مزید دیکھیں

مقبول

یقینی بنایا جائے کہ کوئی بھی منافع خور سزا سے بچ نہ پائے،وزیراعظم

اسلام آباد: وزیراعظم نے رمضان المبارک میں اشیاء خوردونوش...

ہر میدان میں کامیاب اور باہمت،بلوچ خواتین،اک مثال

بلوچ خواتین نہ صرف بلوچستان بلکہ پورے پاکستان کا...

حقوقِ نسواں اسلام امن و سلامتی کا دین ہے ‏تحریر: چوہدری عطا محمد

اس کا مقصد دنیا میں عدل و انصاف کے ابدی اصولوں پر مبنی ایسا نظام قائم کرنا ہے جس میں ہر حق دار کو اس کا پورا حق ملے اور کوئی کسی پر ظلم نہ کرسکے۔ تاکہ اولاد آدم اس دنیا میں حیات ِ مستعار کے لمحات امن و سکون سے بسر کرسکے۔ اسلام کے اس نظام کی بنیاد انسانی مساوات پر مبنی ہے۔ اسلام کی آمد سے قبل عورت بہت مظلوم اور سماجی عزت و احترام سے محروم تھی۔ اسے تمام برائیوں کا سبب اور قابل نفرت تصور کیا جاتا تھا۔ اسلام کی آمد عورت کے لیے غلامی، ذلت اور ظلم و استحصال کے بندھنوں سے آزادی کا پیغام تھی۔ اسلام نے ان تمام قبیح رسوم کا قلع قمع کردیا جو عورت کے انسانی وقار کے منافی تھی اور عورت کو وہ حقوق عطا کیے جس سے وہ معاشرے میں اسی عزت و تکریم کی مستحق قرار پائی جس کے مستحق مرد ہیں۔
‏اسلام نے حقوقِ نسواں پے بہت زوردیا ہے کیونکہ اسلام سے پہلے بیٹی کے پیدا ہونے پے سوگ منایا جاتا تھا اور اسے زندہ درگور کر دیا جاتا ہے اور ان کی عزت کو سرِ عام نیلام کیا جاتا تھا بولیاں لگاٸی جاتی تھی یا یہ کہنا بجا ہو گا کہ جنسی حوس کو پورا کرنے کے لیے درندوں کی طرح روندھا جاتا تھا فر ایک ایسی ہستی کا نزول ہوا جن کو دونوں جہاں کے لیے رحمت العلمین ﷺ بنا کے بھیجا گیا جن کے آنے سے ہر طرف نور ہی نور چھا گیا
‏آپﷺ نے ہر زی النوع کے لیے حق کی آواز کو بلند کیا اللہ کے یکتا ہونے کا درس دیا عورت کو خدا کا ایک خوبصورت تحفہ قرار دیا اور حقوقِ نسواں کا متعین کیا اور ورثے میں عورت کا حق مقرر کر دیاگیااور سب سے بڑا تحفہ یہ دیا عورت کو کہ ماں کی صورت میں
‏جنت ماں کے قدموں تلے رکھ دی
‏عورت کو پاؤں کی جوتی کی بجائے گھر کی مالکہ اور رفیقۂ حیات کا اعزاز بخشا اور اس کا نان نفقہ خاوند کی ذمے داری قرار دیا۔ اسلام نے عورت کو ماں، بہن، بیٹی اور بیوی ہر لحاظ سے بلند مقام عطا کیا ہے۔ یہ اسلام ہی ہے جس نے تاریخ میں پہلی بار عورت کو مرد کے مساوی حقوق دینے کا اعلان کیا۔ یہ فقط دعویٰ نہیں ہے بلکہ یہ حقیقت اظہر من الشمس ہے کہ اسلام جدید معاشرے کی عورت کو بھی وہی حقوق، عزت و وقار، عزت نفس اور پاکی و طہارت عطا فرماتا ہے جو اس نے زمانۂ قدیم کی عورت کو عطا کرکے اسے زمین کی پستیوں سے اٹھا کر اوج ثریا تک پہنچا دیا۔

‏قرآن حکیم و حدیث نبویؐ میں عورت کی چار حیثیتوں کا بیان ہے

‏(1) ماں (2) بہن (3) بیوی (4) بیٹی

‏اسلام نے ماں کی حیثیت سے عورت کا مقام اس قدر بلند کیا ہے کہ معاویہ بن جاہمہؓ سے روایت ہے کہ رسول اکرمؐ کی خدمت میں میرے والد حاضر ہوئے کہ یا رسول اﷲ ﷺ میں چاہتا ہوں کہ جہاد کروں اور آپؐ سے مشورہ کرنے کے لیے حاضر ہوا ہوں۔ آپؐ نے فرمایا کہ تمھاری ماں زندہ ہے، عرض کی کہ زندہ ہے، تو آپؐ نے فرمایا کہ تو اسی کے ساتھ رہو، اس لیے کہ جنت ماں کے پاؤں کے نیچے ہے۔ (نسائی)

