درجنوں بھارتی مسلمان خواتین کی آن لائن نیلامی ، ذمہ دار کون؟

گذشتہ اتوار کو ، ہندوستان میں درجنوں مسلم خواتین کوخوفناک انکشاف ہوا کہ انہیں آن لائن فروخت کے لئے رکھا گیا ہے جس کے بعد سے پولیس حکام درجنوں مسلمان خواتین کی تصاویر اور ذاتی معلومات آن لائن نیلامی کے لیے شیئر کیے جانے کے معاملے کی تحقیقات کر رہے ہیں۔

باغی ٹی وی : غیر ملکی میڈیا رپورٹس کے مطابق ’گذشتہ چند ہفتوں میں 80 سے زائد مسلمان خواتین کی تصاویر ان کی اجازت کے بغیر ’گٹ ہب‘ نامی ویب سائٹ پر اپلوڈ کی گئی ہیں جس کے ساتھ لکھا گیا تھا ’آج کی سلی ڈیل‘۔ سلی ایک توہین آمیز اصطلاح ہے جو مسلمان خواتین کے لیے استعمال ہوتی ہے۔

ایئر لائن پائلٹ حنا محسن نے بی بی سی کو بتایا کہ گذشتہ ہفتے ان کی سہیلی نے ایک ویب سائٹ کی جانب توجہ مبذول کروائی جس پر خواتین کی متعدد تصاویر موجود تھیں ان میں سے چوتھی تصویر میری تھی۔ اس دن کے غلام کے طور پر مجھے نیلامی کے لیے پیش کیا گیا تھا۔


حنا کا کہنا تھا کہ ’اس واقعے نے انہیں انتہائی خوفزدہ کر دیا ہے، تب سے اب تک وہ مسلسل غصے کی کیفیت میں ہیں۔

انہوں نے بتایا ، "میں نے 83 نام گنے۔ اس سے بھی زیادہ ہوسکتے ہیں۔” "انہوں نے ٹویٹر سے میری تصویر لی تھی اور اس میں میرا صارف نام تھا۔ یہ ایپ 20 دن سے چل رہی تھی اور ہمیں اس کے بارے میں بھی نہیں معلوم تھا۔

گٹ ہب ویب سائٹ کے مطابق ’متعلقہ صارف نے ہراسیت، امتیازی سلوک اور تشدد پر اکسانے کے حوالے سے ان کی پالیسی کی خلاف ورزی کی ہے جس کے بعد اکاؤنٹ معطل کر دیا گیا ہے جبکہ کسی بھی طرح کی کوئی نیلامی نہیں ہوئی تھی – ایپ کا مقصد صرف ہراس اور ذلیل و خوار تھا۔

دہلی کی پولیس نے واقعے میں ملوث افراد کی شناخت نہ ہونے پر نامعلوم افراد کے خلاف مقدمہ درج کرلیا ہے۔

فرانسیسی خبر رساں ادرے اے ایف پی کے مطابق فروخت کے لیے پیش کی جانے والی درجنوں مسلمان خواتین میں سے 34 سالہ ثانیہ احمد کی تصاویر اور ذاتی معلومات بھی شیئر کی گئی تھیں۔ انڈیا میں ایک میڈیا کمپنی کے ساتھ منسلک ثانیہ احمد نے اس تمام واقعے کا ذمہ دار سخت گیر ہندوؤں پر مشتمل آن لائن ٹرولرز کی فوج کو ٹھہرایا ہے جو حالیہ چند سالوں میں مزید پھیل گئے ہیں۔

ثانیہ احمد کا کہنا ہے کہ مسلمان خواتین کو خاص طور پر نشانہ بنایا جاتا ہے جو بدسلوکی سے شروع ہوتا ہے اور موت اور ریپ کی دھمکیوں تک بڑھ جاتا ہے گزشتہ سال ان کے ساتھ ہونے والی آن لائن ہراسگی کے 782 سکرین شاٹس ان کے پاس موجود ہیں جو اکثر ٹوئٹر صارفین کے ہیں۔

ثانیہ کا کہنا تھا کہ آن لائن ٹرولرز کو سیاسی پشت پناہی حاصل ہے جو انڈیا کی قوم پرست حکومت کے تحت بڑھتے ہوئے اسلامو فوبیا کا حصہ ہے آن لائن ٹرولرز صحافیوں اور سماجی کارکنوں سمیت دیگر افراد کو ہزاروں کی تعداد میں ہتک آمیز پیغامات بھیجتے ہیں کہ چند صارفین اپنا اکاؤنٹ بند کرنے پر مجبور ہو گئے ہیں۔

وزیراعظم نریندر مودی کے اقتدار میں آنے کے بعد سے انڈیا میں بسنے والے سترہ کروڑ مسلمانوں کا خیال ہے کہ وہ دوسرے درجے کے شہری بن چکے ہیں۔
گائے کے تحفظ کو بنیاد بناتے ہوئے سخت گیر ہندوؤں کے مسلمانوں پر تشدد کے واقعات نے مسلمان کمیونٹی کو خوف و مایوسی میں مبتلا کر دیا ہے۔
انڈین صحافی فاطمہ خان کو بھی گٹ ہب ویب سائٹ پر نیلامی کے لیے پیش کیا گیا ہے۔

متاثرہ صحافی فاطمہ خان نے اس واقعے پر ٹویٹ کرتے ہوئے لکھا کہ ’یہ کس طرح سے قابل قبول ہے؟ اس کی کیا سزا ہوگی؟ اگر کوئی سزا یہ (خواتین کی) فہرست بنانے والوں کو دی گئی تو۔


انہوں نے سوال اٹھایا مسلمان مردوں کو ہجومی تشدد کا نشانہ بنایا جاتا ہے، مسلمان خواتین کو ہراساں کیا جاتا ہے اور آن لائن فروخت کیا جاتا ہے۔ یہ سب کب بند ہوگا۔


صحافی فاطمہ خان کا کہنا ہے کہ جن خواتین کو نشانہ بنایا گیا ہے وہ مسلمان خواتین کے روایتی تصور کے مطابق نہیں ہیں جب ہم ان میں سے نہیں ہیں، تو وہ ہمیں خاموش کرنا چاہتے ہیں۔

"مسلمان عورتیں برائے فروخت”بھارت میں باقاعدہ ایپ لانچ کردی گئی

Comments are closed.