غربت اور اس سے جڑے نفسیاتی مسائل  تحریر: نعمان سرور

چند دن قبل ایک خبر میڈیا کی زینت بنی کے ایک شخص نے اپنے تین بچوں کو کنویں کے اندر پھینک کر قتل کر دیا اور پھر خود بھی خودکشی کر لی جب اس بات کی حقیقت سامنے آئی تو وجہ غربت نکلی، آجکل ایسے واقعات بہت زیادہ سنائی دیتے ہیں

سندھ مینٹل ہیلتھ اتھارٹی کی جانب سے شائع ہونے والی ایک رپورٹ میں تھرپارکر میں خودکشی اور ذہنی امراض کی شرح میں بہت زیادہ اضافہ ہوا ہے تھرپارکر کا شمار پاکستان کے ان علاقوں میں ہوتا ہے جہاں غربت بہت زیادہ ہے۔

ایشیائی ترقیاتی بینک کی رپورٹ چونکا دینے والی ہے اس میں انکشاف کیا گیا ہے کے اس علاقے میں خودکشی کرنے والے زیادہ تر افراد کی اوسط عمر 10-20 سال ہے جبکہ ملک کے دوسرے حصوں میں یہی شرح 20-35 ہے اب سوچنے کی بات یہ ہے کے  غریب طبقہ کے نوجوان اپنی جان کیوں لے رہے ہیں اور ہم اسے روکنے کے لیے کیا اقدامات کر سکتے ہیں؟

ایشیائی ترقیاتی بینک کا اندازہ ہے کہ تقریبا ایک چوتھائی پاکستانی غربت کی لکیر سے نیچے زندگی بسر کر رہے ہیں۔

یہ لوگ اپنے حالات سے تنگ آ کر ایسے اقدامات کرنے پر مجبور ہو جاتے ہیں جس کی بڑی وجہ تعلیم کا نہ ہونا اور ان کو معاشرتی اور معاشی انصاف نہ ملنا ہے جب معاشرے میں ایسی تقسیم ہوتی ہے جو کے انصافی پر مبنی ہو تو اس کے اثرات بچوں کی نفسیات پر پڑتے ہیں جس پر آج تک توجہ نہیں دی گئی، وزیراعظم پاکستان نے بچوں کو خوراک کی فراہمی پر توجہ دینے کے لئے اقدامات کرنے کا عندیہ دیا تھا مگر اب وقت ہے عملی اقدامات کرنے کا۔

تحقیق سے پتہ چلتا ہے کہ غربت سے وابستہ افراد جب معاشرے میں ناانصافی دیکھتے ہیں تو اس کا بڑا اثر ان کی ذات پر پڑتا ہے سوشل میڈیا تک رسائی نے اس فرق کو اور زیادہ بڑھا دیا ہے سوشل میڈیا کے زریعے ایکٹر،مشہور لوگ،سیاستدان اپنی نجی زندگی کی آسائشوں سے بھری تصاویر جب اپلوڈ کرتے ہیں تو یہ انٹرنیٹ کے ذریعے غریب لوگوں تک جاتی ہے جس سے ان میں احساس کمتری ، ناراضگی ، مایوسی کو جنم دیتی ہیں۔ اور وہ نوجوان اس کا موازنہ اپنی زندگی سے کرنے لگتے ہیں اگر ان کو اچھی تعلیم دی جائے تو ان کو سوچ ان چیزوں پر مثبت طریقے سے غوروفکر کرے۔

نفسیاتی مسائل کے نتیجے میں غربت میں رہنے والے نوجوانوں کے لیے بے شمار مسائل پیدا ہوتے ہیں۔ 

جب غربت میں ڈوبا شخص یہ تمام عیش و عشرت دیکھتا ہے جو اسے میسر نہیں ہوتی لیکن دوسروں کو میسر ہوتی ہے تو اس کی سوچ کا دائرہ محدود ہوجاتا ہےجس کے نتیجے میں ناقص تعلیمی کارکردگی ، ابتدائی اسکول چھوڑنے اور مثبت سرگرمیوں کی دوری جنم لیتی ہے۔

جس کی وجہ سے ان نوجوانوں کی سوچ منفی ہو جاتی ہے اور وہ روزگار اور آسائش حاصل کرنے کے ہر اچھے برے طریقے کے بارے میں سوچنے لگتے ہیں خراب معاشی حالات اور روزگار کے مواقع کی کمی ان مسائل کو مزید پیچیدہ بنا دیتی ہے۔

انہیں وجوہات کی بنا پر نوجوان اکثر غیر صحت مندانہ رویوں کا سہارا لیتے ہیں جیسے نشہ آور چیزیں ، جو کہ وقت کے ساتھ مسلسل بڑھ رہی ہیں مبینہ طور پر پاکستان میں منشیات روزانہ 700 جانیں لیتی ہیں ، اور خودکشی اس کے علاوہ ہے۔

جو نوجوان ان مسائل کا شکار ہو جاتا ہے اس میں غصہ بڑھ جاتا ہے جس سے گھریلو تشدد اور طلاق کے مسائل دن بدن دیکھنے میں آ رہے ہیں یہ سب نفسیاتی مسائل کی وجہ سے ہو رہا ہے۔

ایک حالیہ تحقیق کے مطابق جیلوں میں 85 فیصد مرد قیدی ڈپریشن کا پائے گئے ۔ 

ان کا حل کیسے ممکن ہے ؟؟

حکومت وقت کی زمہ داری ہے کے وہ ان غریب نوجوانوں کو مالی بااختیار بنانے میں اپنا کردار ادا کرے، غربت کے خاتمے کے پروگراموں کو شروع کیا جائے، زہنی صحت کے حوالے سے تعلیم دی جائے اور بچوں کو سکول لیول پر ہی ان کی دماغی جانچ کی جائے کے وہ کیا سوچ رہے ہیں کیسے حالات سے گزر رہے ہیں۔

نفسیاتی مسائل کو حل کرنے کا بہترین وقت جلد از جلد ہے۔ ابتدائی سراغ لگانا اور جلد حل کرنا ہی اس کا علاج ہے ، پاکستان میں پہلے سے ہی بنیادی ہیلتھ یونٹس کا ایک وسیع نیٹ ورک موجود ہے جو دیہی علاقوں میں بنیادی دیکھ بھال فراہم کرتا ہے۔ اگر ذہنی صحت کی خدمات کو اس نظام میں شامل کیا جاتا ہے تو بہت سے نوجوان ان ہیلتھ یونٹس کے زریعے اپنے مسائل کا حل پا سکتے ہیں اور سکولوں کی سطح پر بھی بچوں کی دماغی نشونما کی جانچ کی اشد ضرورت ہے۔

مزید برآں ، تحقیق سے پتہ چلا ہے کہ جو ملک اپنے نوجوانوں کی نفسیات پر ایک 1000 روپے خرچ کرتا ہے یہی نوجوان بعد میں ملک کی پیداواری صلاحیت میں 5000 روپے کا اضافہ کرتے ہیں جس سے ثابت ہوتا ہے کہ یہ خرچہ کسی قوم پر بوجھ نہیں بلکے آمدن ہے اور نیکی بھی ہے۔

اللہ تعالی ہم سب کو ہامی و ناصر ہو آمین۔

ٹویٹر اکاؤنٹ

@Nomysahir

Comments are closed.