سپریم کورٹ میں اسلام آباد میں کار حادثہ کیس کی سماعت ہوئی
جسٹس مظاہر علی اکبر نقوی اور ایڈوکیٹ جنرل اسلام آباد جہانگیر جدون میں تلخ جملوں کا تبادلہ ہوا، جسٹس مظاہر علی اکبر نقوی نے استفسار کیا کہ کیا اس مقدمے میں جج مختلف نوعیت کی درخواستوں پر ایک جامع فیصلہ دے سکتا ہے؟ایڈووکیٹ جنرل اسلام آباد نے کہا کہ جج صاحب نے حکم جاری کیا ہے تو ایک جامع فیصلہ دیا جاسکتا ہے،جسٹس مظاہر علی اکبر نقوی نے ایڈووکیٹ جنرل اسلام آباد سے مکالمہ کرتے ہوئے کہا کہ کیا یہ آپ کی قابلیت کا معیار ہے؟آپ کو قانون کا پتہ ہی نہیں کہ اس کیس میں ایک فیصلہ ہوسکتا تھا یا نہیں؟ ایڈووکیٹ جنرل اسلام آباد نے جسٹس مظاہر علی اکبر نقوی کو جواب دیتے ہوئے کہاکہ آپ میری تضحیک کررہے ہیں، میں ایڈووکیٹ جنرل اسلام آباد ہوں کسی کی وکالت نہیں عدالت کی معاونت کررہا ہوں آپ میری تضحیک نہیں کرسکتے،جس جج نے فیصلہ دیا اس کی کیا قابلیت ہے؟ جس جج نے فیصلہ دیا کیا آپ اس کے خلاف فیصلہ دیں گے؟
ممنوعہ فنڈنگ کیس،الیکشن کمیشن نے فیصلہ سنا دیا،تحریک انصاف "مجرم” قرار’
اکبر ایس بابر سچا اور عمران خان جھوٹا ثابت ہوگیا،چوھدری شجاعت
عمران خان چوری کے مرتکب پارٹی سربراہی سے مستعفی ہونا چاہیے،عطا تارڑ
دوران سماعت جسٹس اعجاز الاحسن نے ریمارکس دیتے ہوئے کہا کہ ہم سب ایک دوسرے سے سیکھتے ہیں،سپریم کورٹ نے کار حادثے کا مقدمہ ٹرائل کورٹ کو واپس بھجوا دیا.ٹرائل کورٹ نے کار حادثے کے ملزم عمیر کو ایک سال قید کی سزا سنائی تھی ٹرائل کورٹ کا فیصلہ اسلام آباد ہائیکورٹ میں چیلنج کیا گیا تھا اسلام آبادہائیکورٹ نے بھی کار حادثہ کیس ٹرائل کورٹ کو واپس بھجوا دیا تھا جسٹس اعجاز الاحسن کی سربراہی میں دو رکنی بنچ نے سماعت کی