‏حضرت ابوہریرہ ؓ سے روایت ہے کہ ایک شخص نے رسول اکرمؐ سے دریافت کیا کہ یا رسول اﷲ ﷺ میرے حسن سلوک کاسب سے زیادہ مستحق کون ہے؟ تو آپ ؐ نے تین مرتبہ فرمایا کہ تیری والدہ اور چوتھی مرتبہ فرمایا کہ تیرا والد۔ (بخاری)

‏اس روایت سے معلوم ہوا کہ باپ کے مقابلے میں ماں کی حیثیت و مرتبہ استحقاقِ خدمت میں تین گنا زیادہ ہے۔ اگر ماں کافر بھی ہو تو اس سے حسنِ سلوک کرنے کا حکم ہے۔ 

‏قرآن کریم میں جہاں عورت کے دیگر معاشرتی و سماجی درجات کے حقوق کا تعین کیا گیا ہے وہاں بطورِ بہن بھی اس کے حقوق بیان فرمائے ہیں۔ بطور بہن، عورت کی وراثت کا حق بڑی ہی تفصیل کے ساتھ ذکر کیا۔ اسلام کی آمد سے پہلے بیٹی کی پیدائش کو ذلت و رسوائی کا سبب قرار دیا جاتا تھا۔ آپؐ نے بیٹی کو احترام و عزت کا مقام عطا کیا۔ اسلام نے نہ صرف معاشرتی و سماجی سطح پر بیٹی کا مقام بلند کیا بل کہ اسے وراثت کا حق د ار بھی ٹھہرایا۔ قرآن کریم میں اﷲ تعالیٰ نے نسل انسانی کے تسلسل و بقا کے لیے ازدواجی زندگی اور خاندانی رشتوں کو اپنی نعمت قرار دیا ہے۔ اس کے ساتھ ہی بیوی کے رشتے کی اہمیت اور اس سے حسن سلوک کی تاکید فرمائی ہے ۔

‏ارشاد ربانی ہے ’’ اور ان سے اچھا برتاؤ کرو پھر اگر وہ تمہیں پسند نہ آئیں تو قریب ہے کوئی چیز تمہیں ناپسند ہو، اور اﷲ نے اس میں تمہارے لیے بہت بھلائی رکھی ہو۔

‏(سورۃ النساء)

‏رسول اکرمؐ نے بھی بیوی سے حسن سلوک کی تلقین فرمائی۔ احادیث مبارکہ کا مطالعہ کیا جائے تو مختلف واقعات سے معلوم ہوتا ہے کہ آپؐ نے اپنی ازواج مطہراتؓ سے عملی طور پر بہت سے مواقع پر دل جوئی فرمائی۔ رسول اکرمؐ حضرت عائشہؓ کے ساتھ کبھی دوڑ لگا رہے ہیں او ر کبھی ان کو حبشیوں کے کھیل (تفریح) سے محظوظ فرما رہے ہیں۔ حضرت عائشہؓ سے روایت ہے کہ وہ رسول اکرم ؐ کے ساتھ سفر میں تھیں فرماتی ہیں کہ میں اور آپؐ دوڑے، تو میں آگے نکل گئی تو پھر دوبارہ جب میں اور آپؐ دوڑے، تو آپؐ آگے نکل گئے۔ تو آپؐ نے فرمایا کہ یہ اس کا بدلہ ہے تُو پہلے آگے نکل گئی تھی۔ یعنی اب ہم برابر ہوگئے۔ (ابوداؤد)
‏اللہ تعالی ﷻ نے عورت کو ایک اعلیٰ مقام پے فاٸز کر دیا اور عورتوں کے حقوق کے لیے اپنی پیاری کتاب قرآنِ مجید میں سورہ النسا نازل کر دی جس میں عورتوں کے لیے معاشی سماجی حقوق کے علاوہ مرد کے شانہ بشانہ اور برابر کے حقوق ادا کردیٸے
‏اگر قرآن و حدیث کا مطالعہ کیا جائے تو یہ بات روزِ روشن کی طرح عیاں ہے کہ خواتین کے انفرادی حقوق، عائلی حقوق، ازدواجی، معاشی اور دیگر حقوق کو بڑی تفصیل سے ذکر کیا گیا ہے۔ مختصر یہ کہ عورتوں کو عزت و تکریم عطا کی ہے۔ عورت کو اپنی پسند سے شادی کرنے کا اختیار ہے، وہ اپنے نام جائیداد خرید سکتی ہے اور اپنی ملکیت میں رکھ سکتی ہے۔ اسے اپنے خاندان، خاوند اور دوسرے قریبی رشتے داروں سے وراثت میں حصہ ملتا ہے۔ جس طرح مرد کو طلاق دینے کا اختیار ہے اسی طرح عورت کو خلع کے ذریعے نکاح تحلیل کرنے کا مکمل اختیار دیا گیا ہے۔

