ویبسٹر کی ڈکشنری کی تعریف کے مطابق لیڈرشپ سے مراد ’’رہنمائی کرنے کی اہلیت‘‘ ہے۔ جبکہ میرین کورز (Marine Corps) کی تعریف کے مطابق لیڈرشپ ذہانت، انسانی تفہیم اور اخلاقی کردار کی ان صلاحیتوں کا مرکب ہے جو ایک فردِ واحد کو افراد کے ایک گروہ کو کامیابی سے متاثر اور کنٹرول کرنے کے قابل بناتی ہیں۔
لیڈر یا قائد سے مراد ایک ایساشخص ہوتا ہے جب اسے کوئی ذمہ داری یا عہدہ عطا کیا جائے تووہ اسے اپنے منصب کے شایان شان انجام دینے کی صلاحیت رکھتا ہے۔ازل سے لیکر موجودہ دور تک قیادت کوئی آسان ا ور معمولی کام نہیں ہے کہ جس کی انجام دہی کی ہر کس و ناکس سے توقع کی جائے۔لیڈروں کو ہردم اندرونی و بیرونی چیلنجز کا سامنا ہوتا رہتا ہے ۔ ان چیلنجز سے عہدہ براں ہوکر ہی لیڈرز اعتماد ،استحکام اور قبولیت کا درجہ حاصل کرنے میں کامیاب ہوتے ہیں۔گوناں گوں علاقائی مسائل اور درپیش چیلنجز کے باعث قیادت کی باگ ڈور ہمیشہ اہل افراد کے ہاتھوں میں ہونا بے حد ضروری ہے۔ معاشرے کو درپیش تمام مسائل کا حل ایک فرد واحد سے ہرگز ممکن نہیں ہوتا ہے بلکہ اسکے آپ کے ساتھ موجود ٹیم میں اہلیت و قابلیت کا ہونا بھی نہایت اہم ہوتا ہے۔ اکیلے انسان کاقیادت کی ذمہ داریوں سے عہدہ براں تقریبا ناممکنات میں شامل ہے۔ لیڈر کا کام اپنی اقتداء کرنے والوں کو ان مسائل کے حل کرنے کے لئے تحریک فراہم کرنا ہوتا ہے۔ یاد رکھئے کہ کوئی بھی ماں کے پیٹ سے لیڈر بن کر نہیں آتا، سب اپنے ہاتھوں سے اپنی قائدانہ صلاحیت کو تعمیر کرتے ہیں۔ اور یہ بھی یاد رکھئے کہ یہ اصول صرف سیاسی لیڈروں پر لاگو نہیں ہوتے، بلکہ ہر طرح کے لیڈر کے لئے ان کی افادیت یکساں ہے۔
ضلع چکوال میں بھی پاکستان تحریک انصاف کی طرف سے ایم این اے محترمہ فوزیہ بہرام اور انکی پوری ٹیم کو بھی ایک ایسی ہی قیادت سپرد کی گئی ہے۔ جس کےلیے مشکلات بھی ہیں اور چیلیجز بھی ہیں، آستیں کے سانپ بھی ہیں اور مخلص دوست بھی ہیں۔ قیادت کےلیے نہایت ضروری ہے قیادت کے اصولوں کو سمجھنا اور انکو ایپلیمنٹ کروانا، اور ایم این اے فوزیہ بہرام کے اندر یہخوبی شاید اسلیے بھی دوسروں سے نمایاں ہے کیونکہ انہوں نے 1991 میں Eisenhower Fellowship کا ایوارڈ بھی لے رکھا ہے۔ اور اس سے بھی زیادہ اعزاز کی بات یہ ہے کہ 1953 میں امریکہ میں President Dwight D. Eisenhower کی سربراہی میں اس ادارے کا قیام ہوا اور آج تک صرف اور صرف 2000 افراد کو یہ فیلوشپ ایوارڈ دیا گیا جن میں ایم این اے فوزیہ بہرام کا نام بھی شامل ہے۔ اس ادارے کا مقصد کسی بھی انسان کو بطور سپاہی ، سیاستدان ، اور عالمی رہنماء انسانیت کی خدمت اور بھلائی کےلیے تیار کرنا ہے۔ یہ تنظیم جدید اور قابل سیاسیی اور باقی شعبہ زندگی کے رہنماؤں کی نشاندہی کرتی ہے ، انکو بااختیار بنانے میں مدد اور انکو آپس میں جوڑتی ہے، آپ اسکی مزید تفصیلات گوگل پر بھی پڑھ سکتے ہیں۔
