وادی رمبور ،کیلاش قبیلے کی معروف شخصیت دورم شاہ انتقال کرگئے

کیلاش روایات کے مطابق ان کی تین دن تک رسومات ادا کی جائیں گی

چترال (گل حماد فاروقی)وادی رمبور کیلاش قبیلے کی معروف شخصیت دورم شاہ انتقال کرگئے،کیلاش روایات کے مطابق کی تین دن تک رسومات ادا کی جائیں گی

مرنے والے شخص کو روائتی ٹوپی پہنائی جاتی ہے۔ جسمیں 100روپے، پانچ سو اور ہزار ہزاراور 5000کے نوٹ لگائے جاتے ہیں اور خشک میوہ جات کے ڈبے رکھےجاتے ہیں؛ جبکہ میت کے قریب اس کے قریبی عزیز و رشتہ دار بیٹھتے ہیں اور باقی قبیلے کے افراد رقص کرتے اور روائتی نغمے گاتے ہیں

چترال کے پہاڑوں کے دامن میں رہنے والے ہزاروں سالوں سے آباد کیلاش قبیلے کے لوگ اپنی مخصوص ثقافت، نرالے دستور، رسم و رواج اور نہایت دلچسپ تہواروں کی وجہ سے دنیا بھر میں مشہور ہیں۔ یہ شاید دنیا کی واحد قوم ہے جو اپنی میت کو بھی خوشی خوشی رخصت کرتے ہیں۔

وادی کیلاش رمبور میں معروف شخصیت دورم شاہ کیلاش طویل علالت کے بعد انتقال کرگیے۔ آنجہانی دورم شاہ چترال لیویز یعنی بارڈر پولیس سے حوالدار ریٹائر ہوئے تھے اور پاکستان پیپلز پارٹی کے دیرینہ کارکن بھی رہے ہیں ان کی عمر اسی سال بتائی جاتی ے جو گاؤں بلانگورو رومبور کا رہائشی تھا۔ وادی کیلاش کے تینوں وادیوں بمبوریت، بریر اور رمبور سے کیلاش قبیلے کے خواتین و حضرات ان کی آخری رسومات میں شرکت کرنے کیلئے رمبور میں جمع ہوچکے ہیں۔

کیلاش روایات کے مطابق مرد کے فوتگی پر تین دن تک رسومات ادا کی جاتی ہیں جبکہ خاتون کی فوتگی پر ایک یا دو دن۔ اس دوران کیلاش خواتین رقص کرتی ہِیں اور میت کے سرہانے گول دائرے میں رقص کرکے گھومتے ہویے مذہبی گیت گاتی ہیں مگر ان کا یہ رقص عام تہواروں میں ہونے والے رقص سے بالکل علیحدہ ہوتا ہے۔

مرد حضرات ڈھولک بجاتے ہین اور مرد بھی رقص کرکے اس رسم شریک رہتے ہیں۔ میت کے گھر دس سے لیکر سو تک بکریاں، گائیں اور بیل ذبح کئے جاتے مگر یہ جانور مسلمانوں سے ذبح کروایا جاتے ہیں تاکہ وادی میں رہنے والے سب لوگ اس کا گوشت کھاکر اس ضیافت میں شرکت کرسکیں

مرنے والے کی رشتہ دار تین کنستر یعنی ٹین دیسی گھی، پنیر اور دیسی روٹیاں لاتی ہیں جومہمانوں کو پیش کی جاتی ہیں۔ میت کے سرہانے ان کے قریبی رشتہ دار، بیٹی، بیوی، بہن بیٹھ کر روتی ہے جبکہ باقی لوگ اس کے چارپائی کے سرہانے ارد گرد گیت گاتے ہوئے رقص کرتے ہیں۔

