اعلان نبوت سے پہلے ہمارے نبی حضرت محمد صلی اللہ علیہ والہ وسلم نے اخلاق کے ذریعے لوگوں کو اپنی طرف متوجہ کیا یہی وجہ تھی کہ دشمنان اسلام بھی آپ صلی اللہ علیہ والہ وسلم کے گرویدہ ہوگئے اور آپ کو صادق و امین کے القابات سے پکارنے لگے. بعثت سے پہلے آپ صلی اللہ علیہ والہ وسلم نے اخلاق کی تبلیغ کی. آدابِ گفتگو، لوگوں سے اچھا رویہ، عہد وفا کرنے اور سچ بولنے کی تربیت فرمائی. اور اسی اخلاق ہی کا نتیجہ تھا کہ آپ صلی اللہ علیہ والہ وسلم نے جب اعلان نبوت کیا تو لوگوں نے دعوت حق کو تسلیم کرنا شروع کیا. آپ اخلاق کے بلند ترین درجہ پر فائز تھے اور ہمارے لئے نمونہ عمل ہیں. حضرت محمد صلی اللہ علیہ والہ وسلم نے فرمایا "تم میں سے سب سے اچھا وہ ہے جو اخلاق میں سب سے اچھا ہے”.
لیکن بدقسمتی سے آج ہمارے معاشرے میں حسن اخلاق کا بحران نظر آتا ہے. ہم اپنی اخلاقی اقدار اور اسلامی تعلیمات کو بھول گئے. ہمارے معاشرے میں عدم برداشت، جھوٹ، وعدہ خلافی، گالم گلوچ اور بہتان بازی جیسے عناصر سرایت کر گئے ہیں. نوجوان نسل سوشل میڈیا اور انٹرنیٹ کے ذریعے بے راہ روی کا شکار ہے. خواتین کی عزت و عصمت غیر محفوظ اور بے حیائی کا بازار گرم ہے. ہم نے اپنے خود احتسابی کے بجائے دوسروں پر انگلیاں اٹھانا شروع کر دیں گالم گلوچ کا کلچر اور دوسروں پر کیچڑ اچھالنا معمول بن گیا. مذہبی یا سیاسی اختلافات کی بنیاد پر پر ہم نے ایک دوسرے کو برا بھلا کہنا شروع کر دیا حالانکہ اپنی بات صبر و تحمل اور منطق و دلیل سے بھی سمجھائی جا سکتی ہے. جمہوریت میں بے شک آپ کو تنقید کا حق ہے لیکن اخلاق کے دائرے میں رہ کر آپ تنقید برائے اصلاح کریں نا کہ اگر آپ کو کوئی حکومتی پالیسی یا فیصلہ اچھا نہیں لگتا تو گالم گلوچ شروع کر دیں.
زندگی گزارنا سب کا آئینی و اسلامی حق ہے، ان کو حق حاصل ہے کہ وہ کسی بھی سیاسی یا مذہبی مکتب فکر سے منسلک ہوں. ہمیں اس سے کوئی غرض نہیں ہونی چاہیے کہ وہ کیا کھاتے ہیں یا کیا پہنتے ہیں، یہ ان کے ذاتی معاملات ہیں اور انہوں نے خود ہی فیصلہ کرنا ہے. بغیر حقائق جانے ہم نے دوسروں کی ذاتی زندگی پر بھی تبصرہ کرنے شروع کر دئے جو کہ نا صرف ناانصافی ہے بلکہ اسلامی تعلیمات کے بھی منافی ہے. یہ سب چیزیں کبھی بھی اسلامی معاشرے کو زیب نہیں دیتیں.
ہمیں اپنی کھوئی ہوئی اخلاقی اقدار کو واپس لانے کی ضرورت ہے. ہمیں اُس عصرِ مصطفیٰ کی تعلیمات پر عمل پیرا ہونے کی ضرورت ہے جس کی دشمن بھی تعریف کیا کرتے تھے. ایک سچا مسلمان، اسلامی ریاست کا زمہ دار شہری اور اسلامی معاشرے کا فرد ہونے کی حیثیت سے ہم پہ فرض ہے کہ ہم حُسنِ اخلاق کا دامن ہاتھ سے نہ چھوڑیں. منظم، با ادب اور تہذیب و ترقی یافتہ اقوام کی فہرست میں شامل ہونے کے لیے ہم اخلاق کو اپنانا ہو گا جو ہمارے پیارے نبی صلی اللہ علیہ والہ وسلم نے سکھائے ہیں.
Shares: