6ستمبر اسلامی جمہوریہ پاکستان میں بطور ایک قومی دن

0
29

*”یومِ دفاع ہر سال 6 ستمبر کو اسلامی جمہوریہ پاکستان میں بطور ایک قومی دن منایا جاتا ہے۔”*
یہ دن پاک بھارت جنگ 1965ء میں افواج کی دفاعی کارکردگی اور قربانیوں کی یاد میں منایا جاتا ہے۔

یوم دِفاع کے سلسلے میں اسلامی جمہوریہ پاکستان میں مختلف تقریبات منعقد کی جاتی ہیں۔

*”تقریبات”*
جس میں پرچم کشائی، پیریڈ، فوجی نمائشیں، انعامی تقریبات، ملی نغمے گانے، فوجی تقریبات، مختلف پروگرامز اور تقاریریں۔ وغیرہ

اس کا مقصد اسلامی جمہوریہ پاکستان کے دفاع اور عسکری طاقت کو مضبوط کرنے کی یاددہانی ہے، تاکہ ہر آنے والے دن میں کسی بھی حملے سے بطریق ءاحسن نمٹا جا سکے۔

*’ اس دن اسکول، کالجز اور جامعات کے علاوہ سرکاری دفاتر میں بھی 6 ستمبر 1965 کی پاک بھارت جنگ کے شہداء اور غازیوں کو خراج تحسین پیش کیا جاتا ہے اور بھارت کے اس حملے کی پسپائی کا تذکرہ کیا جاتا ہے جس میں اسے شکست کا سامنا کرنا پڑا تھا۔*

‘ہر پاکستانی اپنی فوج کے دفاع پر فخر کرتا ہے اور یقین رکھتا ہے کہ پاک فوج ہر محاذ پر سرخرو ہے۔

_*”6 ستمبر 1965ء کا دن عسکری اعتبار سے تاریخ عالم میں کبھی نہ بھولنے والا قابلِ فخر دن ہے جب کئی گنا بڑے ملک نے افرادی تعداد میں کئی گنا زیادہ لشکر اور دفاعی وسائل کے ساتھ اپنے چھوٹے سے پڑوسی ملک پر کسی اعلان کے بغیر رات کے اندھیرے میں فوجی حملہ کر دیا۔”*_

_*’ اس چھوٹے مگر غیور اور متحد ملک نے اپنے دشمن کے جنگی حملہ کا اس پامردی اور جانثاری سے مقابلہ کیا کہ دشمن کے سارے عزائم خاک میں مل گئے، بین الاقوامی سطح پر بھی اسے شرمندگی اٹھانا پڑی، جارحیت کرنے والا وہ بڑا ملک ہندوستان اور غیور و متحد چھوٹا ملک اسلامی جمہوریہ پاکستان ہے۔*_

1965ء کی ہندوستان اور اسلامی جمہوریہ پاکستان کے درمیان ہونے والی اس جنگ میں ثابت ہوا کہ جنگیں ریاستی عوام اور فوج متحد ہو کر ہی لڑتی اور جیت سکتی ہیں۔

پاکستانی قوم نے اپنے ملک سے محبت اور مسلح افواج کی پیشہ وارانہ مہارت اورجانثاری کے جرأت مندانہ جذبے نے ملکر نا ممکن کو ممکن بنا کر دکھایا۔

اسلامی جمہوریہ پاکستان پر 1965ء میں ہندوستان کی طرف سے جنگ کا تھوپا جانا پاکستانی قوم کے ریاستی نصب العین دوقومی نظریہ، قومی اتحاد اور حب الوطنی کو بہت بڑا چیلنج تھا۔
جسے جری قوم نے کمال و قار اور بے مثال جذبہ حریت سے قبول کیا اور لازوال قربانیوں کی مثال پیش کر کے زندہ قوم ہونے کاثبوت دیا۔
دوران جنگ ہر پاکستانی کو ایک ہی فکر تھی کہ اُسے دشمن کا سامنا کرنا اور کامیابی پانا ہے۔