ان کی میت کو کیلاش مذہبی جگہہ جسٹکان میں رکھا جاتا ہے جہاں آگ جلاکر لوگوں کو سردی سے بچایاجاتا ہے۔ اس دوران میت کو ایک چار پائی میں ڈال کر جسٹہ کان میں رکھا جاتا ہے اور اس کے ٹوپ میں پچاس، سو، پانچ سو، ہزار اور پانچ ہزار کے نوٹ بھی سجائے جاتے ہیں جسےعزت اور اکرام کی نشانی سمجھا جاتا ہے۔

میت کے سرہانے تازہ اور خشک پھلوں کے ساتھ ساتھ سگریٹ اور نسوار بھی رکھی جاتی ے۔ جبکہ آنے والے مہمانوں میں بھی نسوار تقسیم کی جاتی ہے۔ یہ رسم تین دن تک دن رات لگاتار بغیر کسی وقفے کے جاری رہتی ہے۔ آخری دن کیلاش قبیلے کے لوگ میت کو چارپائی میں ڈال کر قبرستان لے جاتے ہیں مگر اس دوران ہوائی فائرنگ بھی کرتے ہیں جسےمیت کے اعزاز میں ایک سلامی سمجھی جاتی ہے۔ میت کو قبرستان میں دفنا کر اس کے ساتھ روزمرہ زندگی میں استعمال ہونے والا سامان بھی رکھا جاتا ہے جس میں پنیر، شہد، کپڑے اور شکاری بندوق بھی شامل ہے مگر آج کل بندوق نہیں رکھی جاتی۔ مرد کے موت پر اس کی بیوی کئی ماہ تک گھر کے اندر رہتی ہے اور سوگ مناتی ہےان کو الگ کرکے کھانا دیا جاتا ہے۔

جو لوگ اس کے دفنانے میں شریک ہوکر قبرستان تک جاتے ہیں واپسی پر وہ ایک ندی کے کنارے بیٹھ کر ہاتھ دھوتے ہیں پھر اکر ضیافت کھاتے ہیں۔

ماضی میں کیلاش لوگ اپنے مردوں کو ایک لکڑی کی صندوق میں ڈال کر کھلا چھوڑتے تھے مگر چند دن بعد گلنے سڑنے کے بعد اس کی تعفن سے پوری بستی کو نہایت تکلیف کا سامنا کرنا پڑتا تھا اسی وجہ سے آج کل کیلاش لوگ اپنے مردوں کو دفناتے ہیں تاکہ اس کی بدبو کی وجہ سے کسی کو تکلیف نہ ہو۔

کیلاش عقیدے کے مطابق جب کوئی بچہ پیدا ہوتا ہے تو اس کی پیدایش پراس کے گھر والے خوشی مناتے ہیں مگر جب وہ مر جاتا ہے تو اسے خوشی خوشی دوسرے دنیا میں رحصت کرنا چاہیے۔ اور جس میت پر جتنا زیادہ بکرے کاٹے جاتے ہیں اتنا ہی اسے نہایت معزز سمجھا جاتا ہے جبکہ کیلاش قبیلے کے رہنما قاضی میت کے سرہانے کھڑے ہوکر ان کی تعریف کرتے ہیں اور ان کی کارکردگی کو سراہتے ہیں جو عزت اور اکرام کی علامت سجھی جاتی ہے۔

کیلاش لوگ اپنے میت پر زیادہ بکریاں کاٹنے کی وجہ سے اکثر مالی مشکلات کا بھی سامنا کرتے ہیں مگر ہزاروں سالوں سے جاری اس رسم کو انہوں نے اسی طرح اصلی حالت میں رکھا ہوا ہے ۔

اس مخصوص اور نہایت دلچسپ رسم کو دیکھنے کیلئے کثیر تعداد میں سیاح بھی وادی کیلاش کا رخ کرتے ہیں۔ تاہم راستوں کی خرابی کی وجہ سے اکثر سیاح وادی کیلاش میں جانے سے گریز کرتے ہیں تاکہ راستے میں سفری مشکلات سے دوچار نہ ہوں۔

Leave a reply