گناہ اور ان کی سزا انسان زمین پر اللہ کا ناٸب ہے ۔ جسے اللہ نے اشرف المخلوقات بنایا یےاور بہترین صورت پر پیدا کیا ہے ۔ اللہ نے انسان کو بنایا اور اسے فرشتوں سے سجدہ کروایا ۔ انسان کو سب سےاعلی مخلوق بنایا ۔ اسے سیدھا رستہ دیکھانے کے لیے ایک لاکھ چوبیس ہزار انبیا و رسل بھیجے ۔ حق اور براٸی کے راستے واضح کر دٸیے اور انسان کو اختیار دے دیا کہ چاہےتو وہ اچھاٸی کے راستے پر چلے اور چاہے تو براٸی کے راستے پر چل کر گمراہوں میں سے ہو جاٸے ۔اللہ تعالی نے انسان کو سمجھانے کی خاطر اپنے نیک بندوں کو دنیا میں بھی جزا دی اور آخرت میں بھی جزا کا وعدہ کیا ہے ۔ اسی طرح اللہ نے برے انسانوں کو دنیا میں بھی نشان عبرت بنایا اور آخرت میں بھی انہیں طرح طرح کی سزاٸیں دینے کے لیے جہنم کے احوال بیان کیے تا کہ انسان گمراہی سے بچ سکے ۔ لیکن انسان نے حق اور باطل کی پہچان ہونے کے بعد بھی خود کو نہ پہچانا ، اپنے دنیا میں آنے کے مقصد کو نہ پہچانا اور مسلسل گناہوں کے رستے پر چلتا رہا اور حق سے دور ہوتا گیا ۔ کبھی دنیاوی لالچ میں رشوت لی ، کبھی کسی کا حق مارا ، کبھی اعلی عہدے کے لیے سفارشوں کا سہارا لیا ، کبھی کسی کی زمین ہتھیا لی ، کبھی کسی کو نا حق قتل کر دیا ۔ کبھی کسی سے حسد کی بنیاد پر اسے دنیا والوں کی نظروں میں گرانے میں لگا رہا ، کبھی اپنے دلی سکون کی خاطر غیبت اور چغلیوں میں مشغول رہا ، اپنے گناہوں میں ایسا غرق ہوا کہ مسجد سے حی علی الفلاح کی صداٸیں بلند ہوتی رہی لیکن انسان نے اپنے رب کی طرف چند قدم چل کر کامیابی تک جانا گوارا ہی نہیں کیا ۔ اللہ نے انسان کو معاف کرنے کے لیے انسان کے مرنے تک توبہ کا درواہ کھلا رکھا ۔ اللہ اپنے بندے کی توبہ کا منتظر رہا کہ بندہ کسی طرح اللہ کی طرف آجاٸے ، توبہ کر لے ، معافی مانگ لے ، لیکن انسان آج کل ، آج کل کرتا اپنی دنیاوی ترقی کے پیچھے گناہوں کی دلدل میں گرتا چلا گیا ۔ یہاں تک کہ اسے توبہ کا خیال ہی نہ آیا ۔ توبہ کا خیال آتا بھی تو کیسے ؟ انسان تو گناہوں میں اتنا غرق ہو گیا کہ اسے گناہ کا احساس تک نہ رہا ، اسے اپنا گناہ ، گناہ ہی نہ لگا ۔ اسی لیے کہتے ہیں کہ گناہ کی سب سے بڑی سزا یہ ہے کہ انسان کو گناہ ، گناہ ہی نہیں لگتا ۔ اگر انسان کو گناہ کا احساس ہو تو وہ کبھ نہ کبھی توبہ ضرور کر لیتا ہے ،کبھی نہ کبھی اپنے گناہ پر شرمندہ ضرور ہو جاتا ہے ، کبھی نہ کبھی ڈر کر اللہ سے خوف زدہ ہوکر اپنے گناہ پر توبہ کر لیتا ہے ۔ لیکن جب گناہ ، گناہ ہی نہیں لگتا تو پھر توبہ کیسی ؟ جب گناہ کا احساس ہی نہ رہا تو توبہ کیوں کرتا ، جب گناہ پر فخر محسوس ہونے لگا تو پھر توبہ کا سوال ہی کیسے پیدا ہو ؟ گناہ ہر ایک سے ہوتے ہیں کیونکہ انسان خطا کا پتلا ہے ۔ اگر گناہ نہ ہوتے تو اللہ توبہ کا بھی کبھی حکم نہ دیتا ۔ توبہ کا رستہ بھی نہ دیکھاتا ۔ انسان کو چاہیے کہ گناہ ہو جاٸے تو اس پر فخر کرنے کی بجاٸے اللہ سے معافی مانگ لے بیشک اللہ اپنے بندے کی توبہ کا انتظار کرتا رہتا ہے کہ کب اس کا بندہ توبہ کرے اور اللہ اسے فورا معاف کر دے ۔ اللہ ہم سب کو اپنے گناہوں کو گناہ سمجھنے کی توفیق دے اور جو گناہ ہو چکے ان پر توبہ کی توفیق دے ۔ آمین تحریر : @ch__samina








