دنیا کی حقیقت تحریر : محمد سدیس خان

0
99

آزادی بڑی نعمت ہے اسکی قدر اس وقت ہوتی ہے جب یہ چھن جاتی ہے اور آدمی غلامی کی زنجیروں میں جکڑا جاتا ہے یا قید و بند کی تنہائی میں جاپڑتا ہے۔ قیدی اپنی زندگی میں آزاد نہیں ہوتا بلکہ ہر چیز میں دوسروں کے حکم کا پابند ہوتا ہے۔
قید میں جب اور جیسی چیز کھانے پینے کو مل گئی اسی پر گزارہ کرلیا، جہاں بیٹھنے کا حکم دیا گیا وہیں بیٹھ گئے، قید خانہ میں اپنی مرضی بالکل نہیں چلتی بلکہ چاروناچار ہر معاملہ میں دوسروں کے حکم کی پابندی کرنی پڑتی ہے،۔ اسی طرح قید خانہ کی ایک خاصیت یہ بھی ہے کہ قیدی اس جیل خانہ سے جی نہیں لگاتا اور نہ اسکو اپنا گھر سمجھتا ہے، بلکہ ہر وقت اس سے نکلنے کا خواہش مند رہتا ہے۔
یہی حال دنیا کا ہے کہ مومن بھی دنیا میں اسی طرح زندگی گزارتا ہے کہ وہ سمجھتا ہے کہ میں دنیا میں آزاد نہیں بلکہ قدم قدم پر احکام خداوندی کا تابع ہوں نہ یہ میرا گھر ہے نہ اصل وطن، کیونکہ مومن کا اصلی وطن اور اصل رہائش گاہ جنت ہے کہ وہاں جنتیوں کیلئے کوئی قانونی پابندی نہیں رہے گی۔ ہر جنتی اپنی مرضی کے مطابق زندگی بسر کریگا اسکی ہر خواہش اور ہر آرزو پوری ہوگی، نیز لاکھوں برس گزرنے پر بھی کسی جنتی کا دل جنت اور اسکی نعمتوں سے نہیں اکتائے گا اور نہ کبھی کسی کے دل میں جنت سے نکلنے کی خواہش پیدا ہوگی۔
مومن دنیا اور اس کی چند روزہ زندگی کس طرح بسر کرکے اپنے مقصود اصلی یعنی جنت کو پاسکتا ہے، مولانا روم رحمہ اللہ نے ایک خوبصورت مثال سے اسکی وضاحت کی ہے فرماتے ہیں کہ مومن کیلئے یہ زندگی ایسی ہے جیسے کوئی شخص کشتی پر سوار ہوکر جارہا ہوں۔
کشتی پانی کے بغیر نہیں چلتی اگر کوئی شخص پانی جس پر کشتی نے چلنا ہے اس قدر اہمیت دے کہ اپنی کشتی میں سوراخ کرلے تاکہ میں یہیں بیٹھے بیٹھے پانی حاصل کرلوں تو وہ چند لمحوں بعد اپنی کشتی ہی ڈبو بیٹھے گا لیکن اگر وہ کشتی پر سوار رہے اور بقدر ضرورت پانی بھی استعمال کرتا رہے تو وہ بعافیت ساحل مراد تک پہنچ جائیگا، کشتی کیلئے پانی اس وقت تک مفید ہے جب تک اسکے نیچے رہے لیکن اگر کوئی بے وقوفی کرکے اپنی کشتی میں سوراخ کرلے تو وہ ڈوب جائے گا۔
تو دنیا کی زندگی بھی ایک مومن کیلئے بڑی اہم ہے، لیکن یہ اس وقت تک مفید ہے جب تک مومن کے ہاتھ میں رہے اگر ہاتھ سے تجاوز کرکے اس دنیا کو دل میں بسا لیا تو پھر یہ دنیا ہلاکت کی چیز ہے، لہذا ایک مومن کی شان یہی ہے کے وہ اس دنیا کو اللّٰہ کی رضا والے کاموں میں خرچ کرے تاکہ دنیا و آخرت دونوں کی سرخروئی حاصل ہوسکے۔
یہ دنیا جس میں ہم سب زندگی کے سانس پورے کررہے ہیں اسے نعمتوں اور مصیبتوں کا مجموعہ بنایا گیا ہے، اس لیے کہ جس جہاں میں صرف نعمتیں ہی نعمتیں ہوں گی اسے جنت کہتے ہیں اور جس جہاں میں صرف مصیبتیں ہی مصیبتیں ہوں گی اس کا نام جہنم ہے۔ اس دنیا میں نعمتیں بھی ہیں اور مصیبتیں بھی ہیں۔ اگر اس دنیا کا مزید گہرائی سے مطالعہ کیا جائے تو اس دنیا میں نعمتیں کم ہیں، مصیبتیں زیادہ ہیں۔ اس لئے کے خلاف طبیعت اور خلاف مزاج بات پیش آجانے کوہی مصیبت کہتے ہیں۔ اس حوالے سے دنیا میں پیش آنے والے حالات کا زیادہ تر تعلق خلاف طبیعت اور خلاف مزاج ہی ہوتا ہے اسی لیے کہتے ہیں کہ انسان کسی حال میں خوش نہیں ، بعض کام انسان کی طبیعت اور مزاج کے مطابق بھی ہوجاتے ہیں لہذا ان کا تعلق نعمتوں کی طرف منسوب ہے لیکن ہر ہر کام انسان کے مزاج کے مطابق نہیں ہوتا لہذا بآسانی یہ بات کہی جاسکتی ہے کہ مصیبتوں کا تناسب نعمتوں کے مقابلے میں بڑھا ہوا ہے۔
Twitter : ‎@msudais0

Leave a reply