دعا کی اہمیت اور فضائل و مسائل از: حافظہ قندیل تبسم
دعا کی اہمیت اور فضائل و مسائل
حافظہ قندیل تبسم
اللہ تعالی کو یہ بات بہت پسند ہے کہ انسان اپنی ضروریات پوری کرنے کے لیے اپنی حاجات اس سے مانگے اور اسی سے امید لگائے چنانچہ فرمانِ باری تعالی ہے:
وَقَالَ رَبُّكُمُ ادْعُونِي أَسْتَجِبْ لَكُمْ
ترجمہ: اور تمہارے رب نے کہہ دیا ہے کہ مجھے پکارو میں تمہاری دعائیں قبول کرونگا۔[سورہ غافر :آیت 60]
دعا کی اہمیت کا اندازہ اس بات سے کریں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے یہاں تک فرما دیا:
دعا ہی عبادت ہے۔
ترمذی (3372) ، ابو داود (1479) ، ابن ماجہ (3828) البانی نے اسے "صحیح ترمذی” (2590) میں صحیح قرار دیا ہے۔
دعا عبادت کی ایک اہم شکل ہے لہذا اس کا اہتمام بھی احسن انداز سے ہونا چاہیے۔ یہاں مناسب معلوم ہوتا ہے کہ کچھ ایسے امور ذکر کیے جائیں جو دعا کرنے کے لیے لازمی ملحوظ رکھنے چاہئیں۔
1- دعا کرنے والا شخص توحید ربوبیت، توحید الوہیت، اور توحید اسماء و صفات میں وحدانیت الہی کا قائل ہو، اس کا دل عقیدہ توحید سے سرشار ہونا چاہیے؛ کیونکہ دعا کی قبولیت کیلئے شرط ہے کہ انسان اپنے رب کا مکمل فرمانبردار ہو اور نافرمانی سے دور ہو جیسا کہ فرمانِ باری تعالی ہے:
وَإِذَا سَأَلَكَ عِبَادِي عَنِّي فَإِنِّي قَرِيبٌ أُجِيبُ دَعْوَةَ الدَّاعِ إِذَا دَعَانِ فَلْيَسْتَجِيبُوا لِي وَلْيُؤْمِنُوا بِي لَعَلَّهُمْ يَرْشُدُونَ
ترجمہ: اور جس وقت میرے بندے آپ سے میرے متعلق سوال کریں تو میں قریب ہوں، ہر دعا کرنے والے کی دعا قبول کرتا ہوں جب بھی وہ دعا کرے، پس وہ میرے احکامات کی تعمیل کریں، اور مجھ پر اعتماد رکھیں، تا کہ وہ رہنمائی پائیں [البقرة : 186]
2- دعا میں اخلاص ہونا ضروری ہے، صرف خدائے واحد کو پکارا جائے جیسا کہ فرمانِ باری تعالی ہے:
فَإِذَا رَكِبُوا۟ فِى ٱلْفُلْكِ دَعَوُا۟ ٱللَّهَ مُخْلِصِينَ لَهُ ٱلدِّينَ فَلَمَّا نَجَّىٰهُمْ إِلَى ٱلْبَرِّ إِذَا هُمْ يُشْرِكُونَ ﴿65﴾
ترجمہ: پھر جب کشتی میں سوار ہوتے ہیں تو خالص اعتقاد سے الله ہی کو پکارتے ہیں پھر جب انہیں نجات دے کر خشکی کی طرف لے آتا ہے فوراً ہی شرک کرنے لگتے ہیں (سورۃ العنکبوت،آیت 65)
وَإِذَا غَشِيَهُم مَّوْجٌۭ كَٱلظُّلَلِ دَعَوُا۟ ٱللَّهَ مُخْلِصِينَ لَهُ ٱلدِّينَ فَلَمَّا نَجَّىٰهُمْ إِلَى ٱلْبَرِّ فَمِنْهُم مُّقْتَصِدٌۭ ۚ وَمَا يَجْحَدُ بِايَٰتِنَآ إِلَّا كُلُّ خَتَّارٍۢ كَفُورٍۢ﴿32﴾
ترجمہ: اور جب انہیں سائبانوں کی طرح موج ڈھانک لیتی ہے تو خالص اعتقاد سے الله ہی کو پکارتے ہیں پھر جب انہیں نجات دے کر خشکی کی طرف لےآتا ہے تو بعض ان میں سے راہِ راست پر رہتے ہیں اور ہماری نشانیوں سے وہی لوگ انکار کرتے ہیں جو بد عہد نا شکر گزار ہیں (سورۃ لقمان،آیت 32)
