حکمران اورعدل و انصاف تحریر: مطاہر مشتاق

0
80

محترم قارئین جیسا کہ آپ جانتے ہیں کہ
پاکستان کا نظام انصاف روزِ اول سے ہی بازارِ حُسن میں کھڑکی کھولے بیٹھی کسی بِکاؤ حسینہ کا سا ہے اور اسکے بعض سربراہان عین نائقہ کی سی عکاسی کرتے ہوئے اپنی آخری آرام گاہوں کو جہنم بنا کر اسمیں غریق ہو چکے ہیں،
اس نظام نے محمد علی جناح کے بعد آج تک کوئی ایسا انسان حکمران نہیں بننے دیا جو کہ صرف غریبوں کو اوپر اٹھانے،قوم کو یکجاء کرکے ملک کو مستحکم کرنے میں سنجیدہ ہو،
اس ملک کا المیہ یہ ہے ایسے قاضی جنہوں نے آئین و قانون پر سختی سے عمل کیا اور کروایا وہ تعداد میں اتنے کم ہیں کہ انکو ایک ہاتھ کی انگلیوں پر ہی گِنا جا سکتا ہے،
کیونکہ جہاں اشرافیہ اقتدار کی مالک ہو وہاں انصاف ہونا ناممکن ہے جہاں امیر کو غریب پر فوقیت ہو،طاقتور کے لیے انصاف کا ترازو جھول کھائے، غریب اور بے سہارا کو کوئی سہارا دینے والا انصاف دینے والا نا ہو،اس ملک میں جینا محال ہو جاتا ہے،
جیسا کہ ماضی میں اس ملک کو ایسے ایسے نگینے بھی میسر آئے ہیں کہ جنکا نام لیتے وقت باضابطہ چہروں پر کوفت لانی پڑتی ہے،
کہنے کو تو سربراہ ایسے بھی گزرے ہیں کہ جنہوں نے زیارت میں موجود اپنی آخری سانسیں پوری کرتے ہوئے قائد اعظم محمد علی جناح کو چالاک بڈھے جیسے القابات سے نوازا،
مادرِ ملت فاطمہ جناح تک کو تادمِ مرگ ازیت پہنچائی،
اس ُملک کو اپنی ضد اور ہٹ دھرمی کیوجہ سے دو لخت کردیا،
سرعام منشیات اور اسلحہ کلچر کی بھرمار کو پھلنے پھولنے کے لیے سازگار ماحول دیا،
پھر ایسے کرپٹ وطن فروش بھی اس مُلک نے جھیلے جنہوں نے روئے زمین پر شائد ہی کوئی جگہ ہو جہاں اس ملک کو لوٹ کھسوٹ کر اپنی دولتوں کے انبار نا لگائے ہوں،
شاید وہ وقت اب دوبارہ نا آئے جیسا کہ ایک آمر کو اللہ نے موقع دیا تھا اس مُلک کی تقدیر سنوار کر ایسے عناصر سے ملک و قوم کی مستقل جان چھڑا دے مگر اس نے بھی اپنے اقتدار کی حوس کو پورا کرنے کی خاطر این آر او جیسے مکروہ حربے کے زریعے انکو مزید اس ملک کو لوٹنے کے سنہری موقع دئیے،
جسکا خمیازہ اس ُملک و قوم نے اربوں ڈالر کے قرضے،دہشت گردی،انسانی حقوق کی خلاف ورزی،معصوم بچوں سے بڑھتے ہوئے زیادتی کے کیسز،مہنگائی،بے روزگاری،کرپشن،و دیگر معاشرتی جرائم کی صورت بُھگتا،اور آج بھی بھگت رہے ہیں،
موجودوہ حکومت اپنے تبدیلی کے نعرے کو لیکر تین سال سے تگ و دو میں ہے کہ ماضی کی حکومتوں کی گندگی اور غلاظت قرضے کو سمیٹ کر ختم کر سکے،مگر اس دوران بھی مہنگائی کا ایسا طوفان آیا ہے کہ جس نے غریب کا سانس لینا محال کر رکھاہے،
اس میں بعید نہیں کہ اس میں ساٹھ فیصد پچھلی حکومتوں کی غلط پالیسیوں کا نتیجہ بھی ہے،مگر اس حکومت سے بیورو کریسی آجتک مکمل کنٹرول میں نہیں آئی،جو کہ آج بھی ماضی کی حکومتوں سے ہمدردی اور اپنی کرپشن کا مان رکھتے ہوئے عہدو و پیماں نبھانے میں مصروف ہے،
اگر حکومت کرپٹ لوگوں کو این آر او دینے سے گریزاں ہے تو وہ عدالتوں سے ریلف لینے میں کامیاب ہو جاتے ہیں،
یہاں آکر پھر نظام انصاف میں ایسے سقم مجرم کے لیے تازہ ہوا کے جھونکے ثابت ہوتے ہیں جنکی بنا پر وہ دندناتے ہوئے پھر باھر نکل آتے ہیں،
ناجانے کب اس ملک کو ایسے قاضی اور ایسے حکمران میسر ہونگے جنکا مقصد اس ُملک سے وفاداری ہوگا،
ہماری یہ دُعا ہے کہ اللہ اس ملک کو اس کے اداروں کو ہمیشہ امان میں رکھے،

@iamMutahir4

Leave a reply