فوزیہ بہرام نے 2015 میں پاکستان تحریک انصاف کو جوائن کیا اور اسکی وجہ ملک میں ایک تبدیلی اور فرسودہ سیاسیی نظام کا خاتمہ کرنا تھا، جو پاکستان تحریک انصاف کے چئیرمین عمران خان کا ویژن ہے۔سیاسیی لیڈی ہونے کے ساتھ ساتھ فوزیہ بہرام، ہیلتھ، لوکل گورنمنٹ اور رورل ڈویلپمنٹ کی ممبر بھی ہیں، اسکے علاوہ فوزیہ بہرام کو بزنس لیڈی، ماہر آرائیش خانہ اور ماہر زراعت بھی کہا جاتا ہے۔ اگر تعلیم کی بات کی جائے تو ایم این اے فوزیہ بہرام نے Poli Glot School London سے 1978 میںGeneral Hotel Administration اور Sale Management میں ڈپلومہ بھی کیا ہوا ہے، جبکہ اسکے ساتھ ساتھ انہوں نے پاکستان سے ڈبل گریجویشن بھی کر رکھی ہے۔
اگر فوزیہ بہرام کے فیملی بیک گراونڈ کی بات کی جائے تو انکی دادی جان جنکا نام سونینا تھا، وہ افریقہ کے شاہی خاندان سے ہونے کے ساتھ ساتھ پرنسسز آف بلاپ کیج پینڈا، موزہ نیک بھی تھیں (سورس گوگل)۔ انکی فیملی کے کحچھ ممبرز ورلڈ بنک اور یونائٹیڈ نیشن میں سئینر عہددار بھی ہیں, جبکہ انکے انکل مسٹر ایف ایم خان انڈین فلم انڈسٹریزی میں سئینر علمبردار تھے۔ انکی بھتیجی پلواشہ خان بھی ایم این اے ہیں، جبکہ انکی ہمشیرہ کے سسر (مرحوم) عمر خان پاکستانی سینٹر رہ چکے ہیں۔ انکی سیاسیی فیملی کے بہت سارے افراد پنجاب، سندھ اور خیبر پختون خواہ میں سئنیر بیروکریٹس ، جبکہ کحچھ پاکستان آرمی میں آفیسرز ہیں۔
پاکستانی سیاست میں ضلع چکوال کی اہمیت سے انکار کرنا ناممکن ہے کیونکہ اس ضلع نے ہر دفعہ ممبر قومی اسمبلی اور صوبائی اسمبلی بنائے ہیں۔ اس وقت پاکستان مسلم لیگ ق اور پاکستان تحریک انصاف کے درمیان سیاسیی رسہ کشی اپنے عروج پر ہے، حکومت پاکستان کیطرف سے علاقائی ترقیاتی فنڈز کی الاٹمنٹ شروع ہوچکی ہے اور دونوں پارٹیوں کے دفاعی جیلوں کے مابین نہایت معرکہ خیز سوشل میڈیا جنگیں شروع ہیں، ہر طرف سے کریڈیٹ کریڈیٹ کی آوازیں سنائی دے رہیں ہیں۔ فیس بک گلیوں اور نالیوں کی تصاویرں سے بھری پڑی ہے۔ 25 جولائی 2018 کے دن سے علاقے میں ایک سیاسیی دنگل شروع ہوا تھا، جو اس وقت اپنے عروج پر پہنچ چکا ہے۔
مسلم لیگ ق کے اندر سیاسیی اور علاقائی سپورٹرز کی منافقت عروج پر پہنچ چکی ہے۔ چاچے مامے کو ترجیح دی جانے لگی ہے، ووٹرز میں سخت مایوسی کا سماں ہے۔ ماضی کے لیڈروں کیطرح حافظ عمار یاسر اور انکی ٹیم ممبرز صرف گنے چنے مواقعوں پر نظر آتے ہیں۔ عوام کے اندر بے چینی سرایت کرچکی ہے۔ چند نام نہاد صحافیوں کی غلط پولیسوں کی وجہ سے ق لیگ کی سیاسیی ساکھ کو بہت نقصان ہوچکا ہے اور آگے بھی ہونے کے خدشات نمایاں ہیں۔علاقائی صحافی مسلم لیگ ق کےلیے بیساکھی کا کردار ادا کررہے ہیں۔ علاقے میں پروفیشنل صحافیوں کی کمی اور ناقص صحافتی علم و عمل کی بدولت مسلم لیگ ق کے اندر موجود انکےانسوسٹرز کو بھی شدید تحفظات ہوچکے ہیں۔ لیکن انکی مجبوری ہے کیونکہ انہوں نے پیسہ لگا رکھا ہے، وصولی کیے بغیر بغاوت نہیں کرسکتے ہیں۔
دوسری طرف پاکستان تحریک انصاف اس وقت پورے علاقے میں ابھرتی جارہی ہے۔ کیونکہ گھر کو چلانے کے لیے گھر کے سربراہ کا سمجھدار ہونا نہایت ضروری ہوتا ہے، اسی طرح سیاسیی جماعت کی قیادت یا علاقائی معاملات کو بخوبی سرانجام دینے کےلیے بھی عقل و فہم اور مناسب تعلیم کے ساتھ ساتھ ایک محنتی اور جانفشان ٹیم کا ہونا بھی نہایت اہم ہوتا ہے۔ لیڈر کوئی فرشتہ نہیں ہوتا ہے، نہ ہی اسکو الہام ہوتا ہے، بلکہ اسکی متحرک ٹیم کے ذریعے اسکو مسائل کی نشاندہی ہوتی ہے ۔ علاقائی لیڈر شپ ہو یا قومی لیڈر شپ ہو، ٹیم ورک کے بغیر ناممکن ہے۔ فوزیہ بہرام کی سماجی ورکس کےلیے اپنے ٹیم کے ہمراہ پورے علاقے میں نہایت بہترین حکمت عملی سے کام جاری و ساری کروا دئیے ہیں۔ صرف و صرف ٹمن کےلیے ایک اندازے کے مطابق 55 لاکھ کے فنڈز جاری کروائے گئیے ہیں اور سابق یونین کونسل چئیرمین رانا عظمت ٹمن کی سربراہی میں علاقے میں کام جاری و ساری ہیں۔ 55 لاکھ کی محدود رقم میں پورے علاقے کو پختہ کرنا شاید ناممکنات میں سے ہے لیکن اسکے باوجود فوزیہ بہرام کی ٹیم اپنی طرف سے کوشاں ہے کے ماضی سے ابھی تک چلے آنے والے محرومی کے شکار محلے یا علاقے زیادہ سے زیادہ مستفید ہوسکیں۔
مستقبل میں بلدیاتی الیکشن کی آمد آمد ہے اور علاقائی سیاسیی پس منظر نہایت دلچسپ و مقابلہ خیز بنا ہوا ہے۔ پاکستان تحریک انصاف اور مسلم لیگ ق کے علاوہ سردار منصور حیات بھی ایک بار پھر نئے انداز اور نئی جماعت مسلم لیگ نون کے نمایندے کے طور پر پنجا آزمائی کریں گے۔ اور بھولی بھالی عوام کو ایک بار پھر سے میٹھے میٹھے سیاسیی لڈو کھلانے کی کوشش کریں گے۔ موجودہ حالات کو دیکھتے ہوئے یہ اندازہ ہوتا ہے کے مقابلہ مسلم لیگ ق اور پاکستان تحریک انصاف کے درمیان ہی ہوگا اور فلوقت پاکستان تحریک انصاف کا پلڑا بھاری لگا رہا ہے۔ لیکن یہاں مجھے سابقہ صدر آصف علی زرداری کی وہ بات یاد آرہی ہے کے ” سیاست کی کوئی بھی بات حرف آخر نہیں ہوتی ہے” ۔ تمام اندازے و تخمینے موجودہ حالات و عوامی رجحان کو دیکھ کر لگائے جاتے ہیں اور میں نے بھی اسی اصول کو مدنظر رکھتے ہوئے اپنی رائے کا اظہار کیا ہے۔ ہر انسان کو حق ہے کے وہ سیاسیی منظر نامے پر اپنی اپنی رائے قائم کرسکتا ہے، کیونکہ ہم سب آزاد ملک کے باشندے ہیں اور ماں کے پیٹ سے آزاد ہی اس دنیا میں آئے ہیں۔