ہماری قوم پاکستانی ایک مضبوط، بہادر مستحکم قوم تصور کی جاتی ہے یوں تو ہم بڑے جوش جذبے سے نعرے لگاتے ہیں قائداعظم محمد علی جناج زندہ باد کے نعرے لگاتے لیکن کیا ہم قائد کے بتائے ہوئے اصولوں پرعمل پیرا ہیں بھی یا نہیں ؟ اتحاد ، ایمان اورتنظیم
اپریل 1948ء کو خطاب کرتے ہوئے فرمایا: ’’میرے نوجوان دوستو! آپ اپنی شخصیت کو محض سرکاری ملازم بننے کے خول میں محدود نہ کیجئے۔ اب نئے میدان، نئے راستے اور نئی منزلیں آپکی منتظر ہیں۔ سائنس، تجارت، بنک، بیمہ، صنعت و حرفت اور نئی تعلیم کے شعبے آپکی توجہ اور تجسس کے محتاج ہیں۔” آج بھی قائد اعظم کے بتائے اصول ہمارے لئے مشعلِ راہ ہیں۔ قائد اعظم ہم سے یہ مطالبہ کرتا ہے کہ ہم اپنا تمام تر وقت حصولِ علم کیلئے وقف کریں اور اپنے ملک کیلئے حقیقی معنوں میں اثاثہ بنیں اور خدمت خلق کو اپنا شعار بنالیں۔ آج آدھی صدی گذار چکے ہیں جس ریاست کے قیام کے لئے انتھک جدوجہد قربانیاں دی گئی جس مقصد کے یہ ملک حاصل کیا گیا تھا ہم اس مقصد سے بہت دور ہو چکے ہیں ہم صرف اپنا فائدہ دیکھتے ہیں ملک کا نہیں سوچ رہء کیتنی مشکلات کے بعد ہم نے حاصل کیا گیا اور ہم اپنے پاکستانی قوم کی حثییت کیا ہم اہنا اپنے ملک کے اپنا فرض ادا کر رہے ہیں؟
ہم اس ملک کو تخلیق کرنے کے مقاصد ہی نہ پورے کر پا رہے دستور کی تدوین سے لیکر جمہوری اداروں کی تشکیل ہو یا ملکی استحکام سے لے کر داخلی و خارجی پالیسیوں کی ترتیب ہو، سب کچھ ادھورا چھوڑا ہوا ہے کوئی بھی اس ملک کا نہیں سوچ رہا قائداعظم کے فرمان سے ہم پاکستانی قوم بہت پیچھے رہے گئی ہے۔ بس حوسِ اقتدار کی خاطرحکمران قائد اعظم کے خواب کو شرمندہ تعبیر کرنے کی بجائے ایک دوسرے سے الجھ کر گروہوں میں بٹ چکے ہیں ۔ پاکستان کو ترقی دینے قائداعظم کی اصولوں کے مطابق ڈھالنے کے بجائے نسلی، لسانی، علاقائی اور صوبائی تعصبات کا شکار ہو چکے ہیں ملک میں اب صرف ۔ اقتصادی بحران، دہشت گردی، مہنگائی، کرپشن، اقرباء پروری اور قتل و غارت گری ہے اس سب کا ذمہ دار ہم سب پاکستانی ہیں
یہ بھی سوچنا چاہیئے کہ کیا ہم وہ سنہری اصول جن کی بنیاد پر پاکستان کو حاصل کیا گیا کیا ہم ان اصولوں پر چل رہے ہیں یعنی محبت، یقین محکم، تحمل اور برداشت آج ہم نے خود ان اصولوں کا گلا اپنے ہاتھوں سے گھونٹ رہے ہیں کیا ہم بحیثیتِ پاکستانی قوم وقت کی پابندی کرتے ہیں ؟ قانون پر چلتے ہیں؟
ہم زندہ قوم ہیں پائندہ قوم ہیں مگر سوال یہ ہے کہ ہم واقعی زندہ قوم ہیں ؟یا یہ ایک نغمہ ہے جس کا حقیقت سے کوئی تعلق نہیں
علامہ اقبال نے کہا تھا؛ نشاں یہی ہے زمانے میں زندہ قوموں کا
کہ صبح و شام بدلتی ہیں اُن کی تقدیریں۔۔۔
ہم نے کبھی یہ سوچا ہے کہ پاکستان بننے کے بعد ہم نے پاکستان کی ترقی کے لئے کیا کیا ہے یہ تاریخ آپ کے سامنے ہے۔ کیا بحیثیتِ پاکستانی قوم ہم نے کوئی ایسا قابل ذکر کارنامہ سرانجام دیا ہے جو زندہ قوموں کا شیوہ ہوتا ہے ؟
شاعر مشرق علامہ اقبال نے اس پاکستانی قوم کو اٹھانے کے لئے کے لئے اپنی ساری زندگی صرف کر دی۔ بڑی مشکل سے یہ قوم جاگی اور بالآخر پاکستان کے خواب کو شرمندہ تعبیربنایالیکن بد قسمتی دیکھئے کہ یہ قوم بلا آخرپھر سو چکی ہےنہ انہیں اپنی خبر ہے اور نہ کسی اور کی خبر ۔
اگر ہم بحیثیتِ پاکستانی قوم ہم سچے دل سے صرف پاکستان کا سوچئے تو یہ ملک بہت ترقی کرسکتا ہے کیونکہ ہمارے ملک میں ایسی کوئی کمی نہیں بس اس ملک سے سچی محبت کرنے والے لوگ چاہیے جو اس ملک کو ترقی کی طرف لے جائے اور ہم پر فرض ہے ہم اس کو سنھبانے اور اس لو ٹنے کے بجائے اس کی حفاظت کرے کیوں کہ یہ ملک ہیں تو ہم ہیں۔
email saima.arynews@gmail.com
Twitter Account: https://twitter.com/saimarahman6