چنانچہ قبولیتِ دعا کیلئے اخلاص شرط ہے۔
3- اللہ تعالی کے اسمائے حسنی کا واسطہ دے کر اللہ سے مانگا جائے، فرمانِ باری تعالی ہے:
وَلِلَّهِ الْأَسْمَاءُ الْحُسْنَى فَادْعُوهُ بِهَا وَذَرُوا الَّذِينَ يُلْحِدُونَ فِي أَسْمَائِهِاور اللہ تعالی کے اچھے اچھے نام ہیں، انہی کے واسطے سے اللہ کو پکارو، اور ان لوگوں کو چھوڑ دو جو اللہ کے ناموں سے متعلق الحاد کا شکار ہیں۔ [الأعراف : 180]
4- دعا کرنے سے پہلے اللہ تعالی کی شایانِ شان حمد و ثنا کی جائے۔ فضالہ بن عبید رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ : ہم رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کیساتھ بیٹھے ہوئے تھے، کہ ایک آدمی آیا اور اس نے نماز پڑھی [پھر اسی دوران دعا کرتے ہوئے]کہا: "یا اللہ! مجھے معاف کر دے، اور مجھ پر رحم فرما” تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: (اے نمازی! تم نے جلد بازی سے کام لیا، جب تم نماز میں [تشہد کیلئے ]بیٹھو، تو پہلے اللہ کی شان کے مطابق حمد و ثنا بیان کرو، پھر مجھ پر درود پڑھو، اور پھر اللہ سے مانگو)۔
(ترمذی: 3476)
ترمذی کی ہی ایک اور روایت میں ہے کہ: (جب تم میں سے کوئی نماز پڑھے تو [تشہد میں] سب سے پہلے اللہ تعالی کی حمد و ثنا بیان کرے، پھر نبی صلی اللہ علیہ وسلم پر درود بھیجے، اور اس کے بعد جو دل میں آئے مانگ لے) راوی کہتے ہیں: "اس کے بعد ایک اور شخص نے نماز پڑھی، تو اس نے اللہ کی حمد بیان کی، پھر نبی صلی اللہ علیہ وسلم پر درود بھیجا، تو نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے اسے فرمایا: (اے نمازی! اب دعا مانگ لو، تمہاری دعا قبول ہوگی)”
ترمذی 3477 اس حدیث کو البانی رحمہ اللہ نے "صحیح ترمذی” (2765 ، 2767) میں صحیح کہا ہے۔
5- نبی صلی اللہ علیہ وسلم پر درود بھیجا جائے، چنانچہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان ہے کہ: (ہر دعا شرفِ قبولیت سے محروم رہتی ہے، جب تک اس میں نبی صلی اللہ علیہ وسلم پر درود نہ پڑھا جائے)
طبرانی نے "الأوسط” (1/220) میں روایت کیا ہے، اور شیخ البانی نے اسے "صحیح الجامع” (4399) میں اسے صحیح قرار دیا ہے۔
6- قبلہ رخ ہو کر دعا کرنا
چنانچہ عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ جب غزوہ بدر کے دن رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے مشرکین کی تعداد کو دیکھا کہ ان کی تعداد ایک ہزار ہے، اور آپ کے جانثار صحابہ کرام کی تعداد 319 ہے، تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے قبلہ رخ ہو کر دعا مانگنا شروع کی آپ نے اپنے ہاتھ پھیلا دئیے اور اپنے رب سے گڑگڑا کر مانگنے لگے: (اَللَّهُمَّ أَنْجِزْ لِي مَا وَعَدْتَنِي ، اَللَّهُمَّ آتِ مَا وَعَدْتَنِي ، اَللَّهُمَّ إِنْ تُهْلِكْ هَذِهِ الْعِصَابَةَ مِنْ أَهْلِ الإِسْلامِ لا تُعْبَدْ فِي الأَرْضِ)[یعنی: یا اللہ! مجھ سے کیا ہوا وعدہ پورا فرما، یا اللہ! مجھے دیا ہوا عہد و پیمان مکمل فرما، یا اللہ اگر تو نے تھوڑے سے مسلمانوں کا خاتمہ کر دیا تو زمین پر کوئی عبادت کرنے والا نہ ہوگا] آپ صلی اللہ علیہ وسلم مسلسل ہاتھوں کو اٹھائے اپنے رب سے گڑگڑا کر دعائیں کرتے رہے، حتی کہ آپکی چادر کندھوں سے گر گئی۔۔۔ ( مسلم: 1763)
نووی رحمہ اللہ شرح مسلم میں کہتے ہیں:
"اس حدیث سے یہ معلوم ہوتا ہے کہ دعا کرتے وقت قبلہ رخ ہونا ، اور ہاتھوں کو اٹھانا مستحب ہے”
7- ہاتھوں کو اٹھا کر دعا کرنا
سلمان رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: (بیشک تمہارا پروردگار انتہائی باحیا اور سخی ہے، ہاتھ اٹھا کر دعا مانگنے والے اپنے بندے کے ہاتھوں کو خالی لوٹاتے ہوئے اسی حیا آتی ہے۔ (ابو داود: 1488)
اس حدیث کو شیخ البانی نے "صحیح ابو داود”: (1320) میں صحیح کہا ہے۔
دعا میں ہاتھ اٹھانے کیلئے ہتھیلی کی اندرونی جانب آسمان کی طرف ہوگی، جیسے کسی سے کچھ لینے کا منتظر فقیر اور لاچار شخص اپنے دونوں ہاتھوں کو اٹھا کر رکھتا ہے
مالک بن یسار رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: (جب تم اللہ تعالی سے مانگو تو اپنی ہتھیلی کے اندرونی حصے سے مانگو، ہتھیلی کی پشت سے مت مانگو)
(ابو داود: 1486)
اس حدیث کو شیخ البانی نے "صحیح ابو داود”: (1318) میں صحیح کہا ہے۔
8- اللہ تعالی کے بارے میں قبولیت کا مکمل یقین ہو اور صدق دل سے دعا مانگے
فرمان رسول ہے: (اللہ سے مانگو تو قبولیت کے یقین سے مانگو، یہ یاد رکھو! اللہ تعالی کسی غافل اور لا پرواہ دل کی دعا قبول نہیں فرماتا)
(ترمذی: 3479) اس حدیث کو شیخ البانی نے "صحیح ترمذی”: (2766) میں حسن کہا ہے۔
9- مایوس ہو کر دعا چھوڑنا درست نہیں،
نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان ہے: (جب تک کوئی بندہ گناہ یا قطع رحمی کی دعا نہ کرے تو اس کی دعا قبول کی جاتی ہے، بشرطیکہ کہ جلد بازی نہ کرے) کہا گیا: "جلد بازی سے کیا مراد ہے؟” تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: (انسان یہ کہے: دعائیں تو بہت کی ہیں، پر مجھے لگتا ہے کہ میری دعائیں قبول نہیں کی جائیں گی، اوراس پر مایوس ہو کر دعا کرنا ہی چھوڑ دیتا ہے)
بخاری(6340) مسلم (2735)
10- دعا پختہ عزم سے ہو،
نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان ہے: (تم میں سے کوئی یہ نہ کہے : "یا اللہ! اگر تو چاہے تو مجھے بخش دے، یا اللہ! اگر تو چاہے تو مجھ پر رحم فرما” بلکہ دعا مانگتے ہوئے پورے عزم کیساتھ مانگے، کیونکہ اللہ تعالی کو کوئی مجبور نہیں کر سکتا)
بخاری(6339) مسلم (2679)
11- عاجزی ، انکساری، اللہ کی رحمت کی امید اور اللہ سے ڈرتے ہوئے دعا مانگے، فرمانِ باری تعالی ہے:
ادْعُوا رَبَّكُمْ تَضَرُّعًا وَخُفْيَةً ترجمہ: اپنے رب کو گڑگڑا کر اور چپکے سے پکارو[الأعراف : 55]
اسی طرح فرمایا:
إِنَّهُمْ كَانُوا يُسَارِعُونَ فِي الْخَيْرَاتِ وَيَدْعُونَنَا رَغَبًا وَرَهَبًا وَكَانُوا لَنَا خَاشِعِينَ
ترجمہ: بیشک وہ نیکیوں میں بڑھ چڑھ کر حصہ لیتے اور ہمیں امید و خوف کیساتھ پکارتے تھے، اور وہ ہم سے ڈرتے بھی تھے۔[الأنبياء : 90]
اسی طرح فرمایا:
وَاذْكُرْ رَبَّكَ فِي نَفْسِكَ تَضَرُّعًا وَخِيفَةً وَدُونَ الْجَهْرِ مِنَ الْقَوْلِ بِالْغُدُوِّ وَالْآصَالِ
ترجمہ: اور اپنے رب کو اپنے دل میں عاجزی اور خوف سے صبح و شام یاد کریں اور بلند آواز کے بغیر بھی اور غافلوں سے نہ ہو جائیں۔ [الأعراف : 205]
12- تین ، تین بار دعا کرنا، بخاری (240) مسلم (1794) میں عبد اللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ : ” رسول للہ صلی اللہ علیہ وسلم بیت اللہ کے پاس نماز ادا کر رہے تھے، وہیں پر ابو جہل اپنے ساتھیوں کیساتھ بیٹھا تھا، [قریب ہی ]گزشتہ شام اونٹ بھی نحر کیے گئے تھے، تو ابو جہل نے کہا: "کون ہے جو فلاں قبیلے والوں کے اونٹوں کی اوجھڑی اٹھا کر جب محمد صلی اللہ علیہ وسلم سجدے میں جائے تو اس کی کمر پر رکھ دے” یہ سن کر ایک بد بخت اٹھا اور جب آپ صلی اللہ علیہ وسلم سجدے میں گئے تو اوجھڑی کو دونوں کندھوں کے درمیان رکھ دیا ، پھر سب اوباش ہنس ہنس کر لوٹ پوٹ ہونے لگے، لیکن میں کھرا دیکھتا ہی رہ گیا، اگر میرے کنبے والے میرے ساتھ ہوتے تو میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی کمر مبارک سے اسے ہٹا دیتا، لیکن نبی صلی اللہ علیہ وسلم اسی طرح سجدے کی حالت میں پڑے رہے، یہاں تک کہ ایک شخص نے جا کر فاطمہ کو بتلایا، تو وہ دوڑتی ہوئی آئیں، حالانکہ آپ بالکل چھوٹی عمر کی تھیں، پھر بھی آپ نے اوجھڑی کو ہٹایا، اور پھر اوباشوں کو برا بھلا کہنے لگیں، جب آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی نماز مکمل کی تو بلند آواز سے ان کے خلاف بد دعا فرمائی، -آپ جب مانگتے تو تین ، تین بار مانگتے، اور جب دعا کرتے تو تین ، تین بار کرتے- آپ نے تین بار فرمایا:
(یا اللہ! قریش پر اپنی پکڑ نازل فرما )، جب اوباشوں نے آپکی آواز سنی تو انکی ہنسی بند ہوگئی، اور آپکی بد دعا سے سہم گئے ، پھر آپ نے فرمایا: (یا اللہ! ابو جہل بن ہشام، عتبہ بن ربیعہ، شیبہ بن ربیعہ، ولید بن عقبہ، امیہ بن خلف، اور عقبہ بن ابی معیط پر اپنی پکڑ نازل فرما-آپ نے ساتویں کا نام بھی لیا لیکن مجھے اب یاد نہیں ہے- قسم ہے اس ذات کی جس نے محمد صلی اللہ علیہ وسلم کو مبعوث فرمایا، جن لوگوں کے نام آپ نے لیے تھے وہ سب کے سب بدر کے دن قتل ہوئے، اور پھر ان سب کو بدر کے کنویں میں ڈال دیا گیا)”
13- حلال کھانے پینے کا اہتمام کرنا، حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
(لوگو! اللہ تعالی پاکیزہ ہے، اور پاکیزہ ہی قبول فرماتا ہے، اور اللہ تعالی نے مؤمنین کو بھی وہی حکم دیا ہے جو رسولوں کو دیا، چنانچہ فرمایا: يَا أَيُّهَا الرُّسُلُ كُلُوا مِنَ الطَّيِّبَاتِ وَاعْمَلُوا صَالِحًا إِنِّي بِمَا تَعْمَلُونَ عَلِيمٌ اے رسولو! پاکیزہ چیزوں میں سے کھاؤ، اور نیک عمل کرو، بیشک تم جو بھی عمل کرتے ہو میں اسے جانتا ہوں۔[المؤمنون : 51] اور مؤمنین کو حکم دیتے ہوئے فرمایا: يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا كُلُوا مِنْ طَيِّبَاتِ مَا رَزَقْنَاكُمْاے ایمان والو! جو پاکیزہ چیزیں تمہیں دی ہیں ان میں سے کھاؤ [البقرة : 172] پھر اس کے بعد آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک شخص کا تذکرہ فرمایا، جو لمبے سفر میں پراگندہ حالت کیساتھ دونوں ہاتھ آسمان کی طرف بلند کر کے یا رب! یا رب! کی صدائیں بلند کرتا ہے، حالانکہ اس کا کھانا حرام کا، پینا حرام کا، لباس حرام کا، اسکی پرورش حرام پر ہوئی، تو اس کی دعائیں کیونکر قبول ہوں!؟)
(مسلم 1015)
ابن رجب رحمہ اللہ کہتے ہیں:
"اس سے معلوم ہوا کہ حلال کھانا پینا، پہننا، اور حلال پر نشو و نما پانا قبولیتِ دعا کا موجب ہے”
14- اپنی دعاؤں کو مخفی رکھنا، جہری طور پر دعا نہ کرنا، فرمانِ باری تعالی ہے: ادْعُوا رَبَّكُمْ تَضَرُّعًا وَخُفْيَةً ترجمہ: اپنے رب کو گڑگڑا کر اور چپکے سے پکارو[الأعراف : 55]، نیز اللہ تعالی نے اپنے بندے زکریا علیہ السلام کی تعریف کرتے ہوئے فرمایا: إِذْ نَادَى رَبَّهُ نِدَاءً خَفِيًّا جب انہوں نے اپنے رب کو مخفی انداز میں پکارا ۔
[مريم : 3]
ان امور کا لحاظ کر کے دعا کی جائے تو امید کی جا سکتی ہے کہ بارگاہ خداوندی میں ضرور قبول ہو گی اور ثمر بار ہو گی۔ اقبال نے کیا خوب کہا ہے۔
ہم تو مائل بہ کرم ہیں کوئی سائل ہی نہیں
اللہ تعالیٰ کے کرم اور جود و سخا کی کو انتہا نہیں ہے، بس ہمیں مانگنا آنا چاہیے بیشک اللہ تعالیٰ عطا کے دریا بہا دیتا ہے۔