جنگ کے دوران نہ تو جوانوں کی نظریں دشمن کی نفری اور عسکریت طاقت پر تھی اور نہ پاکستانی عوام کا دشمن کو شکت دینے کے سوا کوئی اور مقصد تھا۔
تمام پاکستانی میدان جنگ میں کود پڑے تھے۔
اساتذہ، صحافی، طلبہ، شاعر، ادیب، فنکار، گلوکار، ڈاکٹرز، سول ڈیفنس کے رضا کار، مزدور، کسان اور ذرائع ابلاغ سب کی ایک ہی دھن اور آواز تھی کہ *’’اے مرد مجاہد جاگ ذرا اب وقت شہادت ہے آیا‘‘* ستمبر 1965ء کی جنگ کا ہمہ پہلو جائزہ لینے سے ایک حقیقی اور گہری خوشی محسوس ہوتی ہے کہ وسائل نہ ہونے کے باوجود اتنے بڑے اور ہر لحاظ سے مضبوط ہندوستان کے مقابلے میں چھوٹے سے *اسلامی جمہوری پاکستان* نے وہ کون سا عنصر اور جذبہ تھا، جس نے پوری قوم کو ایک سیسہ پلائی ہوئی نا قابل عبور دیوار میں بدل دیا تھا۔
مثلاً ہندوستان اور اسلامی جمہوریہ پاکستان کی مشترکہ سرحد *’’رن آف کچھ‘‘* پر طے شدہ قضیہ کو ہندوستان نے بلا جواز زندہ کیا فوجی تصادم کے نتیجہ میں ہزیمت اٹھائی تو یہ اعلان کر دیا کہ آئندہ ہندوستان اسلامی جمہوریہ پاکستان کے ساتھ جنگ کے لیے اپنی پسند کا محاذ منتخب کرے گا اس کے باوجود اسلامی جمہوریہ پاکستان نے ہندوستان سے ملحقہ سرحدوں پر کوئی جارحانہ اقدام نہ کیے تھے۔
صرف اپنی مسلح افواج کومعمول سے زیادہ الرٹ کررکھا تھا۔
یہی وجہ ہے کہ *6 ستمبر* کی صبح جب ہندوستان نے حملہ کیا تو آناً فاناً ساری قوم، فوجی جوان اور افسر سارے سرکاری ملازمین جاگ کر اپنے اپنے فرائض کی ادائیگی میں مصروف گئے۔
صدر مملکت فیلڈ مارشل محمد ایوب خان کے ایمان فروز اور جذبۂ مرد جہاد سے لبریز قوم سے خطاب کی وجہ سے ملک اللہ اکبر پاکستان زندہ باد کے نعروں سے گونج اُٹھا۔
فیلڈ مارشل ایوب خان کے اس جملے *’’پاکستانیو! اٹھو لا الہ الا اللہ کا ورد کرتے ہوئے آگے بڑھو اوردشمن کو بتا دو کہ اس نے کس قوم کو للکارا‘‘* ان کے اس خطاب نے قوم کے اندر گویا بجلیاں بھردی تھیں۔

پاکستان آرمی نے ہر محاذ پر دشمن کی جارحیت اور پیش قدمی کو حب الوطنی کے جذبے اور پیشہ وارانہ مہارتوں سے روکا ہی نہیں، انہیں پسپا ہونے پر بھی مجبور کر دیا تھا۔

ہندوستانی فوج کے کمانڈر انچیف نے اپنے ساتھیوں سے کہا تھا کہ وہ لاہور کے جم خانہ میں شام کو شراب کی محفل سجائیں گے۔

ہماری مسلح افواج نے جواب میں کمانڈر انچیف کے منہ پر وہ طمانچے جڑے کہ وہ مرتے دم تک منہ چھپاتا پھرا۔

*’لاہور کے سیکٹر کو میجر عزیز بھٹی جیسے سپوتوں نے سنبھالا، جان دے دی مگر وطن کی زمین پر دشمن کا ناپاک قدم قبول نہ کیا۔*

_*’چونڈہ کے سیکٹر پر (ہندوستان کا پسندیدہ اور اہم محاذ تھا) کو پاکستانی فوج کے جوانوں نے اسلحہ وبارود سے نہیں اپنے جسموں کے ساتھ بم باندھ کر ہندوستان فوج اور ٹینکوں کا قبرستان بنادیا۔ ہندوستان کی اس سطح پر نقصان اور تباہی کو دیکھ کر بیرون ممالک سے آئے ہوئے صحافی بھی حیران اور پریشان ہوئے پاکستانی مسلح افواج کو دلیری دی۔*_

*پاکستان نیوی:-*
ستمبر 1965ء میں نیوی کی جنگی سرگرمیاں بھی دیگر دفاعی اداروں کی طرح قابل فخر رہیں۔
اعلان جنگ ہونے کے ساتھ بحری یونٹس کو متحرک و فنکشنل کر کے اپنے اپنے اہداف کی طرف روانہ کیا گیا۔
کراچی بندرگاہ کے دفاع کے ساتھ ساتھ ساحلی پٹی پر پٹرولنگ شروع کرائی گئی۔
پاکستان کے بحری، تجارتی روٹس کی حفاظت بھی پاکستان بحریہ کی ذمہ داریوں میں شامل ہے۔
اس لیے سمندری تجارت کو بحال رکھنے کے لیے گہرے سمندروں میں بھی یونٹس بھجوائے گئے۔
یہ امر تسلی بخش ہے کہ پوری جنگ کے دورن پاکستان کا سامان تجارت لانے لے جانے والے بحری جہاز بلا روک ٹوک اپنا سفر کرتے رہے۔
اس کے علاوہ ہندوستانی بحریہ کو بندرگاہوں سے باہر تک نہ آنے دیا۔
پاکستان نیوی کی کامیابی کا دوسرا ثبوت یہ ہے کہ ہندوستان کے تجارتی *جہاز’’سرسوتی‘‘ اور دیگر تو کتنے عرصہ تک پاکستان میں زیر حراست و حفاظت کراچی کی بندرگاہ میں رہے۔*

