ہیلتھ لیوی – کیا؟ کیوں؟ اور کیسے؟ — طوبہ نعیم

0
51
tax

تمباکو نوشی اور اس سے متعلقہ دیگر مصنوعات پر یکسر پابندی کا مطالبہ کرنا ایک بات ہے جبکہ ان کی خرید و فروخت اور ترغیبات پر قدغن لگانا یا محدود کرنا ایک بات ہے, اور ان میں آخر الذکر بات حقیقت کے زیادہ قریب ترین ہے کیونکہ تمباکو نوشی پر مکمل پابندی یا اس کو صفحہ ہستی سے مٹانا وغیرہ آج کی دنیا میں ممکن نہیں کہ ادھر سماجی و سیاسی کارکنان کی محنت سے کوئی حکومت ایسا قدم اٹھانے لگے گی تو کسی کونے کھدرے سے کوئی نا کوئی انسانیت اور انسانی حقوق کا چورن منجن بیچنے والا گروہ, ادارہ یا شخصیت ٹپک پڑے گی اور نجانے کہاں سے اور کیسے تمباکو نوشی جیسی مضر صحت, مضر ماحول, مضر اخلاقیات اور مضر معیشت گھٹیا عادت اور زہریلی شہ بابت قوانین اور اصول و ضوابط لے آئیں گے کہ یہ بنیادی انسانی حق ہے بلا بلا بلا اور جو اس کا خاتمہ یا محدودیت چاہتے ہیں وہ ظالم اور انسان دشمن لوگ ہیں۔

جبکہ ایک محتاط اندازے اور دستیاب اعداد و شمار کے مطابق تمباکو کی سستی قیمتوں کی وجہ سے 10.7 فیصد پاکستانی نوجوان جن میں 6.6 فیصد لڑکیاں اور 13.3 فیصد لڑکے شامل ہیں، تمباکو کی مصنوعات کا استعمال کرتے ہیں۔

مزید یہ کہ تقریباً 1200 پاکستانی بچے روزانہ سگریٹ نوشی شروع کرتے ہیں۔ کیا ایک معاشرے کے طور پر، ہمیں تمباکو کی مصنوعات پر ہیلتھ لیوی کو لاگو کرکے اپنے بچوں کو تمباکو کے استعمال سے بچانے کے لیے ایک اہم قدم نہیں اٹھانا چاہیے؟

اور آپ کو آگاہی بہم دیتے چلیں کہ ہماری آبادی کا تقریباً نصف، مطلب 45% فیصد حصہ 18 سال سے کم عمر بچوں پر مشتمل ہے۔ اور یہ کہ پاکستان میں بھی پاکستانی بچوں کے بنیادی حقوق کو مانا اور محفوظ کیا جاتا ہے بلخصوص پاکستان کی جانب سے عالمی برداری کو دلائی یقین دہانیوں اور عہد و پیمان کے تناظر میں کیونکہ تمباکو نوشی دراصل اور درحقیقت ایک وبائی بیماری ہے جو بچوں کی زندگی، بقاء اور ترقی، صحت، تعلیم اور صاف اور سرسبز عوامی مقامات تک رسائی کے حق کی براہ راست خلاف ورزی کرتی ہے۔

فرسٹ ہینڈ سموکنگ تو بہرحال بچوں اور نوجوانوں کی زندگی تباہ و برباد کرتی ہی ہے لیکن اس کے ساتھ ہی جو سب سے زیادہ نقصان نان سموکر بچوں اور نوجوانوں کا ہوتا ہے اسکی بنیادی وجہ سکینڈ ہینڈ سموکنگ اور تھرڈ ہینڈ سموکنگ ہے جو کہ دراصل بلاواسطہ اثرات سے مزین ہے جو ایک تمباکو نوش کے مقابلے دگنے اور خطرناک ہیں۔

