ارتغرل ترکی یا سعودی اورصوفی و سلفی کی لڑائی نہیں اگر طبع سلامت ہو تو بہت کچھ خیر بھی ہے اس میں ؛بقلم: فلک شیر چیمہ

ارتغرل ترکی یا سعودی اورصوفی و سلفی کی لڑائی نہیں اگر طبع سلامت ہو تو بہت کچھ خیر بھی ہے اس میں
بقلم: فلک شیر چیمہ

"دیریلیش ارطغرل” بین الاقوامی برانڈ بن چکا ہے اور رمضان کے آغاز سے پی ٹی وی پہ اردو ڈبنگ کے ساتھ دکھایا جا رہا ہے ، سو میں نے چاہا کہ مکمل سیریز دیکھنے کے دوران چند نکات جو میں نے اخذ کیے ، وہ یہاں اس تھریڈ کی صورت پیش کر دوں

ارطغرل سیریز میں پیش کردہ واقعات کی تاریخی حیثیت پہ میں کچھ نہیں کہوں گا، کیوں کہ یہ فکشن ہے ، البتہ اس کا مقصد یقیناً بھلا ہے۔ یہ ترکی کیمپ یا سعودی کیمپ کی چیز نہیں ہے ۔ یہ صوفی و سلفی کی لڑائی میں سے ایک کا ہتھیار بھی نہیں ہے ، اگر طبع سلامت ہو تو بہت کچھ خیر اس میں ہے

یہ سیریز آئندہ کے لیے ایسے ایوینیوز کے رستہ کو بھی کشادہ کرتی ہے ۔ نکات کی یہ فہرست نامکمل ہے اور اس میں سے کئی نکات سے احباب اختلاف بھی کر سکتے ہیں ۔ لیکن سر دست یہ جہاں ہیں ، جیسے ہیں ، کی بنیاد پہ پیش کی جا رہی ہے ، بعد ازاں اس میں اضافہ و تدوین ممکن ہے

1) میڈیا کے میدان میں تحرک ابھی بھی اسلامی دنیا نے اپنی ترجیحات میں کافی پیچھے اور نیچے رکھا ہوا ہے ، یہ فی زمانہ کم از کم بلنڈر کے درجہ کی چیز ہے

2) نئی نسل کی فطرت کے قریب نشوونما کے لیے روایتی تعلیمی ڈھانچوں کو توڑ کر کچھ نیا اور انقلابی کرنے کی ضرورت ہے ، یہ دو چار دن کی بات نہیں ، اربوں کے پراجیکٹ نہیں ، آؤٹ آف باکس سوچ کر زندگیاں وقف کرنے والے چند سو رضاکاروں کاکام ہو سکتا ہے سرِ دست ۔

3) خواتین جسدِ کائنات میں روحِ جمال پھونکنے پہ مامور ہیں اور مرد اُن کی لطافت اور پاکیزگی سے حالات کی سختی سے نمٹتا اور اخلاق کی پاکیزگی پاتا ہے۔ سچ ہے کہ ٹیڑھی پسلی سے عورت پیدا کی گئی ہے ، مگر یہ بھی سچ ہے کہ مرد کو سیدھا رکھنے میں اس کجی کا بھی ایک کردار ہے۔ اچھی مائیں اچھے گھر بناتی ہیں اور اچھے بیٹے معاشرے کو عطا کرتی ہیں ۔

4) سکرین ہر فرد کی زندگی کا ناگزیر حصہ بن چکی ہے ، اسے نظرانداز کرنا 5) معلوم ہے کہ ظلم کی بنیاد پہ عظیم فتوحات محض دہائیوں صدیوں تک محدود رکھی جا سکتی ہیں اور عدالت و مرحمت ہی انسانی معاشروں میں قائم و دائم انقلابات اور حکومتی ڈھانچوں کو سہار سکتے ہیں ۔

عدالت و مرحمت کا فریم ورک جس معاشرے اور ریاست سے غائب ہو گا، وہاں چاہے جو بھی نام بورڈ پہ لکھ لیجیے ، جو بھی بینر آویزاں کر لیجیے ، جو بھی قانون سازی کر لیجیے ، اسے زیادہ دیر بقا حاصل نہ رہے گی۔

6) تحاریک اپنے کارکنان ، حکومتیں اپنے عمال و ارکان ، تعلیمی ادارے اپنے طلاب و طالبات اور ہر گھر کا سربراہ محبت اور حکمت سے اپنے اہل خانہ کو فطرت کے جس قدر قریب رکھ سکے ، یہ اس کی دنیوی و اخروی کامیابی کا پہلا اور اہم ترین زینہ ہو گا۔ یہ اشارہ ہے، خوراک سے لباس ، مشاغل سے تعلقات۔

7) علمائے کرام، جو ایمانداری سے یہ سمجھتے ہیں کہ مسلمانوں کے مختلف گروہوں کے عقائد و عبادات میں فلاں فلاں خامیاں ہیں ، انہیں ان کی نشاندہی ضرور فرمانی چاہیے، لیکن پہلے یہ دیکھ لینا چاہیے کہ کہیں وہ اہل اسلام کے گریٹر کاز کو تو نقصان تو نہیں پہنچا رہے کہیں وہ اخلاق حسنہ سے ہاتھ تو نہیں دھو بیٹھے ، کہیں وہ مسلمانوں کو ہر محلے اور ہر گلی کی بنیاد پہ ایک دوسرے سے اس قدر متنفر تو نہ کر دیں گے کہ وہ کفار سے تو ہاتھ ملانا پسند کریں اور اپنے کلمہ گو بھائی سے سلام لینا بھی گوارا نہ کریں

8) ۔ علمائے کرام کو اپنے کردار کا خیمہ دعوت ، تزکیہ اور بصیرت افروزی کے ستونوں پہ کھڑا کرنے کی ضرورت ہے، تاکہ وہاں اس غرض سے آنے والے سیاست، معیشت اور عدالت کے میدانوں میں وحی کے نمائندہ و پروردہ بن کر کھڑے ہو سکیں

9) مسلمانوں کی سرزمینوں کی محافظت کو دینی فریضہ سمجھنا عین شرعی و اسلامی ہے ، اسے کسی "موعود عالمی تحریک” کی خاطر مؤخر نہیں کیا جا سکتا، اس کی اہمیت کم نہیں کی جا سکتی اور اس فریضے پہ فائز حکام کو ان کی دیگر کمزوریوں اور خرابیوں کی وجہ سے مکمل ملعون و مطعون کرنا مناسب نہیں۔ ان گروہوں اور افواج کی کمیوں کوتاہیوں کو درست کرنا اور ان کی اصلاح کی کوشش کرنا لازم ہے ، وہ آہستہ آہستہ ان بنیادوں پہ نہ ہونے لگے ، جس پہ دین بیزار، وطن بیزار ۔ ان کی اصلاح ایسے ہو، جیسے مریض کی، جسے اپنے مرض سے گویا پیار سا ہو چکا ہے ، جیسے وحشی کو وحشت اور نشہ باز کو نشہ سے

10) ہر چیز بتانے کی اور نمائش کی نہیں ہوتی ۔ آپ کیا کھاتے ہی ، آپ کی ملکیت میں کون سی سواری ہے، بچے کیا پسند کرتے ہیں ، انہوں نے کب کیا تخلیق کیا ان کی صلاحیتیں کیا ہیں ، آپ کی صلاحیتیں اور حسرتیں کیا ہیں ، اس کی چوک چوراہے پہ ہمہ وقت تشہیر شخصیت کو ایک "کھلا راز” بنا دے گی ۔

11) گاہے فرد ہی امت ہوتا ہے ، لیکن امت وہی ہوتی ہے ، جو مثل ایک فرد ہو۔

12) حق پہ کھڑے تھوڑے لوگ ،منافقت اور خیانت پہ قائم کثیر سے ہمیشہ افضل ہوتے ہیں اور حقیقی کامیاب بھی ۔

13) والدین کا اولاد سے دُوری ، جعلی رعب اور ڈنڈے کا تعلق اُسے کبھی بھی مفید، مثبت اور پراعتماد نہیں بنا سکتا۔

14) شجاعت ، جسارت اور قیادت لازم و ملزوم ہیں ۔

15) جنگ جیتنے کے لیے سو من عقل اور ایک من جذبہ درکار ہوتا ہے ۔

16) محبت ، نے نوازی اور فداکاری امیر سے مامور اور حاکم سے محکوم کی طرف سفر کرتی ہے ، تبھی یہ جذبہ دوطرفہ بنتا ہے ۔

17) دسترخوان اور اس کے آداب، معاشرہ بتاتے بھی ہیں اور بناتے بھی۔

18) کسی بھی فرد کے تمام وظائٖف میں سے اہم ترین اس کا خاندان اور اولاد ہے ۔ اگر خاندان کا ادارہ کسی معاشرے میں مؤثر ہے، تو معاشرہ کے بارے میں بھی ایسی ہی امید رکھی جا سکتی ہے ۔ کوئی اور اصلاحی، تعلیمی اور اخلاقی نیٹ ورک "گھر” اور "خاندان” کی جگہ نہیں لے سکتا ۔

19) اولاد کو اگر آپ وقت ، پیار نہیں دیں گے ، تو آپ انہیں کھو دیں گے ۔ محبت کا کوئی نعم البدل نہیں ، بالخصوص اولاد اور ماں باپ کے رشتے میں ۔ اس وقت اور پیار کا مطلب ہر جائز ناجائز خواہش پورا کرنا نہیں ، خود مثال بننے کے علاوہ والدین کے پاس کوئی چارہ نہیں ۔

20) خاتون گھر میں مثل کمان کے ہوتی ہے، اپنے تیروں کو سمیٹتی ہے، سنبھالتی ہے ، طاقت دیتی ہے، باہر والوں کے لیے ایک وقار سے تنی رہتی ہے ۔ اس بیک وقت جلال و جمال سے مرد زندگی کے ہر ہر شعبے میں اپنے اہداف کو پاتے ہیں ، آگے بڑھتے ہیں اور معاشرہ کو ایک بڑا اور خوشحال گھر بناتے ہیں

21) بہادری کمطلب ہمہ دم نئے نئے محاذ کھولنا ہی نہیں ، کبھی رکنا، رکے رہنا، موقع تلاش کرنا بھی اسی میں شامل ہے ۔ اور یہ تو معلوم ہی ہے کہ گاہے رک جانے والے والا بڑا بہادر ہوتا ہے بہ نسبت پھٹ پڑنے والے کے ۔

Leave a reply