‏اسلام نے انسان ہونے کے ناتے سے مرد اور عورت کو برابر کے حقوق دیے ہیں۔ جس طرح مردوں کے حقوق عورتوں پر ہیں اسی طرح عورتوں کے حقوق مردوں پر ہیں۔ لہٰذا جو ﷲ تعالیٰ ﷻاور رسول اکرمﷺ نے خواتین کو حقوق دیے ہیں ان کے حقوق کی پاس داری کرنا ہمارا اولین مذہبی فریضہ ہے۔ حقوق نسواں کے حوالے سے خطبہ حجّۃ الوداع کے موقع پر رسول اکرمﷺ نے ارشاد فرمایا ’’خبردار تمہاری عورتوں کے ذمے تمہارا حق اور تمہارے ذمے تمہاری عورتوں کے حقوق ہیں۔ عورتوں کے حق یہ ہیں کہ انہیں اچھا لباس پہناؤ اور اچھا طعام کھلاؤ۔
‏ایسی ہزاروں احادیث ہیں جن میں عورتوں کے حقوق متعین کر دیٸے گٸے ہیں اسلام تمام ادیان سے بہتر دین ہے
‏جہاں دین اسلام نے حقوقِ نسواں کے لیے روزِ ازل سے آواز بلند کی وہاں دنیا میں ایسے خدا ترس لوگ بھی موجود ہیں جو خواتین کے حقوق کے لیے سر گرم ہیں ان میں ایک شخصیت کا زکر میں کرتی جاٶں گی
‏یوجین ہنگ
‏ایسی شخصیت ہیں جن کو حقوقِ نسواں کا حامی ہونے
‏ پر بہت فخر ہے۔
‏وہ کیلیفورنیا میں ریاضی کے ٹیچر ہیں۔ وہ کہتے ہیں کہ چودہ برس پہلے جب اُن کی بیٹی پیدا ہوئی تو اُس وقت وہ یہ سوچ کر ذہنی کشمکش میں پڑ گئے کہ یہ دنیا لڑکیوں کے لیے کیسے ہو گی؟

‏اُس وقت اُن کے ذہن میں یہ بات آئی کہ یونیورسٹی میں اُن کے ساتھ پڑھنے والی لڑکیوں پر کیا گزرتی ہوگی جو تنہا لائبریری سے گھر واپس جاتے ہوئے اپنے آپ کو محفوظ نہیں سمجھتیں۔

‏ہنگ نے بی بی سی کو بتایا کہ ‘اُنھیں اپنے عدم تحفظ کے احساس کے ساتھ جینا پڑتا تھا مگر مجھے ایسے مسائل کا سامنا نہیں تھا۔ مجھے اُس وقت اس بات کا احساس ہوا کہ مجھے معاشرے میں کتنا امتیاز حاصل ہے اور میں اس سے بالکل بے خبر تھا۔’
‏’ایک مرد کی حیثیت سے میں ان سب باتوں کو اپنے لیے معمول کی باتیں سمجھتا تھا۔’
‏اُن کے اندر احساس کی بیداری نے اُنھیں عورتوں کے حقوق کے لیے کام کرنے والا ایک سرگرم کارکن بنا دیا۔ اُنھوں نے ‘فیمینسٹ ایشیئن ڈیڈ’ کے نام سے ایک بلاگ شروع کیا جس کا مقصد عورتوں کو معاشرے میں با اختیار بنانے کے بارے میں آواز اُٹھانا تھا۔

‏ہنگ اپنے بلاگ میں مختلف چیزوں پر بات کرتے ہیں جن میں ڈِزنی کی انیمیٹڈ فلم ’مُلان‘ جس میں ایک طاقتور عورت مرکزی کردار ادا کرتی ہے اور کملا ہیرِس امریکہ کی پہلی سیاہ فام خاتون نائب صدر کے انتخاب جیسے موضوعات شامل ہیں۔
‏المختصر کہ اسلام نے جو حقوق عورتوں کے لیے واضع کیے ہیں انکو تسلیم کیا جاٸے اور عورت کو وراثت میں اسکا حق دیا جاۓ
‏البتہ یہ بات اپنی جگہ بہ درجہ اتم حقیقت پر مبنی ہے کہ عورتوں کو اپنے حقوق اور تحفظ کے لیے دور حاضر کے تقاضوں سے ہم آہنگ دینی و جدید تعلیم سے مزین ہونا ہوگا جو موجودہ صدی کا اہم تقاضا ہے
‏اللہ تعالیٰ ہمیں اور ہماری آنے والی نسلوں کو اسلام کے اصولوں پے عمل پیرا ہونے کی توفیق دے
‏آمین یا رب العلمین

چوہدری عطا محمد
چوہدری عطا محمد
Chudhary Atta Muhammad is a freelance content writer, blogger, social media activist. He is raising awareness for social issues. Find out more about his work on his Twitter account @ChAttaMuhNatt