ڈیموں کے مخالفین پاکستان کے دشمن ہیں: سابق چیئرمین واپڈا انجینئر شمس الملک

0
64

سابق چیئرمین واپڈا انجینئر شمس الملک نے کہا ہے کہ ڈیم پاکستان کے لیے زندگی اور موت کامسئلہ ہے ،ڈیموں کے مخالفین پاکستان کے دشمن ہیں ،کالاباغ ڈیم کے مخالفین نے کہا کہ اگر کالاباغ سونابھی ہوگا توہم نہیں خریدیں گے ،پاکستان کی ترقی روکنے کے لیے دشمنوں نے ڈیموں کے خلاف مہم شروع کرکے اس کوروکا ہے ،دریاسندھ کاضائع ہونے والے پانی میں سے اگرکچھ حصہ افعانستان کی طرف موڑدیں توکوئی پاک افغان تعلقات کوخراب نہیں کرسکتاہے ۔

مقررین نے کہا کہ پاکستان کاپانی کامسئلہ چھوٹے ڈیموں سے حل نہیں ہوگا، کالاباغ ڈیم ہر صورت بنانا چاہیے پاکستان اپنے وسائل سے کالاباغ ڈیم بناسکتاہے اس کوجان بوجھ کرسیاسی مسئلہ بنایاگیاہے کچھ جماعتیں سمجھتی ہیں کہ اگر کالا باغ ڈیم بن گیاتوان کی سیاست ختم ہوجائے گی ،پاکستان کوپانی کی ضرورت پوری کرنے کے لیے کالاباغ سمیت مزید ڈیموں کی اشدضرورت ہے،گنے کی کاشت سے صرف 40لوگوں کوفائدہ ہوتاہے ہمیںوہ فصل کاشت کرنی ہوگی جس پرپانی کم خرچ ہو۔

باغی ٹی وی کی رپورٹ کے مطابق ان خیالات کا اظہاراسلام آباد پالیسی ریسرچ انسٹیٹیوٹ کے زیراہتمام موسیمیاتی تبدیلی اور پانی کے مسائل کے حوالے سے منعقدہ قومی گول میزسیریزسے سابق چیئرمین واپڈا انجینئر شمس المالک،صدر اسلام آباد پالیسی ریسرچ انسٹیٹیوٹ و سابق سفارتکارخان ہشام بن صدیق،سابق سیکرٹری موسمیاتی تبدیلی سید ابو احمدعاکف ،ماہرآبی امورشفقت کاکاخیل ودیگر نے خطاب کرتے ہوئے کیا۔

سابق نگران وزیراعلی ،گورنرکے پی کے وسابق چیئرمین واپڈا انجینئر شمس المالک نے خطاب کرتے ہوئے کہاکہ پانی کا مسئلہ ہمارے ساتھ بڑے لمبے عرصے سے ہیں ہم اس پر باتیں زیادہ اور کام کم کرتے ہیںسندھ طاس معاہدہ ہواتو پاکستان کو صرف ایک دریااور ڈیم دیاگیا۔واپڈا کو اس معاملے پر اعتماد میں نہیں لیاگیا اس کی وجہ سے اسکے پاس کم معلومات تھیں ہم نے تین دریا چھوڑ دیے اور ہمیں ایک دریا دیاگیا۔غلام اسحاق خان پاکستان کے بڑا اثاثہ تھے وہ عظیم لوگ تھے جنہوں نے اس مسئلہ کو حل کرنے کی کوشش کی. غلام اسحاق خان نے کہاکہ پاکستان کے لیے ایک ڈیم کافی نہیں ہے ورلڈ بینک نے اس کی مخالفت کی.تربیلا ہم نے مانگا اور انہوں نے کہاکہ آپ کالا باغ ڈیم بنائیں کالا باغ ڈیم ہمیں پانی اتنا نہیں دے سکتا تھا جتنا تربیلا ڈیم سے ہمیں ملتا جس پر مزکرات کے بعد ورلڈ بینک نے راضامندی ظاہر کردی۔تربیلا ڈیم بین الاقوامی اداروں کی مدد کے بغیر ہم نہیں بنا سکتے تھے کالا باغ ہم خود بناسکتے ہیں. تربیلا کا ایک بڑے حصے میں کوئی پتھر نہیں لگایاگیا ہے تربیلا کی طرح کوئی ڈیم دنیا میں نہیں بنایاگیا تھا جب تعمیر کے دوران تریبلا ڈیم ٹھوٹ گیاتھا اور یہ بہت ہی مشکل مرحلہ تھا ذولفقار علی بھٹو نے دوبارہ ڈیم کی تعمیر شروع کرنے کا حکم دیا. ڈیم کے دوران ہمارا پاور ہاوس کام کرتا رہا اور بجلی پیدا کرکے ہم پاکستان کی ضرورت پوری کرتے رہے۔

غیر ملکی انجینئر نے کہاکہ واپڈا جو کام تربیلا پر کررہاہے وہ ناسا کے کام سے بہتر ہے ہمارے پاس پانی اور بجلی کی وافر مقدار موجود تھی. سستی بجلی کی موجودگی کی وجہ سے اس وقت پاکستان دس فیصدجی ڈی پی سے ترقی کررہاتھا اور بھارت 3%سے ترقی کررہاتھا . ڈیموں سے بہت سستی بجلی پیدا ہوتی ہے صدر ایوب خان نے دورہ واشنگٹن کے دوران دوبارہ ورلڈ بینک سے مطالبہ کیاکہ ہماری آبادی بڑ رہی ہے ہمیں مزید ڈیم کی ضرورت ہے. ورلڈ بینک نے کہاکہ جس طرح آپ ترقی کررہے ہیں آپ کو کالا باغ کے بعد بھاشا ڈیم کی ضرورت ہوگی. اور اس کے بعد پاکستان کے دشمنوں نے ڈیم بنانے نہیں دیے. پاکستان کے دشمنوں نے اس بات کا یقینی بنایا کہ ہم مزید ڈیم نہ بناسکیں ہم نے دوبارہ ڈیم بنانے شروع کردیے ہیں ڈیم شاہراہوں کی طرح نہیں ہوتے یہ زمین کو تبدیل کردیتے ہیں میری دعا پاکستان کے ساتھ ہیں پشاور کے لیے فلڈ منیجمنٹ کے طور پر میں نے ڈیم کی تجویز دی تھی اور اس ڈیم پر کام شروع ہوگیاہے۔دریاسندھ پاکستان اور افغانستان کو ملاسکتاہے جو دریاسندھ کاپانی سمندرمیں گرکرضائع ہورہاہے اس کا کچھ حصہ اگرہم افغانستان کی طرف موڑدیں تو پاک افغان تعلقات کوئی خراب نہیں کرسکتاہے ۔

شمس المالک نے سوالات کے جواب دیتے ہوئے کہاکہ پن بجلی سب سے سستی ہے. جبکہ تیل سے 25سے 60روپے فی یونٹ میں بجلی بنائی جارہی ہے 22ہزار ڈیم چین بناچکاہے چین کا ایک ڈیم اتنی بجلی بناتاہے جو پاکستان کی ضرورت سے زیادہ ہے۔صدر اسلام آباد پالیسی ریسرچ انسٹیٹیوٹ و سابق سفارتکارخان ہشام بن صدیق نے کہاکہ موسمیاتی تبدیلی پاکستان کاہی نہیں دنیا کا بڑا مسئلہ ہے دنیامیں2.5%پانی صرف لوگوں کے استعمال کے لیے موجود ہے مستقبل کی جنگیں پانی پر ہوں گیںپاکستان میں غربت زیادہ ہے فوڈ سیکورٹی بھی ایک بڑا مسئلہ ہے موسمیاتی تبدیلی انسانوں کی وجہ سے ہوئی ہے گرین ہاؤس گیسوں میں ہمارا حصہ ایک فیصد سے بھی کم ہے مگر ہم دس ممالک میں شامل ہیں جو سب سے زیادہ موسمیاتی تبدیلی سے متاثر ہوئے ہیں۔لاہور میں حالیہ بارش ہوئی جس سے لاہور ڈوب کر وینس کا منظر پیش کررہاہے موسمیاتی تبدیلی کی کوئی سرحد نہیں ہے اللہ نے پاکستان کو صاف پانی کے گلیشیئر دیئے ہیںجبکہ سعودی عرب اپنے 50%پانی کی ضرورت صاف کرکے استعمال کرتاہے اس کے لیے پلانٹ لگائے گئے ہیں.پانی کی دستیابی کا مسئلہ دن بدن سنگین ہورہاہے کہا جاتاہے کہ ہمارے ذخائر 2025تک زیادہ تر ختم ہوجائیں گے۔آبادی بھی تیزی کے ساتھ بڑرہی ہے۔ہمیں پانی کے ذخائر بنانے ہوں گے کاشتکاری کے جدید طریقہ اختیار کرنے ہوں گے تاکہ اس مسئلہ کو حل کیاجائے۔

