ملک اور عوام ایک نئے ہیجان خیز دور سے لرزتے ہوئے گزر رہے ہیں جو کسی آنے والے مارشل لاء سے بھی زیادہ خوفناک ہے۔ عوام غربت کی انتہا پر ہیں۔ ہمارے سیاستدان ، اعلی عہدوں پر تعینات سول وفوجی افسران امارت اور خوشحالی انتہا پر ہیں۔ عوام کو آڈیو اور ویڈیو کے پیچھے لگا دیا ہے یہ آڈیو اور ویڈیو کی ریکارڈنگ کون کر تا ہے ؟ عوام کو جن بنیادی مسائل کا سامنا ہے اس کی ذمہ داری کوئی نہیں لے رہا ۔
عوام مہنگائی ،بے روزگارئی بدامنی سے ہلکان ہو رہے ہیں ۔ بجلی جیسی ہروقت کی ضرورت ختم ہو گئی چھوٹے بڑے کاروبار بجلی کے محتاج ہیں۔ جب سے جدید ٹیکنالوجی سوشل میڈیا نے ترقی کی ہے ہماری سیاسی جماعتوں نے بھی ترقی کے نام پر وہ گُل کھلانے شروع کردئیے ہیں کہ اب ان کی انچ سے کوئی بھی محفوظ نہیں۔ ملکی قومی اداروں کو گلی کوچوں چوراہوں جلسے جلوسوں میں تنقید کا نشانہ بنایا جار ہا ہے نہ پاک فوج محفوظ نہ عدلیہ محفوظ نہ غیر جانبدار صحافی محفوظ۔ سیاسی معیار بدل گئے سیاست کے آداب بدل گئے۔ سیاستدان بدل گئے۔ پارلیمنٹ تو موجودہے ۔
پارلیمنٹ کی بالادستی نہیں رہی ۔ ارکان اسمبلی عوام کے لئے قانون سازی نہیں کرتے ۔ اپنی مراعات اپنی تنخواہ اور اپنی ضروریات کے لئے قانون سازی کی جاتی ہے ۔ پارلیمنٹ میں موجود قد آور سیاستدانوں کا فقدان ہے۔ کہا جاتا ہے کہ پنجاب میں ووٹ نواز شریرف کا ہے وہ پنجاب میں مقبول ترین ہیں لیکن لوگ اب سوال کرنا شروع ہو گئے ہیں کہ نواز شریف کی غیر ائینی سزائوں کے خلاف اپیل کب دائر ہوگی ؟ مریم نواز کو پاسپورٹ کب ملے گا؟ سینیٹر اسحاق ڈار وطن واپس کب آئیں گے؟ ان سوالوں کا جواب مسلم لیگ (ن) کے پاس ہے میرے جیسے عام آدمی کے پاس نہیں ؟ تاہم یہ بات طے ہے کہ نواز شریف ایک شریف نیک نیت انسان ہیں اور شرم وحیا والے انسان ہیں آج اگر مسلم لیگ(ن) کو پنجاب میں مقبولیت حاصل ہے تو وہ نواز شریف اور ان کی بیٹی مریم نواز کی وجہ سے ہے ۔
سیاست آج کل نظریہ ضرورت کے تابع ہو چکی ہے جب تک نظریہ ضرورت دفن نہیں ہوتا نہ جمہوریت مستحکم ہوگی نہ پارلیمنٹ کی بالادستی اور نہ ہی ملک میں قانون کی حکمرانی ہوگی۔ آج کے اقتدار اور سیاستدانوں کی اکثریت سرمائے کی تابع ہے اور یہی آج کل جمہوریت کا مسکن ہے آج کی نظریہ ضرورت کی سیاست میں عوام کے بنیادی مسائل حل ہوں تو کیسے ہوں ؟