روپے کی قدر بڑھنے اور ڈالر سستا ہونے کے باوجود گاڑیاں مہنگی کر دی گئیں، آخر کیوں

0
34

روپے کی قدر بڑھنے اور ڈالر سستا ہونے کے باوجود گاڑیاں مہنگی کر دی گئیں، آخر کیوں

باغی ٹی وی رپورٹ کے مطابق ، پاکستان میں ڈالر کی قیمت مسلسل کم ہونے کے باوجود گاڑیاں مہنگی ہیں. مقامی کار اسمبلرز نے ڈالر کی قدر میں کمی کے باوجود ایک بار پھر گاڑیوں کی قیمتوں میں اضافہ کر دیا۔

پاکستان میں روپے کی قدر میں اضافے اور ڈالر کی قدر میں کمی کے باوجود مقامی کار اسمبلرز کی من مانیاں جاری ہیں اور ایک بار پھر بلا جواز دو مقامی کمپنیوں نے یکم دسمبر سے گاڑیوں کی قیمتوں میں ایک لاکھ روپے تک اضافہ کر دیا ہے۔

واضح رہے کہ اس سے قبل مقامی کمپنیوں نے ڈالر کی قدر بڑھنے کو گاڑیوں کی قیمتوں میں اضافے کا جواز بنایا تھا جب کہ اب گزشتہ 6 ماہ کے دوران ڈالر کی قدر میں 9 روپے کی کمی کے بعد گاڑیوں کی قیمتوں میں زبردست کمی کی توقع کی جارہی تھی۔ صارفین نے ڈالر کی قدر میں کمی اور بجلی کی قیمتوں میں کمی کے بعد قیمتوں میں اضافے کو بلا جواز قرار دیا ہے۔

واضح رہے کہ کورولا 1.6 پر 60 ہزار، 1.8 پر 80 ہزار جبکہ گرانڈی پر ایک لاکھ روپے تک اضافہ کیا گیا ہے جب کہ کلٹس وی ایکس ایل پر 70 ہزار، کلٹس اے جی ایس پر ایک لاکھ روپے کا اضافہ کیا گیا ہے

پاکستان کے عوام میں ایک عام رائے پائی جاتی یہاں گاڑیاں بنانے والی کمپنیز زائد منافع کماتی ہیں اس لیے یہاں گاڑیاں مہنگی ملتی ہیں کیونکہ ہمارے ہاں گاڑیاں استعمال کرنے والے عموماً قیمتوں کا موازنہ بھارت میں ملنے والی گاڑیوں سے کرتے ہیں۔

نجی چینل کے ڈیجیٹل پلیٹ فارم کی جانب سے انجینئرنگ ڈویلپمنٹ بورڈ کے جنرل منیجر عاصم ایاز سے سوال کیا گیا کہ خطے کے دیگر ممالک یا ہمارے ہمسایہ ملک بھارت میں دیکھا جائے تو گاڑیاں سستی ہیں مگر پاکستان میں کوئی بھی نئی چھوٹی سے چھوٹی گاڑی بھی10 لاکھ روپے سے کم کیوں نہیں ہے تو انہوں نے اس کی تفصیلاً وجوہات بیان کیں۔
عاصم ایاز کی جانب سے بتایا گیا کہ یہاں ملنے والی بڑی گاڑیاں کورولا، ہنڈا وغیرہ کی قیمتیں بھارت کے مقابلے یا تو برابر ہیں یا بھارت کی نسبت کم ہیں۔ انہوں نے کہا کہ پاکستان میں ڈالر کی قیمت بھی بھارت کی نسبت کم ہیں۔ انہوں نے بتایا کہ جہاں زیادہ لوکلائزیشن ہو وہاں قیمتوں میں فرق ہوتا ہے۔

جی ایم ای ڈی بی عاصم ایاز نے کہا کہ بھارت میں ملنے والی چھوٹی گاڑی ماروتی کی نسبت پاکستان میں ملنے والی اسی طرح کی گاڑی کی قیمت میں زیادہ فرق ہے۔ کیونکہ بھارت میں پاکستان کی نسبت لوکلائزیشن زیادہ ہے۔ انہوں نے بتایا کہ ہمارے ملک میں ملنے والی بڑی گاڑیاں پوری دنیا کی نسبت سستی ہیں۔

انہوں نے بتایا کہ قیمتیں بڑھنے کی وجہ حکومت کی جانب سے سی کے ٹی پر عائد کیے جانے والے ٹیکسز ہیں جو کہ پاکستان میں 30 فیصد زیادہ بلکہ 40 فیصد کے قریب ہیں جب کہ بھارت میں یہی ٹیکسز کی شرح 20 فیصد سے بھی کم ہے۔

واضح ‌رہے کہ عاصم ایاز نے کہا کہ پاکستان میں اب دیگر گاڑیاں بنانے والی کمپنیاں جیسے کییا، ہونڈائی کے پاکستان میں آنے سے ہنڈا، ٹویوٹا اور سوزوکی کو گاڑیوں کی قیمتیں کم کرنی پڑیں گی۔ایک سوال کے جواب میں عاصم ایاز نے کہا کہ قیمتوں کا انحصار ڈالر کی قیمت، مزدوری اور ٹیکس کی شرح پر ہوتا ہے جیسے جیسے یہ چیزیں بڑھتی ہیں قیمتوں میں فرق آتا ہے مگر ہمارے ملک میں ایک بار قیمتیں بڑھنے کے بعد نیچے بمشکل آتی ہیں۔

اب جبکہ ڈالر مسلسل روپے کے مقابلے میں کم ہو رہا ہے تو بجائے اس کے کہ گإڑیوں کی قیمت کم ہوتی بڑھا دی گئ ہے. اگر کم نہیں‌کی تو کم از کم قمیتوں کو بڑھایا ہی نہ جاتا . لیکن اصل بات ہے کہ ملک کے اندر چیک اینڈ بیلنس کوئی نظام ہی نہیں ، مناسب محاسبہ تو آٹو مینوفیکچررز اپنی من مانیاں نہ کرین

Leave a reply