بات کرتے ہیں پاکستان کے پہلے وزیرِ اعظم نواب زادہ لیاقت علی خان کی، جیسا کہ اکتوبر کے مہینے کا آغاز ہوچکا ہے اور یہ مہینہ نہ صرف شہید ملت کا ماہ پیدائش ہے بلکہ ماہ وفات بھی ہے۔ آج کی تحریر میں اُن کے کردار، جدوجھد، اور پاکستان کے لیے قربانیوں کا ذکر کریں گے۔ تحریر کے آغاز میں نواب زادہ لیاقت علی خان کی ابتدائی زندگی پر ایک سرسری نظر ڈالتے ہوئے آگے بڑھتے ہیں۔
آپ ہندوستان کے علاقے کرنال میں ایک نامور نواب گھرانے میں 2 اکتوبر، 1896ء کو پیدا ہوئے۔ آپ نے اپنی ابتدائی تعلیم گھر میں ہی مکمل کی اور ایم اے او کالج علی گڑھ سے گریجویشن کی ڈگری حاصل کی، آکسفورڈ یونیورسٹی سے قانون کی ڈگری لی اور 1922ء میں انگلینڈ بار میں شمولیت اختیار کرلی۔
انگلینڈ سے واپسی کے بعد آپ نے اپنی سیاسی زندگی کے آغاز کا فیصلہ کیا۔ آپ نے قائد اعظم محمد علی جناح کے زیر قیادت مسلم لیگ میں باقاعدہ شمولیت اختیار کی۔ 1926ء میں میں آپ اتر پردیش سے قانون ساز اسمبلی کے رکن منتخب ہوئے اور 1940ء میں مرکزی قانون ساز اسمبلی کے رکن منتخب ہونے تک آپ یو پی اسمبلی کے رکن رہے۔
آپ نے نہ صرف اپنا کردار پاکستان کے حصول تک نبھایا بلکہ پاکستان بننے کے بعد بھی اپنی زندگی اس ارض پاک کے لیے وقف کردی۔ تحریک پاکستان کی جدوجھد میں قائداعظم کے شانہ بشانہ رہے اور آزادی کے بعد اپنا سب کچھ ترک کرکے پاکستان چلے آئے۔ نواب آف کرنال کے ثبوت ہونے کے باعث آپ کے رہن سہن کے ٹھاٹھ باٹھ ایسے تھے کہ جب آپ انگلینڈ تعلیم حاصل کرنے گئے تو آپ کے ہمراہ خانساماں اور ملازمین بھی گئے، آپ کے ہاں ایک وقت کا کھانا چالیس افراد سے کم کا نہ بنا کرتا تھا۔ لیکن پیارے وطن کے حصول کی جدوجھد سے لے کر اسے اپنے پاؤں پر کھڑا کرنے تک کی جدوجھد تک آپ نے اپنا آپ فراموش کرکے نہایت سادہ زندگی گزاری۔ نہ صرف اپنی تمام جائیدادیں پاکستان کو وقف کردیں بلکہ جب آپ وزیر اعظم بنے تو آپ نے سرکاری خزانے کا بےجا استعمال کرنے سے بھی گریز کیا۔ حتٰی کہ تاریخ میں درج ہے کہ نواب خاندان کو غربت کے باعث پھیکی چائے پیتے ہوئے بھی دیکھا گیا۔
نواب لیاقت علی خان کے یہ تاریخی جملے اُن سے اس ملک کی محبت کی ترجمانی کرتے ہیں،
1951ء میں یوم پاکستان کے موقع پر لیاقت علی خان نے کراچی میں ایک جلسہ کو خطاب کرتے ہوئے فرمایا:
"مجھے معلوم نہیں کہ قوم کے اعتماد اور اس کے خلوص کو کس طرح بحال کیا جا سکتا ہے، میرے پاس جائیدادیں نہیں ہیں،میرے پاس امرا نہیں ہیں مجھے خوشی ہے کہ میرے پاس یہ چیزیں نہیں ہیں، کیونکہ یہ آدمی کے یقین کو متزلزل کر دیتی ہیں۔ میرے پاس صرف میری زندگی ہے اور وہ بھی پچھلے چار برسوں سے پاکستان کے نام وقف کر چکا ہوں۔ مَیں اس کے سوا اور کیا دے سکتا ہوں،مَیں وعدہ کرتا ہوں کہ اگر پاکستان کے دفاع کے لئے قوم کو خون بہانے کی ضرورت پڑی تو لیاقت کا خون بھی اس میں شامل ہو گا”۔
اور بیشک تاریخ نے آپ کے ان جملوں کو من و عن سچ ثابت کیا۔
آپ نے بطور وزیر دفاع، وزیر خارجہ، وزیر خزانہ اور وزیراعظم پاکستان، اپنے فرائض کو بخوبی نبھایا۔
وہ پزیرائی جو آپ کے پیش کردہ بجٹ کو عوامی سطح پر ملی کو آج تک کسی دوسرے بجٹ کو حاصل نہ ہوسکی۔
متحدہ برطانوی ہندوستان کے پہلے اور آخری وزیر خزانہ لیاقت علی خان کے 1947-48ء کے بجٹ کو عوام قبول بجٹ کا درجہ حاصل ہوا تھا۔ تاریخ میں اس بجٹ کو غریبوں کے بجٹ کے نام سے یاد کیا جاتا ہے کیونکہ اس کی تمام پالیسیوں کا رُخ امیروں سے دولت لے کر غریبوں کی طرف منعطف کرنا تھا۔ آپ نے اپنے عمل اور پالیسیوں سے یہ ثابت کیا کہ آپ کو نہ صرف پاکستان سے والہانہ محبت ہے بلکہ آپ کس قدر غریب عوام کا درد رکھتے ہیں۔
پاکستان کا پہلا سیاسی قتل 16 اکتوبر کو ہوا تھا- جو کہ پاکستان کے پہلے وزیراعظم نوابزادہ لیاقت علی خان کا قتل تھا۔ ان کو 16 اکتوبر 1951ء کو راولپنڈی کے لیاقت باغ میں گولی مار کر شہید کر دیا گیا تھا، آپ کے آخری الفاظ تھے "خدا پاکستان کی حفاظت کرے”.
افسوس کہ آج ہم نے ایسی شخصیت کو فراموش کردیا ہے جن کی وطن عزیز کی خاطر قربانیوں کی مثالیں لازوال ہیں۔ حال ہی میں سندھ حکومت کی جانب سے ملک کے نامور کامیڈین عمر شریف کے انتقال پر یہ اعلان کیا گیا ہے کہ کراچی کو "شہید ملت انڈرپاس” کا نام تبدیل کرکہ اسے عمر شریف کے نام سے منسوب کیا جائے گا جو کہ نہایت ہی غیر مناسب ہے۔ کسی بھی ایسی جگہ کا نام تبدیل کرنا جو کہ محسن ملت، شہید ملت نوابزادہ لیاقت علی خان کے نام سے منسوب ہو ٹھیک عمل نہیں، خان صاحب جیسی شخصیت پوری قوم کے لیے مشعل راہ ہے اور ہم انھیں جتنا بھی خراج تحسین پیش کریں وہ کم ہوگا۔
@KainatFarooq_