سپریم کورٹ پنجاب اور خیبرپختونخوا میں انتخابا ت کا معاملہ ،جسٹس اطہر من اللہ نے تحریک انصاف کی درخواست مسترد کرنے کا تحریری فیصلہ جاری کر دیا
جسٹس اطہر من نے اللہ نے 22 فروری کے ازخود نوٹس کیس کا 25 صفحات پر مشتمل تفصیلی فیصلہ جاری کر دیا ، تحریری فیصلے میں کہا کہ ازخود نوٹس سمیت تینوں پیٹیشن خارج کی جاتی ہیں،پنجاب الیکشن کا ازخود نوٹس چار تین سے مسترد ہوا ہے تحریری فیصلے میں جسٹس اطہرمن اللہ نے کہا کہ تحریک انصاف کی درخواست پر جس انداز سے کارروائی شروع کی گئی اس سے عدالت سیاسی تنازعات کا شکار ہوئی ،اس درخواست پر کارروائی شروع کرنے سے پولیٹیکل اسٹیک ہولڈرز کو عدالت پر اعتراض اٹھانے کی دعوت دی گئی ،اس قسم کے اعتراضات سے عوام کے عدالت پر اعتماد پر اثر پڑتا ہے تحریک انصاف کی درخواست پر کارروائی شروع کرنا قبل ازوقت تھی ،چیف جسٹس کا سوموٹو لینا نہیں بنتا تھا کیونکہ یہ معاملہ پہلے ہی لاہور ہائیکورٹ میں پہلے ہی زیرالتوا تھا
جسٹس اطہر من اللہ کے نوٹ میں قاسم سوری رولنگ کیس کا بھی حوالہ دیا گیا،کہا کہ عمران خان نے تحریک عدم اعتماد کے بعد اپوزیشن میں جانے کی بجائے استعفے دیے، آرٹیکل 63 اے کی تشریح کے دور رس نتائج مرتب ہوئے، استعفوں کی وجہ سے سیاسی بحران میں اضافہ ہوا،پی ٹی آئی نے اسمبلیاں تحلیل کرنے کا فیصلہ کیا۔سیاسی بحران عدم اعتماد میں شکست کے بعد عمران خان کے لیڈر آف اپوزیشن کا کردار نہ لینے سے شروع ہوا ،مجاز اتھارٹیز کی جانب سے الیکشن کی تاریخ دینا باقی تھا کہ پی ٹی آئی لاہور ہائیکورٹ چلی گئی سیاسیتدانوں کی پیدا کردہ دلدل سے نکالنے کیلئے ایک بار پھر عدالت کو دعوت دی گئی،سیاسی معاملات پر سوموٹو میں بہت احتیاط کی ضرورت ہے ، سیاسی حکمت عملی کیلئے صوبائی اسمبلی توڑنے کا کنڈکٹ کیا آئینی جمہوریت سے مطابقت رکھتا ہے؟ پہلے عدالتوں میں آئے کہ استعفے منظور کرائیں جب ہو گئے تو کہا اب اسپیکر کا فیصلہ ریورس کرائیں ،سیاستدان عدالت میں کیس خود شاید جیت جائیں مگر ہارعدالت کی ہوتی ہے، پنجاب اور خیبرپختونخوا میں انتخابات نہ کرانے پر متعلقہ ہائیکورٹس سے رجوع کیا گیا، جہاں کیس زیرالتوا تھا، اس کے باوجود سوموٹو نوٹس لیا گیا، ہائیکورٹس کی صلاحیت پر شک کرنے کی کوئی وجہ نہیں بنتی ، سپریم کورٹ سمیت تمام اداروں کو آئینی ذمہ داریوں کو پورا کرنا چاہیے، سپریم کورٹ نے ماضی سے کوئی سبق نہیں سیکھا ،جسٹس منصور، جسٹس جمال مندوخیل اور جسٹس یحیی آفریدی کی رائے سے متفق ہوں، 27 فروری کو ججز کے غیر رسمی اجلاس میں طے ہوا تھا کہ فیصلہ چار تین کا ہے،
تفصیلی نوٹ میں کہا گیا پنجاب،کے پی انتخابات کی تاریخ کا ازخود نوٹس خارج کیا جاتا ہے درخواستوں اور از خود نوٹس کو خارج کرنےکی تین بنیادی وجوہات ہیں فل کورٹ کی جانب سے آرٹیکل 184 تھری کے استعمال کے بنیادی اصولوں کی پابندی بینچ پرلازم تھی عدالت کو اپنی غیر جانبداری کے لیے سیاسی جماعتوں کے مفادات کے معاملات پر احتیاط برتنی چاہیے، عدالت کو سیاسی درخواست گزارکا طرز عمل اور نیک نیتی بھی دیکھنی چاہیےدرخواست گزاروں کا رویہ اس بات کا متقاضی نہیں کہ 184/3کا اختیارسماعت استعمال کیا جائے ازخود نوٹس لینےکا مطلب غیر جمہوری اقدار اورحکمت عملی کو فروغ دینا ہوگا، ماضی کے فیصلوں کو مٹایا نہیں جاسکتا لیکن کم ازکم عوامی اعتماد بحال کرنےکی کوشش کی جاسکتی ہے انتخابات کی تاریخ کامعاملہ ایک تنازع سے پیدا ہوا ہے جو بنیادی طور پر سیاسی نوعیت کا تھا، جسٹس یحییٰ آفریدی نے درست کہا کہ عدالت کو ازخودنوٹس کے استعمال میں احتیاط برتنی چاہیے، سپریم کورٹ کو یکے بعد دیگرے تیسری بار سیاسی نوعیت کے تنازعات میں گھسیٹا گیا
سیاسی مفادات کے لئے ملک کونقصان نہیں پہنچانا چاہئے
سافٹ ویئر اپڈیٹ، میں پاک فوج سے معافی مانگتی ہوں،خاتون کا ویڈیو پیغام
عمران خان نے ووٹ مانگنے کیلئے ایک صاحب کو بھیجا تھا،مرزا مسرور کی ویڈیو پر تحریک انصاف خاموش
جس میں وہ کرسی پر بیٹھے ہیں اور سگار پی رہے ہیں، شیخ رشید احمد کو لاک اپ میں بندنہیں کیا
واضح رہے کہ سپریم کورٹ نے الیکشن کے حوالہ سے از خود نوٹس کیس کا فیصلہ سناتے ہوئے کہا تھا کہ پنجاب میں الیکشن 14 مئی کو ہوں گے، الیکشن کمیشن نے 8 اکتوبر کی تاریخ مقرر کر تھی سپریم کورٹ نے اسے کالعدم قرار دے دیا ، سپریم کورٹ کے حکم کے بعد الیکشن کمیشن نے نیا شیڈول جاری کر دیا ہے، سپریم کورٹ نے اپنے فیصلے میں کہا تھا کہ کے پی میں انتخابات کے لیے گورنر کی طرف سے عدالت میں نمائندگی نہیں کی گئی کے پی میں الیکشن کی تاریخ کے لیے متعلقہ فورم سے رجوع کیا جائے کے پی میں انتخابات کے لیے درخواست گزار عدالت سے رجوع کرسکتے ہیں