بہشت سے میں آئی زمین پر لیکن ،شمار میرا نہیں آسمانی چیزوں میں

انھوں نے شعبہ ٹیلی کمیونیکیشن میں بطور انسپکٹر ملازمت کی
0
170
poet

بہشت سے میں آئی زمین پر لیکن
شمار میرا نہیں آسمانی چیزوں میں

فرزانہ نیناں
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

معروف پاکستانی شاعرہ فرزانہ نیناں کراچی میں پیدا ہوئیں تعلیم بھی یہیں پر حاصل کی رشتۂ ازدواج میں منسلک ہونے کے بعد وہ برطانیہ کے شہر نوٹنگھم میں آباد ہوئیں۔جہاں پہلے انھوں نے شعبہ ٹیلی کمیونیکیشن میں بطور انسپکٹر ملازمت کی،پھر ٹیچرز ٹریننگ اور بیوٹی کنسلٹنٹ کی تعلیم حاصل کی اور مقامی کالج میں ٹیچنگ کے شعبے سے وابستہ ہوگئیں ساتھ ہی میڈیا اور جرنلزم کے کورسز میں ڈپلوما بھی کیے یوں مقامی ریڈیو اور ٹیلی ویڑن سے بھی وابستگی ہوئی، ان کے پیش کردہ پروگرام خصوصی خوبیوں کی بنا پر دلچسپ اور معلوماتی ہوتے ہیں اور اپنے انداز کی وجہ سے یورپ بھر میں بیحد مقبول ہیں۔

شاعری کا رجحان انھیں اپنے چچا سے ملا۔ ان کے چچا محمد سارنگ لطیفی سندھی زبان کے مشہور شاعر، صحافی اور ڈرامہ نویس تھے۔ابتدا میں انھوں نے نثری کہانیاں لکھیں اور نظم سے شاعری کا آغاز کیا۔ فرزانہ نیناں اپنی اسی نثری خصوصیات کی بدولت کتابوں پر تبصرہ جات اور کالم بھی ایسے دلچسپ لکھتی ہیں کہ پڑھنے والے مزید کا تقاضہ کرتے ہیں۔ نیناں نے اپنے خاص نسائی لہجے و منفرد انداز شعرگوئی کی بدولت اہلِ ذوق کو اپنی جانب متوجہ کر کے برطانیہ کی مسلمہ شاعرات کے طبقے میں اپنا معتبر مقام بنا یا ہوا ہے۔

ان کے ہم عصر شاعروں کا کہنا ہے کہ ان کا پہلا شعری مجموعہ ”درد کی نیلی رگیں“ جب سے منظرعام پر آیا ہے نے تخلیقی چشمے میں ایک ارتعاش پیدا کر دیا ہے۔ منفرد نام کی طرح مجموعے کی کتابی شکل و صورت میں بھی انفرادیت ہے۔ ایک ہی رنگ کا استعمال شاعری میں جس انداز سے منفرد ہوا ہے وہ اب سے پہلے کسی نے نہیں پیش کیا۔ پوری شاعری میں محسوسات کو تمثیلوں کے ذریعے تصویروں کی طرح اجاگر کیا گیا ہے۔ اشعار میں جذبوں سے پیدا ہونے والی تازگی بدرجہ اتم جھلکتی ہے۔ ہر مصرعے اور ہر شعر پر ان کے رنگ کی خاص نسائی چھاپ موجود ہے۔

غزل
۔۔۔۔۔
روز دیکھا ہے شفق سے وہ پگھلتا سونا
روز سوچا ہے کہ تم میرے ہو میرے ہو نا

میں تو اک کانچ کے دریا میں بہی جاتی ہوں
کھنکھاتے ہوئے ہم راز مجھے سن لو نا

میں نے کانوں میں پہن لی ہے تمہاری آواز
اب مرے واسطے بیکار ہیں چاندی سونا

میری خاموشی کو چپکے سے سجا دو آ کر
اک غزل تم بھی مرے نام کبھی لکھو نا

روح میں گیت اتر جاتے ہیں جیسے خوشبو
گنگناتی سی کوئی شام مجھے بھیجو نا

چاندنی اوس کے قطروں میں سمٹ جائے گی
تیرگی صبح سویرے میں کہیں کھو دو نا

پھر سے آنکھوں میں کوئی رنگ سجا لوں نیناںؔ
کب سے خوابوں کو یہاں بھول گئی تھی بونا

غزل
۔۔۔۔۔
آدھی رات کے سپنے شاید جھوٹے تھے
یا پھر پہلی بار ستارے ٹوٹے تھے

جس دن گھر سے بھاگ کے شہر میں پہنچی تھی
بھاگ بھری کے بھاگ اسی دن پھوٹے تھے

مذہب کی بنیاد پہ کیا تقسیم ہوئی
ہم سایوں نے ہم سایے ہی لوٹے تھے

شوخ نظر کی چٹکی نے نقصان کیا
ہاتھوں سے چائے کے برتن چھوٹے تھے

اوڑھ کے پھرتی تھی جو نیناںؔ ساری رات
اس ریشم کی شال پہ یاد کے بوٹے تھے

منتخب اشعار
۔۔۔۔۔۔۔
اس کو احساس کی خوشبو سے رہا کرنا تھا
پھول کو شاخ سے کھلتے ہی جدا کرنا تھا

پوچھ بارش سے وہ ہنستے ہوئے روئی کیوں ہے
موسم اس نے تو نشہ بار ذرا کرنا تھا

تلخ لمحے نہیں دیتے ہیں کبھی پیاسوں کو
سانس کے ساتھ نہ زہراب روا کرنا تھا

کس قدر غم ہے یہ شاموں کی خنک رنگینی
مجھ کو لو سے کسی چہرے پہ روا کرنا تھا

چاند پورا تھا اسے یوں بھی نہ تکتے شب بھر
یوں بھی یادوں کا ہر اک زخم ہرا کرنا تھا

دونوں سمتوں کو ہی مڑنا تھا مخالف جانب
ساتھ اپنا ہمیں شعروں میں لکھا کرنا تھا

کرب سے آئی ہے نیناں میں یہ نیلاہٹ بھی
درد کی نیلی رگیں دل میں رکھا کرنا تھا

روز دیکھا ہے شفق سے وہ پگھلتا سونا
روز سوچا ہے کہ تم میرے ہو میرے ہو نا

میں تو اک کانچ کے دریا میں بہی جاتی ہوں
کھنکھاتے ہوئے ہم راز مجھے سن لو نا

میں نے کانوں میں پہن لی ہے تمہاری آواز
اب مرے واسطے بیکار ہیں چاندی سونا

میری خاموشی کو چپکے سے سجا دو آ کر
اک غزل تم بھی مرے نام کبھی لکھو نا

روح میں گیت اتر جاتے ہیں جیسے خوشبو
گنگناتی سی کوئی شام مجھے بھیجو نا

چاندنی اوس کے قطروں میں سمٹ جائے گی
تیرگی صبح سویرے میں کہیں کھو دو نا

پھر سے آنکھوں میں کوئی رنگ سجا لوں نیناںؔ
کب سے خوابوں کو یہاں بھول گئی تھی بونا

Copied

Leave a reply