*7ستمبر کا دن پاکستان کی فتح اور کامیابیوں کا دن تھا۔* پاکستان نیوی کا بحری بیڑا، جس میں پاکستان کی واحد آبدوزپی این ایس غازی بھی شامل تھی۔
ہندوستان کے ساحلی مستقر ’’دوارکا‘‘ پرحملہ کے لیے روانہ ہوئی۔
اس قلعہ پر نصب ریڈار ہمارے پاک فضائیہ کے آپریشنز میں ایک رکاوٹ تھی۔
مذکورہ فلیٹ صرف 20منٹ تک اس دوار کا پر حملہ آور رہا۔ توپوں کے دھانے کھلے اور چند منٹ میں دوار کا تباہ ہو چکا تھا۔
(پی این ایس غازی) کا خوف ہندوستان کی نیوی پر اس طرح غالب تھا کہ ہندوستانی فلیٹ بندرگاہ سے باہر آنے کی جرأت نہ کرسکا۔
*’ہندوستانی جہاز’’تلوار‘‘کو پاکستانی بیڑے کا سراغ لگانے کے لیے بھیجا گیا مگر وہ بھی’’غازی‘‘ کے خوف سے کسی اور طرف نکل گیا۔*

*پاک فضائیہ:-*
ائیر مارشل اصغر خان اور ائیر مارشل نور خان جیسے قابل فخرسپوتوں اور کمانڈروں کی جنگی حکمت عملی اور فوجی ضرورتوں کے پیش نظر تجویز کردہ نصاب کے مطابق پاک فضائیہ نے اپنے دشمن کے خلاف *’’ہوا باز گھوڑوں کو تیار کر رکھا تھا‘‘* جیسا کہ مسلمانوں کو اپنے دشمن کے خلاف تیاررہنے کا حکم ہے۔
یہ ہمارے ہوا باز 7 ستمبر کو اپنے اپنے مجوزہ ہدف کو حاصل کرنے کے لیے دشمن پر جھپٹ پڑے۔
*ایک طرف سکوارڈرن لیڈر ایم ایم عالم جیسے سپوت نے ایک منٹ سے بھی کم وقت میں دشمن کے پانچ جہازوں کومار گرایا، تو دوسری طرف سکوارڈرن لیڈر سر فراز رفیقی اور سکوارڈرن لیڈر منیر الدین اور علاؤالدین جیسے شہیدوں نے بھی ثابت کر دیا کہ حرمت وطن کی خاطر ان کی جانوں کا نذرانہ کوئی مہنگا سودا نہیں۔*

پاکستان کے غازی اور مجاہد ہوا بازوں نے ہندوستان کے جنگی ہوائی اڈوں کو اس طرح نقصان پہنچایا کہ ’’ہلواڑا‘‘ بنادیا۔
پاک فضائیہ نے میدان جنگ میں اپنی کارکردگی سے ثابت کر دیا کہ وہ فرمان قائد اعظم کے مطابق Second to None ہے۔

*پاکستانی شہری:-*
1965ء کی جنگ کا غیر جانبداری سے اور غیر جذباتی جائزہ لیا جائے تو یہ بات سامنے آتی ہے کہ بڑے سرکش اورخونخوار شکار کو اسلامی جمہوریہ پاکستان میں چھوٹے سے جال میں آسانی سے قید کر لیا۔
*سب کچھ قائد اعظم کے بتائے اصول( ایمان، اتحاد، نظم) پر عمل کرنے سے حاصل ہوا۔*
کسی بھی زاویۂ نگاہ سے دیکھیں تو یہی اصول 1965ء کی جنگ میں پاکستان کی کامیابی کامرکز اور محور تھے۔
پاکستانی قوم کی طرف سے ملی یکجہتی، نظریاتی اور جغرافیائی سرحدوں کی حفاظت کی خاطر ہر طرح کا فرق مٹا کر اختلاف بھلا کرمتحد ہو کر دشمن کو ناکوں چنے چبوانے کا بے مثال عملی مظاہرہ تھا۔
نوٹ”- اس سال حکومت پاکستان نے یہ دن یوم دفاع اور یکجہتی کشمیر کے نام سے منایا ہے تاکہ بھارت کے سفاک چہرے کو دنیا کے سامنے لایا جا سکے اور کشمیوریوں سے اظہار یکجہتی کیا جا سکے
*”پاکستان زندہ باد پاک فوج پائندہ باد”*

Leave a reply