کراچی ملیر میں کرپشن ، ڈی سی ویسٹ کے بھیانک انگیز انکشافات

0
47

کراچی ملیر میں کرپشن ، ڈی سی ویسٹ کے بھیانک انگیز انکشافات

باغی ٹی وی :ادارہ ترقیات ملیر (MDA)کے ان پڑھ اور بےتحاشہ بدعنوان ADG سہیل بابوُایک بارپھر خبروں کی زینت بن گئے۔ تفصیلات کے مطابق گلشن معمار میں60 ارب کے اس فراڈ کا بھانڈہ تب پھوٹا جب کچھ عوامی شکایات کی بناپ ڈی رسی ویسٹ فیاض سولنگی نےتحقیقات کا آغاز کیا۔
ڈی سی ویسٹ کرتے ہوئے بتایا ہے کہ consolidation کے ہتھکنڈے کے ذریعے گلشن معمار کے سیکٹر Q کے نزدیک واقع 80 ایکڑ کی بیش قیمت سرکاری زمین سفاری بلڈز کی نذر کردی گئی ہے حالانکہ کوئی ترقیاتی منصوبہ سرے سے موجود ہی نہیں تھا۔اطلاعات کے مطابق MDA نے ٹمبر مارکیٹ کواپریٹوسوسائٹی کےسروےنمبر29/2,32,34,35,36,37 جملہ اراضی 80 ایکڑ اپنی ملکیت میں لے کر بدلے میں گلشن معمار کے سیکٹر T اور S میں 80 ایکڑ الاٹ کیے جو کہ بعد میں سفاری بلڈرزنے مبینہ طوپر خرید لیے۔ لیکن سفاری بلڈرز نے سیکٹر S اور T کو بظاہر چھوڑکر سرکاری زمین ناکلاس 137 اور MDA کی سرکاری سروے نمبروں کاکام اتار دیا ہے اوروہاں متعدد بلند عمارتیں اس وقت بھی زیرتعمیر ہیں۔ اس کارگزاری میں سہیل بابو کے ساتھ معمار کے عبدالرشید اور سفاری بلڈرزکے روح رواں خالد یوسفی کے ساتھ ساتھ بدنام زمانہ لینڈگریبر حضور بخش کلوڑ بھی پیش پیش ہے۔ کئی سالوں تک خبر نہ پڑنے والے اس فراڈ کے منظرعام آنے سے عوام حیران و پریشان ہے کیونکہ لوگوں نے سفاری بلڈرز کے جعلی منصوبوں میں اربوں کی سرمایہ کاری کر رکھی ہے جس کے ڈوبنے کاشدید خطرہ ہے۔ یہ اندیشہ بھی ظاہر کیاجارہا ہےکہ اس ایک ہی کھاتہ پر سہیل بابو نے دو یا تین جگہوں پر بڑی بیدردری سے سرکاری زمینوں کا کام تمام کیا ہے اور حکومت کو کم از کم 60 ارب کا چونہ لگا گیا ہے۔ اس ضمن میں گلشن معمار کے موجودہ سیکٹر S اور T بھی انتہائی مشکوک قرار دیے جا رہے ہیں۔ اس بات کا شدید اندیشہ بھی ظاہر کیا جا رہاہے کہ consolidations کے نام پر متعدد جگہوں پر سرکاری زمینوں کا سہیل بابو نے کھلواڑ کیا ہے جس کی مفصل تفتیش ہونی چاہئیے۔ مذکورہ تفصیلات منظرعام آنے پر محکمہ اینٹی کرپشن نے بھی تحقیقات کا آغاز کردیا ہے اور سہیل بابو، عبدالرشید اور خالد یوسفی کی گرفتاری کسی بھی وقت متوقع ہے۔ مزید یہ کہ اس معاملے کے متاثرین نے انصاف کے لیےسہیل بابو اور اس کے ٹولے کے خلاف سندھ ہائی کورٹ میں جانے کا عندیہ بھی دیا ہے۔

Leave a reply