ڈیفالٹ اور بینکرپسی کا فرق – پاکستان میں افواہیں اور خدشات!!! — سردار غضنفر خان

اکثر لوگ نام ڈیفالٹ کا لیتے ہیں اور معنی بینکرپسی یعنی قرقی کا لیتے ہیں، ان دونوں میں زمین آسمان کا فرق ہے، پہلے ہم بینکرپسی کو دیکھتے ہیں پھر ڈیفالٹ کا جائزہ لیں گے تاکہ فرق پتا چل جائے۔

قرقی ہونے کی نوبت اس وقت پیش آتی ہے جب کیپیٹل ایکویٹی سسٹین۔ایبل نہ رہے، اس صورت میں لائبلٹی ناک۔آف کرنے کی وہ صلاحیت جاتی رہتی ہے جو نوٹ کے اوپر لکھی ہوئی ہے کہ حامل ہذا کو مطالبہ پر ادا کرے گا، بینکرپسی کی صورت میں یہ صلاحیت زیرو ہو جاتی ہے اور اسٹیٹ اس گارینٹی سے ہاتھ اٹھا لیتی ہے، اس کے بعد اسٹیٹ کچھ بھی کرنے کے قابل نہیں رہتی، یہ امپورٹ بل سے بالکل الگ ایک چیپٹر ہے۔

اس بات کو مزید باریکی سے سمجھنا چاہیں تو یوں سمجھ لیں کہ ایک امریکی ڈالر کے مقابلے میں پاکستانی دو سو تیس روپے آتے ہیں اور ایرانی ریال کے بیالیس ہزار یونٹ آتے ہیں، اس کا مطلب یہ ہے پاکستانی کرنسی کی سسٹین ابیلٹی ایرانی کرنسی کے مقابلے میں ایک سو بیاسی گنا بہتر ہے۔

اب سمجھانے کیلئے کہہ رہا ہوں کہ خدانخواستہ ان دونوں کرنسیوں پر دنبدن زوال بڑھتا جائے تو کتنا عرصہ لگے گا کہ ایران کہے جناب میں پچاس لاکھ ریال دے کر ایک ڈالر خریدنے سے قاصر ہوں لہذا ہم باہر کی دنیا سے سب ناطے توڑ رہے ہیں کیونکہ ہم کچھ بھی خریدنے کی سکت کھو چکے ہیں، پھر پاکستان کو کتنا عرصہ لگے کا یہ کہنے میں کہ جناب میں بھی ستائیس ہزار میں ایک ڈالر لینے سے قاصر ہوں۔

اس کا جواب ایسے نکال لیں کہ روس جیسی بڑی مملکت کی اکانومی نیگیٹیو انویسٹمنٹ گریڈ میں ہے، کچھ عرصہ قبل دیکھی تھی اس وقت مائینس سی سی کرکے کچھ تھی اور پاکستان کی شائد بی پلس میں تھی، عالمی ماہرین روس میں سرمایہ کاری ریکمنڈ نہیں کرتے جبکہ وہی ادارے ایران اور پاکستان پر ایسی کوئی حرف آرائی نہیں کرتے، جس کا سب سے بڑا ثبوت سی۔پیک اور اس جیسے دیگر عالمی معاہدے ہیں۔

خدانخواستہ ثم خدانخواستہ نااہل حکمرانوں کی وجہ اگر ڈوبیں گے تو پہلے ایران ڈوبے گا پھر دس سال بعد ہم ڈوبیں گے اور ایران اس وقت ڈوبے گا جب مائنس سی گریڈ رکھنے والے روس کو ڈوبے ہوئے دس سال ہو چکے ہوں گے اسلئے خدا کا شکر کریں اور اس نظام کو بہتر کرنے کی کوشش کریں۔

لوگ جب اس چیز کو امپورٹ بل کے تناظر میں دیکھتے ہیں تو بڑا سنگین مغالطہ پیدا ہو جاتا ہے جبکہ امپورٹ بل کا رک جانا یا بیلنس آف پیمنٹ کا مینٹین رکھنا جب ممکن نہ ہو تو ڈیفالٹ کہلاتا ہے، یعنی فی الحال ہمارے پاس پیسے نہیں ہیں جب ہوں گے تو خریداری کر لیں گے۔

یہ کیفیت ہر تنخواہ دار بندے پر ہر مہینے آتی ہے، جب آخری دنوں میں اس کے پاس پیسے نہیں ہوتے تو پھر وہ ضروریات زندگی کچھ کم کر لیتا ہے، یا تو خریداریوں کا فلو کم کر لیتا ہے یا پھر کچھ چیزوں کی خریداری نیا کیش انفلو آنے تک مؤخر کر دیتا ہے۔

بالکل یہی صورتحال کمپنیز اور اداروں کو بھی پیش آتی ہے جب وہ پانچ تاریخ کی بجائے بیس تاریخ کو تنخواہیں ادا کرتے ہیں تو اس دوران وہ بھی ڈیفالٹ کی پوزیشن میں ہی ہوتے ہیں، جن سرکاری و غیرسرکاری ملازمین کی تنخواہیں اور ٹھیکیداروں کی پیمنٹس لیٹ ہوتی ہیں بعض اوقات دو چار ماہ تک بھی ڈیلے ہو جاتی ہیں اس وقت ان کے ادارے بھی ڈیفالٹ کی پوزیشن میں ہوتے ہیں، آپ پیمنٹ مانگتے ہیں وہ کہتے ہیں فی الحال تو ہے نہیں جب ہو گی تب دے دیں گے۔

ایسی صورتحال میں جیسے ایمپلائی کے پاس دوسرا کوئی آپشن نہیں ہوتا ایسے دنیا بھی اپنی بنی بنائی منڈی ایک دم سے اویکیوایٹ نہیں کر جاتی، انہیں پتا ہے کہ دیفالٹ ریزوم ہوجاتا ہے مگر منڈی میں دوبارہ جگہ بنانا مشکل ہوجاتا ہے۔

اب آپ کو سمجھ آگئی ہو گی کہ سری لنکا ڈیفالٹ کرنے کے بعد دوبارہ کیسے چل گیا اور کیسے چل رہا ہے، پھر سری لنکا کے ڈیفالٹ کرنے کے بعد کونسے ملک نے اس پر جزوی یا کلی قبضہ کر لیا ہے؟

سری لنکا میں جو بھی اودھم مچا اور جلاؤ گھیراؤ ہوا وہ ان کی اپنی قوم نے ہی کیا تھا، باہر سے کسی نے ان پر توپ نہیں چلائی تھی، یہی صورتحال اب یہاں پر ہے، کچھ باؤلے اس انتظار میں بیٹھے ہیں کہ کہیں سے ڈیفالٹ ہونے کی آواز آجائے تو ہم بھی آگ لگانے نکلیں، سارا واویلا صرف اس بات کا ہے۔

خدانخواستہ ڈیفالٹ ہو بھی گیا اور لوگوں نے اشرافیہ کا گھیراؤ جلاؤ کر بھی لیا جیسے سری لنکا میں ہوا تو کچھ دن بعد آؤٹ۔فلو پھر سے ریزوم ہو جائے گا اور صورتحال نارمل ہوجائے گی۔

ڈیفالٹ کا وقتی نقصان یہ ہوتا ہے کہ بعض اشیاء کی کم یابی سے انفلیشن بڑھتی ہے اور صنعتی و تجارتی پہیہ سلو ہو جاتا ہے یا رک رک کے چلتا ہے اسلئے ڈیفالٹ ہرگز ہرگز نہیں ہونا چاہئے، اس کے کچھ ڈیمیرٹس ضرور ہیں لیکن قرقی جیسی کوئی صورتحال نہیں جیسا کہ خوف مچایا ہوا ہے۔

خدانخواستہ ایسی کوئی صورتحال پیش آجائے تو اپنی ضروریات کو شرنک کریں اور انارکی پھیلانے یا گھیرا جلاؤ کرنے سے باز رہیں، ایسے موقع پر صبروتحمل اور اتحاد کا مظاہرہ کریں اور ذمہ داروں کو اس مشکل سے نکلنے کیلئے سکون سے راہ ہموار کرنے دیں۔

Comments are closed.