کونسا مشہور آدمی چکوال میں ؟ گالیاں دینا ہوں تو ہر کوئی شروع ہو جاتا ،چیف جسٹس برہم

چکوال سے تعلق رکھنے والے درخواست گزار کمرہ عدالت میں درخواست دائر کرنے سے ہی مکر گئے
0
231
supreme

سپریم کورٹ،صحافیوں کو ہراساں کرنے کیخلاف کیس کی سماعت ہوئی

چیف جسٹس پاکستان قاضی فائز عیسیٰ کی سربراہی میں تین رکنی بنچ نے سماعت کی،چکوال سے تعلق رکھنے والے درخواست گزار کمرہ عدالت میں درخواست دائر کرنے سے ہی مکر گئے،سپریم کورٹ میں کوڈ آف کنڈکٹ تشکیل دینے کی درخواست 2022 میں دائر کی گئی تھی، چکوال سے تعلق رکھنے والے راجہ شیر بلال،ابرار احمد، ایم آصف ذاتی حیثیت میں عدالت پیش ہوئے اور کہا کہ ہم نے سپریم کورٹ میں درخواست دائر ہی نہیں کی،

چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے ریمارکس دیتے ہوئے کہا کہ کسی نے آپکے نام اور رہائشی پتے کیسے استعمال کیے؟کیا آپ بغیر اجازت درخواست دائر کرنے والوں کیخلاف ایف آئی آر کٹوائیں گے؟ ایم آصف نے کہا کہ اگر آپکی سرپرستی ہوگی تو ہم ایف آئی آر کٹوا دیں گے،چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے کہا کہ ہم کیوں سرپرستی کریں؟، ایڈووکیٹ آن ریکارڈ رفاقت حسین شاہ نے کہا کہ جس ایڈووکیٹ آن ریکارڈ کے ذریعے درخواست دائر ہوئی انکا انتقال ہو چکا ہے،

پہلے ہم پر بمباری کی جاتی ہے پھر عدالت میں پیش ہوکر کہتے ہیں کیس ہی نہیں چلانا،چیف جسٹس
چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے برہمی کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ آپکو صرف چکوال والے کلائنٹ ہی کیوں ملتے ہیں،ٹی وی پر بیٹھ کر ہمیں درس دیا جاتا ہے عدالتوں کو کیسے چلنا چاہیے،پہلے ہم پر بمباری کی جاتی ہے پھر عدالت میں پیش ہوکر کہتے ہیں کیس ہی نہیں چلانا،ملک کو تباہ کرنے کیلئے ہر کوئی اپنا حصہ ڈال رہا ہے،سچ بولنے سے کیوں ڈرتے ہیں،وکیل کو اپنا ایڈووکیٹ آن ریکارڈ خود کرنے کا اختیار ہوتا ہے، کونسا مشہور آدمی چکوال میں بیٹھا ہوا ہے؟ گالیاں دینا ہوں تو ہر کوئی شروع ہو جاتا ہے، کوئی سچ نہیں بولتا،ہم جانچ کیلئے معاملہ پنجاب فرانزک لیبارٹری کو بجھوا دیتے ہیں، ایڈوکیٹ حیدر وحید نے کہا کہ مجھے ایڈووکیٹ آن ریکارڈ نے ہدایات دی تھیں،

غلطیاں تو جیسے صرف سپریم کورٹ کے جج ہی کرتے ہیں، بس فون اٹھایا اور صحافی بن گیا،چیف جسٹس
چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے ریمارکس دیتے ہوئے کہا کہ غلط خبر پر کوئی معافی تک نہیں مانگتا،کوئی غلط خبر پر یہ نہیں کہتا ہم سے غلطی ہو گئی ہے، غلطیاں تو جیسے صرف سپریم کورٹ کے جج ہی کرتے ہیں، بس فون اٹھایا اور صحافی بن گیا کہ ہمارے ذرائع ہیں، کسی کے کوئی ذرائع نہیں،ہم کچھ کرتے نہیں تو اسکا یہ مطلب نہیں کہ بس پتھر پھینکی جاؤ،باہر کے ملک میں ایسا ہوتا تو ہتک عزت کے کیس میں جیبیں خالی ہو جاتیں،

جھوٹ بولنے پولیس میں آئے ہو؟ پولیس یونیفارم کی توہین کر رہے ہو،چیف جسٹس برہم
مطیع اللہ جان کیس میں پیشرفت نہ ہونے پر چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے برہمی کا اظہار کیا،چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے ایس ایس پی انویسٹگیشن کو روسٹرم پر بلا لیا، چیف جسٹس قاضی فائز عیسیی نے ریمارکس دیتے ہوئے کہا کہ سامنے آ ؤ، واقعے کی ریکارڈنگ موجود ہے اغواکاروں کا سراغ کیوں نہ ملا؟ ایس ایس پی انویسٹیگیشن نے کہا کہ ہماری سی سی ٹی وی موجود نہیں ہے، چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے ریمارکس دیتے ہوئے کہا کہ جھوٹ بولنے پولیس میں آئے ہو؟ یہ کیا بات کر رہے ہو؟ پولیس یونیفارم کی توہین کر رہے ہو،ریکارڈنگ موجود ہے اور کہہ رہے ہو ریکارڈنگ نہیں، کچھ پڑے لکھے بھی ہو یا نہیں؟ایس ایس پی انویسٹیگیشن نے کہا کہ جی سر، چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے استفسار کیا کہ کتنے سال ہو گئے ہیں پولیس میں؟ ایس ایس پی انویسٹیگیشن نے کہا کہ مجھے پولیس میں 13 سال ہو گئے ہیں، چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے ایڈیشنل اٹارنی جنرل سے مکالمہ کرتے ہوئے کہا کہ ایسے آفیسر کو ہٹایا کیوں نہیں جا رہا؟ فوری فارغ کریں ایڈیشنل اٹارنی جنرل نے کہا کہ میں ان کی طرف سے معافی مانگتا ہوں، چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے ریمارکس دیتے ہوئے کہا کہ معافی کیوں، ان کیخلاف کارروائی کیوں نہیں کرتے کارروائی کریں،میں بالکل مطمئن نہیں ہوں ان سے، یہ مذاق بنا رہے ہیں،

اچھا آپ ہمیں سکھا رہے ہیں کہ کوئی شخص قانون سے بالاتر نہیں،چیف جسٹس کا آئی جی سے مکالمہ
صحافی مطیع اللہ جان اغوا کیس میں آئی جی اسلام آباد علی ناصر رضوی عدالت میں پیش ہوئے، چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے آئی جی اسلام آباد سے مکالمہ کرتے ہوئے کہا کہ آئی جی صاحب کیا کر رہی ہے آپکی پولیس ؟ آئی جی نے عدالت میں کہا کہ سر ہمیں کچھ وقت دے دیں میں خود اس کیس کو دیکھوں گا،کوئی شخص قانون سے بالاتر نہیں،چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے آئی جی سے مکالمہ کرتے ہوئے کہا کہ اچھا آپ ہمیں سکھا رہے ہیں کہ کوئی شخص قانون سے بالاتر نہیں،کل میڈیا میں ہیڈلائن ہوگی کہ آئی جی اسلام آباد نے کہہ دیا کوئی قانون سے بالاتر نہیں،سلام آباد پولیس کو کوئٹہ انکوائری کمیشن کی رپورٹ پڑھائیں،کینیڈا کو دیکھیں کیسے انھوں نے دوسرے ملک کے باشندوں کیخلاف تحقیقات کیں،ہم لوگ اور ہمارے صحافی بہت خوش ہوئے کہ کسی اور ملک کیخلاف کینیڈا نے تحقیقات کیں،مگر یہاں اسلام آباد پولیس کو خود سیکیورٹی چاہیئے،ایک ایس ایس پی کیساتھ گارڈز ہوتے ہیں جیسے انکو کسی سے خطرہ ہے،جو پولیس کبھی ہماری حفاظت کرتی تھی اب انکی حفاظت کی جاتی ہے،ایک پولیس افسر کے گرد پوری نفری گھوم رہی ہوتی ہے،

پولیس نے ہمارے موبائل لئے اور ابھی تک واپس نہیں کیے، مطیع اللہ جان، اسد طور
صحافی مطیع اللہ جان نے کہا کہ اغوا کے وقت میں نے موبائل پھینکا تھا جو پولیس لے گئی تھی،پولیس نے میرا موبائل واپس نہیں کیا،اسد طور نے کہا کہ میرے موبائل بھی لے لیے گئے تھے جو آج تک واپس نہیں ہوئے،
مجھ پر حملہ ہوا تو وہ لوگ موبائل پر بات کر رہے تھے مگر جیو فینسنگ نہیں کی گئی،تفتیشی افسر نے کہا کہ مطیع اللہ جان کا موبائل حملہ آور ساتھ لے گئے تھے، چیف جسٹس قاضی فائز عیسیی نے کہا کہ یہ تو آسان تھا اگر موبائلز کا ڈیٹا نکال لیا جاتا تو ملزمان پکڑے جاتے،پولیس کو شاید ڈر تھا کہ موبائل کسی ایسی جگہ نہ ہو جن کیخلاف کاروائی نہیں ہوتی،لگتا ہے اب پولیس والوں کی تحقیقات کیلئے ایف آئی اے کو کہنا پڑے گا،جیسے پولیس جے آئی ٹی بنا لیتی ہے ہم پولیس کیخلاف جے آئی ٹی بنا لیتے ہیں،پولیس والے عدالت آکر سر سر کہہ کر مکھن لگاتے ہیں اور چلے جاتے ہیں،آئی جی اسلام آباد نے کہا کہ مجھے اسلام آباد کا چارج سنبھالے تھوڑا سا وقت ہوا ہے میں خود یہ ان کیسز کی نگرانی کرونگا،چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے آئی جی سے مکالمہ کرتے ہوئے کہا کہ کارروائی ہوگی یا اوپر سے آرڈر آجائے گا،مطیع اللہ جان اغوا کی تحقیقات کرنی والی پولیس ٹیم تبدیل ہوگی یا نہیں،آئی جی اسلام آباد نے مطیع اللہ جان اغوا کیس میں تفتیشی افسران تبدیل کرنے کی یقین دہانی کروائی اور کہا کہ تفتیشی افسران تبدیل کر کے خود صحافیوں پر حملوں کے مقدمات دیکھوں گا،

صحافیوں کو ہراساں کرنے کیخلاف کیس کی سماعت جون تک ملتوی کر دی گئی، عدالت نے اسد طور، ابصار عالم اور مطیع اللہ جان پر تشدد اور اغوا کے کیس میں پولیس تفتیش کو غیر تسلی بخش قرار دیدیا،عدالت نےکہا کہ تفتیش کیلئے اہل افسر تعینات کیے جائیں، عدالت نے ابصار عالم، مطیع اللہ جان ، اسد طور پر حملے کی تفتیش ایک ماہ میں مکمل کرنے کا حکم دے دیا،سپریم کورٹ نے اسلام آباد پولیس کو 30 دن کی مہلت دے دی،عدالت نے اسد طور حملہ کے ملزمان کے خاکے اخبارات میں شائع کرانے کا حکم دیا، اور کہا کہ ملزمان کی گرفتاری کیلئے انعامی رقم مقرر کر کے اشتہار دیا جائے، مطیع اللہ جان اغوا کی مکمل سی سی ٹی وی فوٹیج پنجاب فارنزک لیب کو بھیجنے کا حکم بھی دیا.

چیف جسٹس لاہور ہائیکورٹ کاعدالتوں کو زبردستی بند کروانے کا نوٹس

ہڑتال پر چیف جسٹس برہم،بولے اتنے جرمانے لگائیں گےکہ یاد رکھیں گے

عدلیہ کو اپنی مرضی کے راستے پر دھکیلنا بھی مداخلت ہے،چیف جسٹس

8 ججز کو پاؤڈر والے دھمکی آمیز خط،شیر افضل مروت نے الزام ن لیگ پر لگا دیا

اسلام آباد ہائیکورٹ کے ججز کو دھمکی آمیز خطوط بھیجنے کا مقدمہ درج

اسلام آباد ہائیکورٹ ججز کے خط کے بعد نئی صورت حال سامنے آگئی

عمران خان کو رہا، عوامی مینڈیٹ کی قدر کی جائے،عارف علوی کا وکلا کنونشن سے خطاب

جماعت اسلامی نے اسلام آباد ہائی کورٹ کے ججز کے لیے بنائے گئے انکوائری کمیشن کو مسترد کر دیا۔

ججز خط کی انکوائری، سپریم کورٹ بار کا تصدق جیلانی کو کمیشن کا سربراہ مقرر کرنے کا اقدام خوش آئند قرار

ججز کا خط، سابق چیف جسٹس تصدق حسین جیلانی انکوائری کمیشن کے سربراہ مقرر

ہائیکورٹ کے 6 ججز نے جو بہادری دکھائی ہیں یہ قوم کے ہیرو ہیں،اسد قیصر

لاہور ہائیکورٹ کے ججز کو بھی مشکوک خط موصول

Leave a reply