزمائی گئی۔ اور ایسی دوائیں بھی تیار کی گئیں جو حالیہ برسوں میں مریضوں کی بقا کی شرح کو بڑھا سکتی ہیں۔

سنہ 1976 میں ایبولا وائرس کو دریافت کرنے والے ڈاکٹر کا کہنا ہے کہ نئے وائرسز انسانیت کو اپنا نشانہ بنانے کے لیے تیار ہیں اور یہ ممکنہ طور پر کووڈ 19 سے کہیں زیادہ خطرناک ہوسکتے ہیں۔ڈاکٹر جین جیکس نے سنہ 1976 میں ایک پراسرار قسم کی بیماری کا شکار ہوجانے والے اولین افراد کے خون کے نمونے لیے تھے، اس بیماری کو بعد ازاں ایبولا وائرس کا نام دیا گیا تھا۔

ڈاکٹر کا کہنا ہے کہ دنیا لاتعداد وائرس کے نشانے پر ہے، افریقہ کے جنگلات سے نئے اور ممکنہ طور پر جان لیوا وائرسز ظاہر ہوسکتے ہیں اور یہ وائرس کووڈ 19 سے کہیں زیادہ خطرناک ثابت ہوسکتے ہیں۔ادھر عوامی جمہوریہ کانگو میں ایک شخص کے، جس کا نام ظاہر نہیں کیا گیا، ایک نئے قسم کے بخار کا شکار ہونے کی خبریں زیر گردش ہیں، ڈاکٹرز کے مطابق اس شخص کا ایبولا وائرس کا ٹیسٹ کیا گیا جو منفی آیا، جس کے بعد ڈاکٹرز نے اس پراسرار بیماری کو ڈیزیز ایکس کا نام دیا گیا جس کا مطلب کسی غیر متوقع بیماری کے ہیں۔

ڈاکٹر جین کا کہنا ہے کہ ایسے لاتعداد وائرسز ہوسکتے ہیں جو جانوروں سے انسانوں میں منتقل ہوسکتے ہیں اور ان کی ہولناکی کہیں زیادہ ہوگی۔دنیا ابھی تک کئی ایسی بیماریوں سے واقف ہے جو جانوروں سے انسانوں میں منتقل ہوجاتی ہیں، جیسے زرد بخار، ریبیز، انفلوئنزا وغیرہ۔

ماہرین کا کہنا ہے کہ جانوروں سے انسانوں میں بیماریاں منتقل ہونے کی سب سے بڑی وجہ ان کی قدرتی پناہ گاہوں یعنی جنگلات کا تیزی سے ختم ہونا اور ان کی تجارت ہے۔ماہرین کے مطابق جنگلات ختم ہونے سے بڑے جانوروں کو معدومی کا خدشہ ہوتا ہے تاہم چھوٹے جانور جیسے چوہا، چمگاڈر یا کیڑے مکوڑے سروائیو کر جاتے ہیں اور یہی وائرسز کو منتقل کرنے کا بہترین ذریعہ ہوتے ہیں۔

جس شخص کے بارے میں تصدیق ہو جائے کہ وہ ایبولا وائرس سے لاحق ہونے بیماری میں مبتلا ہو چکا ہے، اسے فوراً دوسرے انسانوں سے الگ کر دینا چاہئیے تاکہ بیماری دوسرے انسانوں کو نہ لگ جائے۔ مریض کو ٹھوس غذا نہ دی جائے۔ اسے آکسیجن بھی لگائی جاتی ہے۔ خون کا دباؤ یعنی بلڈ پریشر معمول پر رکھنے کی دوائیں بھی دی جاتی ہیں اور اسے خون بھی لگایا جاتا ہے۔ اس وائرس سے بچنے کے لیے تاحال کوئی ویکسین موجود نہیں ہے۔ اس سے بچنے کا واحد طریقہ یہ ہے کہ ان علاقوں کا سفر بالکل نہیں کیا جائے جہاں ایبولا وائرس پایا جاتا ہو یا پھیل چکا ہو۔ حفظانِ صحت کی خدمات انجام دینے والے افراد بھی نقاب لگا کر، دستانے پہن کر اور عینک لگا کر اس وائرس سے بچنے کی تدبیر کر سکتے ہیں۔

Leave a reply