سابق سیکرٹری موسمیاتی تبدیلی سید ابو احمدعاکف نے خطاب کرتے ہوئے کہاکہ پانی کی اہمیت کااندزہ ہمیں نہیں ہے اسلام آباد کے پوش علاقے ایف سکس میں ہر روز لوگ اپنے گھر کے سامنے سڑکیں صاف کرتے ہوئے پانی ضائع کررہے ہیں بھارت میں پانی کابحران اس قدرسنگین ہوگیاہے کہ چنائے شہر میں ٹرین کے ذریعے پانی پہنچایا جارہاہے۔کراچی میں ٹینکر مافیہ سرگرم ہے سابق جج ثاقب نثار نے اس کوروکنے کی کوشش کی ۔ جسٹس ثاقب نثار چلے گئے مگر کراچی میں ٹینکر مافیا موجود ہے موسمیاتی تبدیلی اور پانی کے حوالے کوئی بھی سفارش کریں سیاسی طور پر اس پر عمل نہیں کیاجائے گا ہم پالیساں بناتے ہیں مگر اس پر کوئی عمل نہیں کرتے ہیں۔ 18ویں ترمیم کے بعد جو بھی کہوں اس کوکہاجاتاہے کہ یہ صوبوں کااختیارہے یہ صوبوں کا کام ہے.شوگر کی کاشت سے صرف 40لوگوں کوفائدہ ہوتاہے ہے تمام شوگر ملز کے انہی کی مالکیت ہیں جبکہ یہ کل زراعت میں استعمال ہونے والے پانی کا24فیصد خرچ کرتے ہیں ہمیں اب اس طرح کی فصلیں کاشت کرنی ہوں گی جوپانی کم استعمال کرتی ہوں اگر ہم اس کی جگہ خوردنی تیل کے پودے لگائیں تو اس سے پاکستان کوفائدہ ہوگا ۔شوگر کووفاقی حکومت 10ارب اور سندھ حکومت بھی سندھ کے شوگر ملوںکو10ارب الگ سے سبسڈی دیتی ہے ۔
ماہرآبی امورشفقت کاکاخیل نے خطاب کرتے ہوئے کہاکہ پاکستان میں پانی کی دستیابی کم ہوئی ہے اوراس کے ساتھ پانی کی کو الٹی بھی خراب ہوئی ہے شہری آبادی میں اضافہ ہواہے پانی کا مسائل سنگین ہورہاہے اور صوبے پانی کی تقسیم پر لڑرپے ہیں ورلڈ بینک کی رپورٹ کو تفصیل سے پڑھیں زراعت اور پانی پر پاکستان کی کارکردگی بہت خراب ہے ۔ورلڈ بینک کے پاکستان میںنمائندے لی ژان گونے خطاب کرتے ہوئے کہاکہ ہم داسو اور تربیلا ڈیم کی توسیع کے لیے فنڈز فراہم کررہے ہیںپاکستان خوش قسمت ملک ہے جہاں پر پانی کے لیے گلئیشیرموجود ہیں

ماہرآبی امورپرویزامین نے خطاب کرتے ہوئے کہاکہ سندھ طاس معاہدے میں تین بڑی خامیاں ہیں ان میں ایک موسمیاتی تبدیلی کو اس میں شامل نہیں کیاگیاہے کابل دریا کے حوالے سے کوئی معاہدہ نہیں ہے ہمیں درجہ حرارت کے بڑھنے اور گلیشیئر کے پگھلنے پر کوئی اختیار نہیں ہے ہم اس کوکنٹرول نہیں کرسکتے ہیں اس سے ہر ایک متاثر ہوگا. موجودہ دور کی بات کرنی ہوگی بھارت ایک ایک قطرے کو بچانے کے لیے ڈیم بنا رہا ہے 2ارب ڈالر بھارت پانی پر سرمایہ کاری کررہاہے ہمیں پانی کے مسئلے کوحل کرنے کے لیے تربیت یافتہ لوگوں کو لگاناہوگا۔کالا باغ ڈیم میں ٹیکنکل اور معاشی طور پر کوئی مسئلہ نہیں ہیبلکہ یہ سیاسی مسئلہ بنادیا گیا ہے چھوٹے ڈیموں سے پاکستان کا مسئلہ حل نہیں ہوگا بڑے ڈیم سے ہی پاکستان کے مسائل حل ہوں گے۔سابق جنرل(ر) مشرف کے دور میں ڈیم پر کام روکا گیا وہ بھی اس کے برابر کے ذمہ دارہیں اگرکالاباغ ڈیم بن جاتاہے تو بہت سے لوگوں کی سیاست ختم ہوجائے گی اس لیے وہ اس کوبننے نہیں دے رہے ہیں ۔بھارت کے 5ہزار ڈیم ہیں جبکہ ہمارے پاس صرف دو ڈیم ہیں امریکہ بھارت کو پاکستان سے زیادہ اہمیت دیتاہے انہوں نے کہاکہ ڈیموں کے مخالفین کو بھارت 2ارب ڈالر سالانہ دیتاہے تاکہ ڈیم نہ بن سکیں ڈیم بناناپاکستان کے لیے زندگی اور موت کامسئلہ ہے پاکستان 35ملین کیوسک پانی سالانہ ضائع کرتا ہے تو بین الاقوامی برادری ہماری بات کیوں سنے گی۔پانی کے مزید ذخائر بنانے ہوں گے کالا باغ ڈیم ہمیں ہر صورت 2025سے پہلے بنانا ہوگا پانی کے اضافہ سے زراعت ترقی کرے گی اور ہم غربت سے نکل سکیں گے۔علی توقیر شیخ ،عمران خالد ودیگر نے بھی خطاب کیا.

محمد اویس

Leave a reply