مولوی sex edeucation کے بارے میں سوشل میڈیا پہ کھلے عام لکھنے پہ فتوے جاری کر دیتے ہیں ۔ آج تک خود ان کی جانب سے کوui ویڈیو یا تحریری مواد تو سامنے آیا نہیں البتہ کرتوت کبھی کبھار منظر عام پہ آ جاتے ہیں ۔موٹیویشنل اسپیکرز دنیا کے ہر موضوع پہ پیسہ کمانے کی خاطر لیکچر دیتے نظر آتے ہیں مگر اس sex education کو حساس معاملہ سمجھتے ہوٸے لب کشاٸ سے گریزاں رہتے ہیں ۔

سوشل میڈیا ایکٹیوسٹس کی اکثریت نے فیس بُکیے دانشوروں کو ایڈ کر رکھا ہوتا ہے جسے فیس بک کا منٹو کہا جاٸے تو غلط نہ ہو گا اور جو کسی بھی موضوع پہ کھل کر لکھ لیتا ہے مگر اس کے باوجود یہ سوشل میڈیا کے نامور لکھاری sex education کے بارے کھل کر اپنا مٶقف پیش نہیں کر سکتے کہ مولویوں کی تنقید کا سامنا ہو گا ، معاشرہ تنقید کرے گا ، ان کو خواتین کے سامنے بات کرنے میں مشکل کا سامنا ہو سکتا اور ممکن ہے تنقید کا نقطہ عروج ان کی فین فالونگ میں کمی کا سبب بن جاٸے ۔۔۔!!!

” مگر ” سوال یہ ہے کہہ کیا مسجد کے منبر پہ بیٹھے ذمہ دار مدرسین ، اسکول کے اساتذہ ، موٹیوشنل اسپیکرز ، سوشل میڈیا ایکٹیوسٹس ، میڈیا پرسنز اور سب سے بڑھ کر والدین کی ہزار مجبوریوں کے باوجود یہ ذمہ داری نہیں کہہ بچوں کو کم عمری میں ہی اتنا ایجوکیٹ کر دیں کہہ انہیں اٹھارہ بیس سال کی عمر تک پہنچ کر بھی شرماتے ہوٸے مسجد کے مولوی ، اسکول کے معلم ، بس ڈراٸیور یا بڑی عمر کے دوست کی لذت کو پورا کروانے میں مدد نہ کرنی پڑ جاٸے ۔۔۔۔۔۔۔۔ کیا یہ ذمہ داری ان کی نہیں کہہ ان پڑھ والدین میں یہ آگاہی پیدا کی جاٸے کہ بچوں کی تربیت اس طرح کریں کہ سات آٹھ سال کی عمر میں ان کے بستر الگ کر دیں ، ماں بیٹا ، باپ بیٹی ، بہن بھائی ایک ساتھ نہ سوٸیں ۔۔۔۔؟؟؟ بچوں کو ہم عمر یا عمر سے بڑے خالہ زاد ، پھوپھو زاد ، ماموں زاد اور چچا زاد کے ساتھ سونے سے روکنا ہے ۔۔۔۔؟؟؟ کیا یہ ذمہ داری والدین کی نہیں کہ چھوٹی عمر کے بچوں کو مدرسہ یا ہاسٹل میں کسی پہ اعتبار کرتے ہوٸے مت چھوڑیں ، بچوں کو اسکول یا مدرسہ اپنی نگرانی میں لے کر آٸیں جاٸیں ۔۔۔؟؟ کس کے ساتھ ہاتھ ملانا ہے کس کے ساتھ نہیں ، کس کو چُمی لینے دینی ہے کس کو نہیں ، کسی کی گود میں نہیں بیٹھنا ، کسی سے کوئی شے گفٹ نہیں لینی ، کسی جنسی ہیجان رکھنے والے درندے کی ٹھرک پہ کیسے رسپانڈ کرنا ہے ، یہ سب کس نے بتانا اور سکھانا ہے ؟؟؟؟؟ بچوں کی دوستیوں ، گیدرنگز ، ٹیچر کے ساتھ ریلیشن ، پڑھائی کے اوقات کار ، ان سب پہ نظر کس نے رکھنی ہے ۔۔۔؟؟؟

 پولیس نے مدرسے کے لڑکے سے بد فعلی کے ملزم مفتی عزیز الرحمن کے خلاف مقدمہ درج کر دی

مولانا کی بچے سے زیادتی ، ویڈیو لیک ، اصل حقیقت کیا ہے ، سنیے مبشر لقمان کی زبانی

مذہبی رہنماوں کا ردعمل

طالب علم نے چائے پلائی اور پھر….مفتی عزیرالرحمان کی زیادتی کیس میں وضاحتی ویڈیو

طالب علم سے زیادتی کرنیوالے مفتی کو مدرسہ سے فارغ کر دیا گیا

تین سال سے ہر جمعہ کو مفتی عزیز الرحمان میرے ساتھ…..متاثرہ طالب علم مزید کتنی ویڈیوز سامنے لے آیا؟

جب تک ہم بطور معاشرہ مل کر بچوں کی تربیت کا خیال نہیں کریں گے ، ان کی تربیت اور نگرانی نہیں کریں گے تب تک لاہور اور سکھر جیسے واقعات رونما ہوتے رہیں گے ۔ مسجد ، مدسہ ، اسکول ہو یا مفتی ، عالم اور اسکول و کالج کا پروفیسر ان سے عوام کا اعتماد ختم ہوتا جا رہا ہے ۔ ایسا نہ ہو کہ کل کلاں بے اعتمادی اس نہج پہ پہنچ جاٸے کہ ترقی کے اس دور میں بھی عوام بچوں کو تعلیمی اداروں میں بھیجنے سے ہی انکار کر دیں ۔۔۔!!!

Shares: