سات اکتوبر کو حماس کے اسرائیل پر حملے کے بعد اسرائیل نے غزہ پر بمباری شروع کی، جو آج تک جاری ہے، اسرائیلی حملے میں ہزاروں فلسطینی شہری شہید، لاکھوں بے گھر ہو چکے ہیں، عمارتیں، ہسپتال، سکول، مساجد، چرچ پر بھی بمباری کی گئی، ہسپتالوں کو اسرائیلی فوج نے خصوصی نشانہ بنا لیا، اب اسرائیل نے غزہ کے سب سے بڑے الشفا ہسپتال کو تباہ کر دیا ہے

اسرائیلی فوج نے الشفا ہسپتال کو محاصرے میں رکھا، اسرائیلی فوج نے ہسپتال میں گھس کر پناہ لئے شہریوں کو گرفتار کیا، ان پر تشدد کیا، انہیں برہنہ کیا گیا اور پھر آج اسرائیلی فوج نے تمام عالمی قوانین کو روندتے ہوئے ہسپتال پر بلڈوزر چلا دیئے،اسرائیلی فوج نے سپیشل سرجریز کی عمارت مکمل تباہ کر دی ہے جبکہ ادویات اور طبی آلات کے گودام کو بھی دھماکے سے اڑا دیا ہے، اس دوران اسرائیلی فوج نے دو سو کے قریب بے گناہ ،نہتے فلسطینی شہریوں کو گرفتار کیا

اسرائیل مسلسل یہ دعویٰ کر رہا تھا کہ الشفا میں حماس کا ہیڈ کوارٹر ہے تا ہم اسرائیل آج تیسرا دن اس حوالے سے کوئی ثبوت پیش نہیں کر سکا، حالانکہ اسرائیلی فوج کا ہسپتال پر مکمل کنٹرول ہے، اسرائیلی فوجی جعلی ویڈیو جاری کر رہے ہیں جس میں سے ایک ویڈیو کو ڈیلیٹ بھی کیا گیا ہے،میڈیا رپورٹس کے مطابق الشفا ہسپتال میں حماس کا کوئی سراغ نہ ملنے پر الشفاء اسپتال میں حماس کی موجودگی کے دعویٰ غلط ثابت ہوگیا ہے جس کے نتیجے میں اسپتال میں بڑی تباہی مچائی گئی، بلڈوزر اور فضائی حملوں سے الشفا اسپتال کو زمین بوس کیا گیا

غزہ کی وزارت صحت کا کہنا ہے کہ اسرائیلی بلڈوزروں نے ہسپتال کے جنوبی داخلی راستے کے کچھ حصوں کو تباہ کر دیا.اسرائیلی فوجیوں نے الشفا ہسپتال میں موجود عملے اور دیگر شہریوں کو انسانی ڈھال بنا یا ہوا ہے،

ہسپتالوں پر مسلسل حملے، غزہ میں جہاں اموات میں روز اضافہ ہو رہا ، بچے بھی شہید ہو رہے، ایسے میں غزہ میں پچاس ہزار سے زائد حاملہ خواتین ہیں جو اپنے آنے والے بچوں کے مستقبل کے حوالہ سے فکر مند ہیں، انہیں یہ بھی معلوم نہیں کہ وہ خود بھی اسرائیلی بمباری سے بچ پائیں گی یا نہیں اگر خود مر گئیں تو انکے بچوں کا کیا ہو گا،ڈاکٹر اشرف محمود البشیطی کا کہنا ہے کہ غزہ میں اقوام متحدہ کے اندازے کے مطابق 50,000 حاملہ خواتین انتہائی خطرے میں پڑ جائیں گی، ان حاملہ خواتین کو نہ صرف بچانا ہے بلکہ انکے بچوں کو بھی بچانا ہے،

اسرائیلی بمباری سے ایک طرف اموات ہیں تو دوسری طرف جو لوگ زندہ ہیں انکی زندگیاں بھی اجیرن بن چکی ہیں، خوراک، پانی کی قلت،ادویات کی کمی بڑے مسائل ہیں تو وہیں کسی بھی وقت اسرائیلی بمباری کا خطرہ بھی سر پر منڈلاتا رہتا ہے،لاکھوں لوگ کیمپوں میں زندگی گزار رہے ہیں، ان میں خواتین، بوڑھے بچے سب شامل ہیں، ریلیف کیمپوں میں خواتین کی حالت بارے الجزیرہ ٹی وی کی رپورٹ میں کہا گہا ہے کہ خواتین زیادہ پریشان ہیں، غزہ میں 50 ہزار سے زائد حاملہ خواتین ہیں جنہیں علاج، خوراک کی سہولیات میسر نہیں،حاملہ خواتین زیادہ تکلیف اور خوف میں رہتی ہیں، گھر ملیامیٹ ہو چکے ، ریلیف کیمپوں میں انکو وہ سہولیات نہیں مل رہیں جو ملنی چاہئے،33 سالہ خاتون نیوین الباری جو حاملہ ہیں اور ماں بننے والی ہیں، وہ شدید پریشان ہیں، مسلسل بمباری کی وجہ سے وہ خوفزدہ ہیں کہ انکے بچے کا کیا بنے گا، انکی کمر اور پیٹ میں درد رہتا ہے مگر کوئی انکا علاج کروانے والا نہیں، وہ کیمپ میں رہ کر کسی کو بتا بھی نہیں سکتیں،نیوین کا کہنا ہے کہ میں صرف اس امید سے جی رہی ہوں کہ میرا بچہ محفوظ رہے،نیوین کے مطابق اسے ہائی بلڈ پریشر اور شوگر ہے تاہم یہاں اسے ادویات نہیں مل رہیں.اسرائیلی حملوں سے قبل وہ باقاعدگی کے ساتھ ڈاکٹر کے پاس جاتی تھیں اور اپنا علاج کروا رہی تھیں لیکن اب تو اپنے خاندان سے بھی کوئی رابطہ نہیں ہے، خاندان کے باقی افراد کہاں ہیں کس حال میں ہیں وہ کچھ نہیں جانتی،

میں سوچتی ہوں بچے کو کیسے اور کہاں جنم دوں گی ہر طرف تو بمباری ہو رہی،نیوین
غزہ کے ریلیف کیمپ میں زندگی گزارے والی نیوین کہتی ہیں کہ میں سوچتی ہوں بچے کو کیسے اور کہاں جنم دوں گی، کسی بھی وقت اور کہیں بھی بمباری ہو رہی ہے، کوئی بھی جگہ محفوظ نہیں،ہمیں نہیں معلوم کب کہاں بم گرے اور سب کچھ ملیا میٹ ہو جائے،میں یقینی بنانے کی کوشش کروں گی کہ میں اور میرا بچہ محفوظ رہے،

الجزیرہ کے مطابق نیوین اکیلی اس مسئلے کا شکار نہیں بلکہ جنگ زدہ علاقوں میں 50 ہزار حاملہ خواتین ہیں، کئی ایسی ہیں جو حمل کے آخری ماہ میں ہیں اور انکا باقاعدگی سے معائنہ بھی نہیں کیا جا رہا، اقوام متحدہ کے پاپولیشن فنڈ کے مطابق تقریبا 50 ہزار حاملہ خواتین علاج معالجہ اور خوراک کی کمی کا شکار ہیں،

نیوین کا کہنا ہے کہ زخمیوں لاشوں کو دیکھتی ہوں تو خوفزدہ ہو جاتی ہوں، روز دعا کرتی ہوں کہ جنگ ختم ہو جائے تا کہ میرے دنیا میں آنے والے بچے کو میزائل حملوں سے بچایا جا سکے،خان یونس میں ناصر میڈیکل کمپلیکس کے شعبہ امراض نسواں کے میڈیکل کنسلٹنٹ ولید ابو حاتب کے مطابق نقل مکانی کی وجہ سے صحت کے مراکز تک رسائی بہت مشکل ہو گئی ہے،

وزارت صحت کی طرف سے فراہم کردہ تازہ ترین اعدادوشمارکے مطابق اسرائیلی بمباری سے غزہ کے کئی ہسپتال تباہ ہو چکے، اب غزہ میں 35 میں سے صرف 9 ہسپتال جزوی طور پر کام کر رہے ہیں،اسرائیلی حملوں میں اب تک 12 ہزار کے قریب شہری شہید ہو چکے جن میں ساڑھے چار ہزار بچے شامل ہیں، 29 ہزار سے زائد شہری زخمی ہیں،الشفاء ہسپتال میں 11 نومبر سے اب تک 3 قبل از وقت پیدا ہونے والے بچوں سمیت 40 مریضوں کی ایندھن کی کمی کے باعث موت ہوچکی ہے.

اسرائیلی حملوں میں طبی عملے کے 202 اور سول ڈیفنس کے 26 اراکین کی موت ہو چکی ہے، طبی عملے کے دو سو سے زائد اہلکار زخمی بھی ہوئے ہیں،1770 بچوں سمیت 3640 شہری لاپتہ ہیں، جن کے بارے میں خیال کیا جا رہا ہے کہ وہ اسرائیلی بمباری کے نتیجے میں گرنے والی عمارتوں کے ملبے تلے پھنسے، تاحال انکو نہیں نکالا جا سکا، گمان ہے کہ انکی موت ہو چکی ہو گی،اسرائیلی حملے میں دو لاکھ 76 ہزار گھر تباہ ہو چکے ہیں،اسرائیل نے فضائی حملوں میں 60 سے زائد ایمبولینس گاڑیوں کو نشانہ بنایا،

الجزیرہ کے مطابق ، الشفاء ہسپتال کے اطراف اور السرایا موڑ کی طرف جانے والے تمام راستوں میں صبح سے ہی جھڑپیں جاری ہیں.الصبر محلے اور شیخ رضوان محلے کے مغربی جانب بھی رات بھر جھڑپیں ہوتی رہیں،اس علاقے میں اسرائیل نے بمباری بھی کی،الشفا ہسپتال غزہ کے ڈائریکٹر کا کہنا ہے کہ ہم بہت ہی مشکل ترین حالات میں ہیں اور اس وقت گردوں کے مریض اپنی آخری سانسیں لے رہے ہیں ہم پیاس کے مارے چیخ رہے ہیں اور فوت ہو جانے والوں کو دفن کرنے سے قاصر ہیں،

الشفا ہسپتال کو تباہ کرنے پرسعودی وزارت خارجہ کا ردعمل سامنے آیا ہے، سعودی وزارت خارجہ کا کہنا ہے کہ اسرائیل سے شہریوں اورطبی عملے کے خلاف انسانی قوانین کی خلاف ورزیوں کا جواب طلب ہونا چاہئے، سعودی عرب اسرائیلی قابض افواج کی طرف سے بچوں، خواتین، شہریوں، طبی سہولیات اورامدادی ٹیموں کے خلاف مسلسل انسانی خلاف ورزیوں اورقابض فوج کی وحشیانہ اور غیرانسانی کارروائیوں کے نتیجے میں بین الاقوامی احتساب کے طریقۂ کارکوفعال کرنے کی ضرورت پرزوردیتی ہے.

دوسری جانب اسرائیلی فوج نے حماس کے سربراہ اسماعیل ہنیہ کے آبائی گھر پر بمباری کی ہے، غزہ کے علاقے الشطی مہاجر کیمپ میں اسماعیل ہنیہ کے خاندانی گھر پر بم برسائے گئے، اسرائیلی فوج نے ٹویٹر اکاؤنٹ پر ویڈیو شیئر کی اور دعویٰ کیا کہ اسماعیل کے گھر کو نشانہ بنایا گیا ہے،میڈیا رپورٹس کے مطابق جس گھر پر بمباری کی گئی اس گھر میں اسماعیل ہنیہ نے اپنا بچپن گزارا تھا،اسرائیلی فوج کے گھر پرحملے میں ہلاکتوں کے حوالے سے تصدیق نہیں ہوسکی۔

ہسپتال حملہ،اسرائیل کا انکار،اسلامک جہاد کو ذمہ دار قرار دے دیا

وائرل ویڈیو،حماس کے ہاتھوں گاڑی میں بندھی یرغمال لڑکی کون؟

اسرائیل کی طرف سے عالمی قوانین کی خلاف ورزی جاری ہے. فلسطینی صحافی

اسرائیل پر حماس کے حملے کا ماسٹر مائنڈ،ایک پراسرارشخصیت،میڈیا کو تصویر کی تلاش

اقوام متحدہ کا غزہ میں جنگ بندی کا مطالبہ

ہسپتال پر اسرائیلی حملہ ،جوبائیڈن کا دورہ اردن منسوخ

ہسپتال پر ‘اسرائیلی حملہ’ ایک ‘گھناؤنا جرم’ ہے،سعودی عرب

الاہلی ہسپتال پر حملے کا اسرائیل کا حماس پر الزام،امریکی اخبار نے اسرائیلی جھوٹ کو کیا بے نقاب

اسرائیلی حملے میں صحافی کے خاندان کی موت

Shares: