ہمارا گوردوارہ سری دربار صاحب کرتار پور جانے کا ارادہ ایک مدت سے تھا، اور آخرکار وہ دن آ گیا جب ہم نے یہ سفر کرنے کا فیصلہ کیا۔ ہم سب صبح جلدی اٹھے، تاکہ سفر کی تھکاوٹ کم ہو اور وقت پر پہنچ سکیں۔ صبح نو بجے تک ناشتہ کر کے ہم نے تیاری شروع کی اور پھر ظفروال، ناروال، اور شکرگڑھ کے راستوں سے ہوتے ہوئے گوردوارہ کرتار پور روانہ ہو گئے۔
ظفروال، ناروال، اور شکرگڑھ کے راستوں پر سفر کرتے ہوئے سرسبز کھیت، پھلوں کے باغات، اور پرانی طرز کے گھر ہمیں دیہاتی زندگی کا گہرا منظر دکھا رہے تھے۔ یہاں کے لوگ سبزیاں شوق سے اگاتے تھے، اور چارا کاٹ کر گدھوں پر لے جا رہے تھے۔ ان کے روزمرہ کے معمولات میں سادگی اور محنت کی جھلک صاف نظر آتی تھی۔ ہم نے راستے میں امرود کے تازہ باغات بھی دیکھے، اور وہاں سے تازہ اور رس دار امرود خریدے جو سفر کی تھکاوٹ دور کرنے کے لیے بہت خوشگوار ثابت ہوئے۔
دربار کے قریب پہنچتے ہی پنجاب پولیس کی طرف سے جگہ جگہ سکیورٹی چیکنگ کا آغاز ہو گیا۔ مختلف ناکوں پر ہمیں روکا گیا، اور شناختی کارڈ کی جانچ کی گئی۔ جہاں ہم نے اپنی گاڑی پارک کی اور میڈیسن اور بیگ بھی وہی چھوڑیں اسلئیے آپ سے گزارش ہے۔ کہ جب بھی آپکا گوردورا جانے کا اردہ ہو تو سوائے پیسوں کے ساتھ کوئی بھی قیمتی اشیا نہ لے جائیں چھری قینچی وغیرہ بھی گاڑی میں نہ ہو اور ہم نے ٹکٹس خریدے اور اندر جانے کے لئے تیار تھے، لیکن میرے نانو کے پاس شناختی کارڈ نہیں تھا، جس کی وجہ سے ہمیں خاصا دیر انتظار کرنا پڑا۔ تاہم، ان کی بزرگ حالت پر رحم کرتے ہوئے ہمیں اندر جانے کی اجازت دے دی گئی۔ یہ ایک اچھی بات تھی کہ انتظامیہ اہلکاروں نے انسانیت کو مقدم جانا۔
اس کے بعد ہمیں ایک خصوصی گاڑی کے ذریعے گوردوارہ سری دربار صاحب کرتار پور لے جایا گیا، اور قدم رکھتے ہی یہاں کی روحانیت اور سکون سے ہم سب دل کے محظوظ ہوئے۔ گوردوارہ کی عمارت نہایت خوبصورت تھی اور اس کی صفائی دیکھ کر دل خوش ہو گیا۔ ہر طرف سفید سنگ مرمر سے بنی عمارتیں نظر آ رہی تھیں، جو ایک محل کا منظر پیش کر رہی تھیں۔ اس کے ساتھ ساتھ، گوردوارہ کے ارد گرد باغات اور تصویریں بھی اس کے جمال کو مزید نکھار رہی تھیں۔ یہ جگہ نہ صرف روحانیت سے بھری ہوئی تھی، بلکہ اس کی عمارت اور مناظر بھی دل کو سکون پہنچانے والے تھے۔پاکستان کے وزیرِ اعظم عمران خان نے 2019 اپنے دور حکومت میں گرودوارہ دربار صاحب کرتار پور کی نئے سرے سے تعمیر اور انڈین یاتریوں کے لیے تیار کی گئی راہدرای کا افتتاح وزیراعظم عمران خان کے حکم پر ہوا۔وزیر اعظم پاکستان عمران خان نے کہا تھا کہ مجھے خوشی ہے کہ کرتارپور سرحد کھول کر سکھوں کے دل خوشیوں سے بھر دے گا اور وہی ہوا۔اس تقریب میں انڈیا کے سابق وزیر اعظم منموہن سنگھ، نوجوت سنگھ سدھو اور اداکار سنی دیول سمیت بڑی تعداد میں سکھ یاتری موجود تھے۔وزیراعظم عمران خان نے کہا تھاکہ جب سکھ برادری کی بات ہوتی ہے تو ہم انسانیت کی بات کرتے ہیں، نفرتیں پھیلانے کی بات نہیں کرتے۔ ’ہمارے نبی پاک ص نے انسانیت کی بات کی۔‘
گوردوارہ کے اندر پہنچ کر ہم نے لنگر خانہ کا رخ کیا، جہاں کھانے کی تیاری ہو رہی تھی۔ یہاں کی ایک خاص بات یہ تھی کہ امیر و غریب کے درمیان کوئی فرق نہیں رکھا جاتا تھا۔ ہم نے اپنے برتن اٹھائے، جو بڑی صفائی سے رکھے گئے تھے، اور کھانے کا انتظار کیا۔ لنگر خانہ میں سب کو یکساں سلوک ملتا ہے، اور یہی بات انسانیت کی اصل حقیقت کو ظاہر کرتی ہے۔ کھانے لیتے وقت روٹی دونوں ہاتھوں سے لینے کی رسم بھی تھی، جو عاجزی اور احترام کی علامت ہے۔ یہ منظر میرے دل میں ایک گہرا تاثیر چھوڑ گیا۔کیا آپ نے کبھی غور کیا کہ جب ہم کوئی چیز دونوں ہاتھوں سے لیں تو تب ہمیں اپنی ” میں ” کو مار کر اپنے غرور کو اپنے پاؤں تلے روندھ کر نہایت انکساربننا پڑتا ہے۔
کھانے کے بعد، ہم نے لنگر خانہ میں بیٹھ کر چائے پی، جو بہت لذیذ تھی۔ چائے کے دوران ہم نے اس جگہ کی روحانیت اور یہاں کے لوگوں کی محبت و بھائی چارے کا احساس ہوا۔ ایک خاص بات یہ تھی کہ یہاں سب لوگ ایک دوسرے کے ساتھ بے تکلف اور محبت سے بات کرتے تھے، چاہے وہ بھارتی ہوں یا پاکستانی، سکھ ہوں یا مسلمان۔
اس دوران ہماری ملاقات ایک بھارتی یاتری، رگجیت سنگھ سے ہوئی۔ وہ بہت خوش اخلاق اور خوش مزاج شخص تھے، انھوں نے نانو اور ماما سے اپنے انداز میں سلام لی اور پیروں کو چھو کر کہا ” پیر پینا ما جی "یہ انداز بہت احترام والا تھا اور انھوں نے میرے بیٹے نادعلی کو اپنے ساتھ گھومتے ہوئے گوردوارہ کے مختلف حصوں کا دورہ کروایا۔ رگجیت سنگھ نے ہمیں اپنی زندگی کی کچھ باتیں سنائیں۔ اس نے بتایا کہ اس نے اپنی پسند سے شادی کی، حالانکہ اس کے خاندان والے اس کے فیصلے سے متفق نہیں تھے۔ لیکن آٹھ سال کی محنت اور محبت کے بعد وہ اپنے خاندان کو قائل کرنے میں کامیاب ہو گیا۔پھر اس نے اپنی بیوی اور بہنوں سے ہماری ویڈیوکال پر بات کروائی۔وہ سب بہت اخلاق کی مالک خواتین تھی۔
رگجیت سنگھ نے انڈیا کے بارے میں بھی کچھ معلومات دیں۔ جب میری نانو نے پوچھا تو اس نے بتایا کہ انڈیا میں سونے کی قیمت تقریباً بہتر ہزار روپے فی تولہ ہے، جب کہ پاکستان میں سونا دو لاکھ روپے سے زائد فی تولہ ملتا ہے۔ اس نے یہ بھی کہا کہ انڈیا سے پاکستان آتے وقت انھیں سختی سے کہا گیا تھا کہ پاکستانیوں سے کسی بھی قسم کی خرید و فروخت نہ کریں اور اپنے سامان پر نظر رکھیں، کیونکہ انڈیا میں پاکستانیوں کے بارے میں بعض لوگ منفی تصورات رکھتے ہیں۔ لیکن وہ ہم پاکستانیوں کے بارے میں بہت اچھے خیالات رکھتے تھے اور ہمارا استقبال انتہائی محبت سے کیا تھا۔
ہم نے گوردوارہ کے اندرونی حصے کا بھی دورہ کیا، جہاں سکھ یاتری گورو نانک کے دربار پر ماتھا ٹیکنے میں مصروف تھے۔ گوردوارہ کے دربار میں سکھ یاتری اپنے عقیدت کے ساتھ عبادت کر رہے تھے اور گورو نانک کی تعلیمات پر عمل کر رہے تھے۔ اس روحانی ماحول میں بیٹھ کر ہمیں ایک خاص سکون اور اطمینان محسوس ہوا۔
گوردوارہ کی عمارت کا منظر بہت دلکش تھا۔ اس کی سفید سنگ مرمر کی عمارتیں ایک محل کی طرح نظر آ رہی تھیں، اور پورا منظر ایک شاندار ورثے کی عکاسی کر رہا تھا۔ ہم نے یہاں تصویریں بنائیں یہاں کا سکون اور آہستہ آہستہ گزرنے والا وقت اس بات کا غماز تھا کہ اس جگہ کی حقیقت محض ایک عمارت نہیں، بلکہ ایک روحانی مرکز ہے جہاں گورو نانک کے پیروکار اپنے دل کو سکون پہنچانے کے لیے آتے ہیں۔
یہ سفر ہمارے لیے ایک انتہائی یادگار تجربہ تھا۔ نہ صرف ہم نے گوردوارہ کی روحانیت کو محسوس کیا، بلکہ دو مختلف ملکوں کے لوگوں کے درمیان محبت، احترام اور بھائی چارے کا حقیقی مظاہرہ بھی دیکھنے کو ملا۔ اس سفر نے ہمیں یہ سکھایا کہ انسانیت کی بنیاد محبت اور احترام پر ہے، اور یہاں کے لوگ اس بات کا زندہ نمونہ ہیں۔
عینی ملک