بیرون ملک سفر کرنے والے پاکستانیوں کے زرمبادلہ ساتھ لے جانے کی حد کم کردی گئی

0
48

اسلام آباد: اسٹیٹ بینک آف پاکستان نے بیرون ملک سفر کے دوران غیر ملکی نقد کرنسی لے جانے کی موجودہ حد کو نصف کر دیا ہے۔

اسٹیٹ بینک آف پاکستان کے مطابق جاری بیان میں کہا گیا کہ 18 سال یا اس سے زیادہ عمر کے شہریوں کے لیے فی سفر 5 ہزار ڈالر (یا دیگر غیر ملکی کرنسیوں میں اس کے مساوی رقم) اور سالانہ 30 ہزار ڈالر ساتھ لے جانے کی اجازت ہوگی۔

پشاور:افغان باشندہ گرفتار،ساڑھےنوکلوسونا،لاکھوں ریال برآمد

یہ دونوں حدیں 18 سال سے کم عمر (نابالغ) افراد کے لیے نصف ہوں گی، یعنی فی سفر ڈھائی ہزار ڈالر اور سالانہ 15 ہزار ڈالر لے جانے کی اجازت ہوگی۔

تاہم افغانستان کا سفر کرنے والے افراد کے لیے نقد غیر ملکی کرنسی لے جانے کی حد فی سفر ایک ہزار ڈالر اور سالانہ 6 ہزار ڈالر پر برقرار رہے گی۔اس اعلان کے بعد اب ڈیبٹ اور کریڈٹ کارڈز کے ذریعے بین الاقوامی لین دین پر بھی یہی سالانہ حد (30 ہزار ڈالر) لاگو ہوگی۔

کرکٹ کےبعد ہاکی کےمیدان سے بھی خوشی کی خبر:پاکستان نےجاپان کوہرادیا

اسٹیٹ بینک نے کہا کہ فی سفر نقدی رقم لے جانے کی حد فوری طور پر لاگو ہوگی جبکہ سالانہ بنیادوں پر عائد کی جانے والی حدیں یکم جنوری 2023 سے لاگو ہوں گی۔

 

 

علاوہ ازیں اسٹیٹ بینک نے کہا کہ ڈیبٹ اور کریڈٹ کارڈز ان ٹرانزیکشنز کے لیے استعمال کیے جا رہے ہیں جو متعلقہ فرد کے پروفائل کے ساتھ منسلک نہیں ہیں یا پھر وہ کاروباری مقاصد کے لیے کیے جارہے ہیں، اس لیے بین الاقوامی ٹرانزیکشنز پر 30 ہزار ڈالر کی سالانہ حد مقرر کی گئی ہے۔

اسٹیٹ بینک نے بینکوں کو مشورہ دیا کہ ’اس بات کو یقینی بنائیں کہ بین الاقوامی لین دین کے لیے ڈیبٹ کارڈز اور کریڈٹ کارڈز کا استعمال کارڈ ہولڈرز کے پروفائل کے مطابق ہو اور صرف ان کی ذاتی ضروریات کے لیے استعمال ہو۔

جعلی پولیس بن کر تاجروں کو لوٹنے والے سگے بھائی اصلی پولیس کے ہتھے چڑھ گئے

اسٹیٹ بینک نے اس بات پر زور دیا کہ ڈیبٹ/کریڈٹ کارڈز کا مقصد لوگوں کو ذاتی نوعیت کی لین دین کے لیے ادائیگی میں سہولت فراہم کرنا ہے، ان کارڈز کے لیے طے کردہ حدود کے علاوہ ان کے ذریعے ملکی اور بین الاقوامی ادائیگیاں کارڈ ہولڈر کے پروفائل کے مطابق ہونی چاہئیں‘۔

اسٹیٹ بینک نے کہا کہ یہ شہریوں کی ذمہ داری ہوگی کہ وہ اس بات کو یقینی بنائیں کہ اس مقررہ کردہ سالانہ حد کی کسی صورت خلاف ورزی نہ ہو، تاہم بینکوں پر بھی ان حدود کی نگرانی لازمی کرنے کی ضرورت ہے‘۔

Leave a reply