پاکستان میں موجود طاقتور ٹوبیکو انڈسٹری دراصل تمباکو خریدنے اور استعمال کرنے کے مختلف حربوں سے بچوں اور نوجوانوں کے کچے ذہنوں کو فتح کرنے کی کوشش کر رہی ہے۔ بچوں کو تمباکو نوشی اور اس کے مضر صحت اثرات سے بچانے کے لیے، 2019 میں، وفاقی کابینہ نے تمباکو کی مصنوعات پر ہیلتھ لیوی (اضافی ٹیکس) لگانے کے بل کی منظوری دی تھی تاکہ کھپت کو کم کیا جا سکے اور سالانہ 60 ارب پاکستانی روپے کما کر خزانے کو فائدہ پہچایا جاسکے اور بعد میں یہی روپیہ صحت کے مسائل حل کرنے پر خرچ کیا جاسکے۔ تاہم پاکستان میں موجود طاقتور ٹوبیکو انڈسٹری کے اندر تک موجود اثر و رسوخ کی بدولت بہت سے پالیسی سازوں نے اس بل کو مسلسل بلاک کر رکھا ہے جس وجہ سے پاکستان میں تمباکو نوشی کی اقتصادی لاگت 615.07 بلین روپے تک پہنچ گئی ہے جو کہ پاکستان کی جی ڈی پی کے 1.6 فیصد کے برابر ہے لیکن تمباکو کی صنعت سے حاصل ہونے والی آمدنی صرف 20 فیصد ہے۔ پاکستان میں موجود طاقتور ٹوبیکو انڈسٹری نے بچوں کی صحت کو داؤ پر لگا کر بلکہ بچوں کی صحت کی قیمت پر اب تک اربوں کھربوں کمائے ہیں، اب وقت آگیا ہے کہ پاکستان میں موجود طاقتور ٹوبیکو انڈسٹری اسے شرافت سے واپس کرے وگرنہ آج چند آوازیں اٹھ رہی ہیں تو کل یہ شور میں بدل جائیں گی اور پاکستان میں موجود طاقتور ٹوبیکو انڈسٹری کو جان بچا کر بھاگنا مشکل ہوجائے گا۔

خیال رہے کہ ہمارے بچوں اور نوجوانوں کو پاکستان میں موجود طاقتور ٹوبیکو انڈسٹری کے ہاتھوں تباہ ہونے دینا ایک ایسے معاشرے کے لیے انتہائی شرم کی بات ہوگی جو پہلے ہی اپنے عہد و پیمانوں کو اپنے بچوں تک پہنچانے کے لیے سخت جدوجہد کر رہا ہے اور ابھی تک عشر عشیر بھی کامیاب نہیں ہوسکا اس لیے ایسے میں تمباکو مصنوعات پر ہیلتھ لیوی بل کے نفاذ میں تاخیر صرف بچوں کے حقوق کے حوالے سے ہمارے معاشرے کے غیر معمولی رویے کو اجاگر کرے گی اور ہماری بے حسی و خود غرضی کا نقاب اتارنے کا باعث بنے گی۔

تمباکو مصنوعات پر ہیلتھ لیوی کا نفاذ ہمارے بچوں اور ہماری قوم کے مفاد میں ہے۔ ڈبلیو ایچ او کے فریم ورک کنونشن آن ٹوبیکو کنٹرول (ایف سی ٹی سی) کے تحت پاکستان نے بچوں کو تمباکو کے نقصانات سے بچانے کے لیے پرو چائلڈ اقدامات کو نافذ کرنے کا عہد کیا ہے۔ جبکہ تمباکو مصنوعات پر ہیلتھ لیوی بل کا نفاذ ہمیں بچوں سے اپنے وعدے کو پورا کرنے کا موقع فراہم کرتا ہے لیکن ایف بی آر اور حکومت وقت میں بیٹھی کچھ کالی بھیڑیں اور سماج دشمن انسان مل کر اس بل کو روکے ہوئے ہیں اور ان کی درپردہ کوششیں جاری ہیں کہ اس بل کو کسی طرح کالعدم قرار دلوادیں اور پاکستان میں موجود طاقتور ٹوبیکو انڈسٹری سے اپنی خاطر خواہ قیمت وصول لیں اور اپنی وفاداریوں پر مہر ثبت کرلیں۔

واضح کردوں کہ ورلڈ ہیلتھ آرگنائزیشن (ڈبلیو ایچ او) نے پاکستان سے بارہا کہا ہے کہ سگریٹ کی قیمت کم از کم 30 روپے فی پیکٹ تک بڑھا دی جائے تاکہ سگریٹ کی کھپت کو کم کیا جا سکے اور صحت کے اخراجات کو کم کیا جا سکے۔ حکومت کو قیمتی جانوں کو بچانے کے لیے اس پائیدار حل سے فائدہ اٹھانا چاہیے اور بیشک یہ ہی وہ ٹیکس ہے جس کے لیے 2019 میں ٹوبیکو ہیلتھ لیوی بل منظور کروایا گیا تھا لیکن وہ تاحال سردخانے میں پڑا ہے کیونکہ ذرائع کے مطابق پاکستان ٹوبیکو انڈسٹری کے جی ایم صاحب کے بھائی آج کل ہمارے وزیراعظم شہباز شریف کے قرب و جوار میں پائے جاتے ہیں اور ایک اعلی سرکاری عہدہ جس کا براہ راست تعلق وزیراعظم سے ہے پر براجمان ہیں تو یہ کیسے اور کیونکر ممکن ہے کہ وہ اس بل یا دیگر کسی ایسے سخت قدم پر اثر انداز نہیں ہوئے, ہورہے یا ہوں گے جو پاکستان میں موجود طاقتور ٹوبیکو انڈسٹری کے خلاف ہو یا ہے۔

قصہ مختصر کہ ایف بی آر کے اعداد و شمار کے مطابق پاکستان میں سالانہ 80 ارب سیگریٹ پھونکے جاتے ہیں جس میں عمر کی کوئی تفریق اور تخصیص نہیں, جبکہ میرے خیال میں 80 ارب سیگریٹ تو وہ ہوئے جو رجسٹرڈ کمپنیوں کی جانب سے تیار اور فروخت ہوئے ہونگے جبکہ لگھ بگھ 20 ارب کے قریب وہ سیگریٹ بھی ہیں جو مارکیٹ میں کسی نہ کسی نام رنگ اور ہجم میں بکتے ہیں لیکن ان کا کوئی کھاتہ درج نہیں تو اس طرح پاکستان میں 100 ارب سیگریٹ سالانہ پھونک کر قوم کا پیسہ اور صحت ساتھ پھونکی جارہی ہے جس پر ہمیں سر پھروں کی طرح سوچنا اور سخت ترین اقدامات کرنے ہونگے اور ہیلتھ لیوی بل کی منظوری اور اب اس کا بے رحم نفاذ دراصل اس حوالے سے شروعات ہوگی, ہمیں صحت مند معاشرہ اور پھلتی پھولتی معیشت و معاشرت چاہیے تو ملکر اس مدعے پر جاندار اور شاندار آواز اٹھانی ہوگی وگرنہ یہ یاد رکھیں کہ آپکی آبادی کے 45% فیصد اور 65% فیصد حصے پر مشتمل بچے اور نوجوان روزانہ کی بنیاد پر تمباکو نوشی کا شکار ہورہےہیں اور یہ تعداد 1200 سے فی دن کے حساب سے جاری و ساری ہے, اب آپ سوچ لیں کہ یہ تعداد کم کرنی اور ختم کروانی ہے یا اس میں روز بروز اصافہ ہو؟

بچےآپ کے, صحت آپ کی سو فیصلہ بھی آپ ہی کریں کہ تمباکو مصنوعات پر ہیلتھ لیوی بل کا نفاذ ہونا چاہیے کہ نہیں اور اگر ہونا چاہیے تو اس میں تاخیر پر آپ شور مچانے میں پیش پیش رہیں۔

Leave a reply