مصر میں ایک عدالت نے جج کو اپنی اہلیہ کے قتل کے جرم میں سزائے موت سنائی ہے۔

باغی ٹی وی : العربیہ کے مطابق فوجداری عدالت نے منگل کے روز اپنے فیصلہ میں ’’ٹی وی پیش کار شیماء جمال کے قاتل جج اور اس کے ساتھی کا کیس مصر کے مفتیِ اعظم کو بھیجنے کی منظوری دی ہے۔

کرپشن کا الزام: میانمارکی سابق رہنما کو مزید 6 سال قید کی سزا

واضح رہے کہ مفتیِ اعظم سزائے موت کے فیصلوں پر حتمی رائے دیتے ہیں اور انھیں ایسے مقدمات بھیجنا قانون کے مطابق فیصلے پر عمل درآمد سے قبل ایک رسمی کارروائی ہے۔

مصر کےسرکاری وکیل کے دفتر نے گذشتہ ماہ بتایا تھا کہ متعلقہ عدالتی عہدہ دارایمن حجاج پراپنے ساتھی تاجر حسین الغرابلی کے ساتھ مل کراپنی اہلیہ شیماء جمال کے’’پہلے سے سوچے سمجھے قتل‘‘کے الزام میں فردِ جُرم عاید کی گئی تھی۔

شیماء جمال کی لاش جون میں ایک دوردراز ولا سے ملی تھی اس کے شوہر جج نے مقتولہ کے لاپتا ہونے کی اطلاع دی تھی اور اس کے قریباً تین ہفتے کے بعدحسین غرابلی کی خفیہ اطلاع پرلاش برآمد کی گئی تھی غرابلی نے اس جرم میں اپنے کردار کا اعتراف کیا تھا۔

عدالت کی اگلی سماعت مفتیِ اعظم کی متوقع منظوری کے بعد11 ستمبرکومقرر کی گئی ہے۔

زیادہ سوچنا دماغ میں زہریلے کیمیکلز کی نشوونما کا باعث بن سکتا ہے،تحقیق

جج ایمن حجاج نے اپنی بیوی،42 سالہ ٹیلی ویژن پیش کارشیماء جمال کا چہرہ نائٹرک ایسڈ کا استعمال کرتے ہوئے چہرہ جلا دیا تھا۔

جون کے اوائل میں ایمن حجاج نے،جو مبینہ طور پر ریاستی کونسل کی نائب صدر بھی تھے، یہ اطلاع دی تھی کہ ان کی اہلیہ شیماء جمال لاپتا ہوگئی ہیں اورانھیں آخری بار جیزہ کی گورنری میں واقع 6 اکتوبرسٹی میں ایک مال کے سامنے دیکھا گیا تھا۔

گواہ کے مطابق مقتولہ شیماء جمال جج حجاج کی دوسری بیوی تھی۔ان کی شادی ’’خفیہ‘‘تھی ۔انھوں نے یہ بھی انکشاف کیاکہ جج کی پہلی بیوی اس شادی کے بارے میں کچھ نہیں جانتی تھی گواہ کے مطابق ایمن حجاج نے شدیدجھگڑے کے بعد بیوی شیماء کے سر پر بندوق سے تین بار وار کیا اور پھراس کے اسکارف سے اس کا گلا گھونٹ دیا جس سے اس کا دم گھٹ گیا اور وہ موقع پر ہی ہلاک ہو گئی تھی۔

شیماء جمال کا قتل گزشتہ چند مہینوں میں ملک میں غم و غصے کو جنم دینے والا تیسرا واقعہ ہے 19 جون کو کالج کی طالبہ نائرہ اشرف کو قاہرہ کےشمال میں منصورہ میں ایک ایسے شخص نے چاقو کے وار کر کے قتل کر دیا جس کی پیش قدمی اس نے مسترد کر دی تھی۔ حملے کی ایک ویڈیو سوشل میڈیا پر بڑے پیمانے پر شیئر کی گئی۔

امریکا میں برفانی دور کے انسانی قدموں کے نشانات دریافت

ایک انتہائی مشہور مقدمے میں ملزم محمدعادل نےعدالت میں اپنے جرم کا اعتراف کیا تھا اور عدالت اسے سزائے موت سنائی تھی۔فوجداری عدالت نے یہ بھی قراردیاتھا کہ اس کو پھانسی دینے کی کارروائی دوسروں کے لیے عبرت کا ساماں بنانے کی غرض سےٹیلی ویژن پر براہِ راست نشر کی جائے۔

رواں ماہ کے اوائل میں قاہرہ کے شمال میں زغزیغ میں ایک طالبہ کو اسی طرح کے حالات میں قتل کر دیا گیا تھا جس کی شناخت صرف اس کے پہلے نام سلمیٰ سے ہوئی تھی۔استغاثہ کے مطابق ملزم نے مقتولہ پر چاقو کے متعدد وار کیے تھے۔اس کا بھی قصورصرف یہ تھا کہ اس نے ملزم کی راہ ورسم بڑھانے کی پیش قدمی کو مسترد کردیا تھا۔

یہ کہا جاتا ہے کہ مصر میں پدرسری قانون سازی اور اسلام کی قدامت پسند تشریحات نے خواتین کے حقوق کوسختی سے محدود کیا ہے اور خواتین کے خلاف تشدد کا کلچر پیدا کرنے میں مدد دی ہے۔

مصر کےچرچ میں آگ: مسلمان نوجوان نے خود زخمی ہو کر متعدد جانیں بچا لیں

ایک سوشل میڈیا صارف نے کہا کہ سلمیٰ کو صرف ایک غلط معاشرے میں ایک عورت پیدا ہونے پومے کے ناتے قتل کیا گیا تھا کیونکہ کچھ لوگوں کا کہنا تھا کہ سلمیٰ اپنے حملہ آورسے دوستی کرنے میں غلطی پر تھی۔

ایک اور شخص نے کہا کہ جب تک معاشرے میں ایسے ہمدرد موجود ہیں جوان جرائم کے مرتکب افراد کے لیے بہانے بناتے ہیں،تو وہ ایسے جرائم جاری رکھیں گے۔

اقوام متحدہ کے 2015 میں کیے گئے ایک سروے کے مطابق، تقریباً 80 لاکھ مصری خواتین اپنے ساتھیوں یا رشتہ داروں، یا عوامی مقامات پر اجنبیوں کے ہاتھوں تشدد کا شکار ہوئیں۔

انسانی حقوق کی عالمی تنظیم ایمنسٹی انٹرنیشنل کے مطابق مصر میں قتل کی زیادہ سے زیادہ سزا موت ہے اور 2021 میں مصردنیا میں سب سے زیادہ پھانسیاں دینےوالا تیسرا ملک تھا۔

بارسلونا میں آتشزدگی کی روک تھام کے لیےمنفرد ٹیم کی خدمات

Shares: