غریب کی نسل کی تعلیم اور اشرافیہ کا کردار تحریر چوہدری عطا محمد

0
63

قوم و ملک کو ترقی کی معراج لے جانا ہے تو تعلیم پر بھر پور توجہ دینا ہوگی اس لئے نہ صرف ڈی نیشنلائزیشن کی پالیسی ترک کرنا ہوگی بلکہ مزید سرکاری تعلیمی ادارے قائم کرنے ہونگے۔ تعلیم وصحت کی سہولتیں فراہم کرنا ریاست کی زمہ داری ہے مگر پاکستان میں جہاں غربت مہنگائی،بےروگاری نے غریب بچوں کو اسکولوں سےدور کردیاہے کہ ان کیلئے تعلیم ایک خواب بن کر رہ گئی ہے وہاں پرائیویٹ سیکٹر کے تعلیمی اداروں نے تعلیم کو اس قدر مہنگا کردیا ہے کہ اوسط درجے کی آمدن والے لوگ بھی اپنی اولادوں کو معیاری تعلیم دلوانے سے قاصر ہیں

ایسے حالات میں غریب مفلوک الحال خاندان اپنے پیٹ کی آگ بجھائے یہ تعلیم کے بھاری اخراجات برداشت کریں چاروں طرف لوگوں نے تعلیم کو کاروبار بنا لیا ہے گلی اور محلوں میں پرائیویٹ سکول کالجز اور یونیورسٹیاں تک قائم ہوچکی ہیں۔

والدین کی خواہش ہوتی ہے کہ ان کی اولاد اچھی سے اچھی تعلیم حاصل کرے لیکن آسمان سے باتیں کرتی فیسوں نے شفید پوش والدین کیلئے بچوں کی تعلیم کو ایک خواب بنا دیا ہے

میڈیکل کی تعلیم کے اخراجات تو سرکاری اداروں میں بھی عام آدمی کیلئے برداشت کرنا بہت مشکل ہے ۔ پرائیویٹ میڈیکل کالجز اور یونیورسٹیوں میں 40سے50لاکھ کون ادا کرے؟

جس کو میرٹ کہا جاتا ہے وہ کہاں ہے؟ اب تو صرف دولت ہی میرٹ ہے صلاحیت کو کوئی اہمیت حاصل نہیں تعلیم نے بیوپار کا روپ اختیار کر لیا ہے یہی وجہ ہےکہ غریب کے بچے ہر طرح کی قابلیت کے باوجود پیچھے رہ جاتے ہیں۔ اور ان کے والدین وسائل کی کمی کے سبب ان کو تعلیم نہیں دلواسکتے۔ محنت کش بچے کوئی پیدائشی محنت کش نہیں ہوتے۔

ان کی شکلیں بھی ایسی ہی ہوتی ہے جیسے بڑے تعلیمی اداروں میں پڑھنے والے طلبہ کی ہوتی ہے لیکن وسائل نہ ہونے کی وجہ سے وہ معاشرے میں چھوٹے بن کر رہ جاتے ہیں
اس پر لکھنے کو بہت سے الفاظ ہیں ان شاءاللہ اگلی تحریر میں مزید بات ہوگی غریب بچوں کی تعلیم کے مسائل پر
اللہ ہم سب کا حامی وناصر ہو آمین ثمہ آمین

تحریر چوہدری عطا محمد

@ChAttaMuhNatt

Leave a reply