ہم آسمان پر خدا اور زمین پر پاکستانی فوج سے امیدیں لگا کر دن گزارتے رہے،بوسنیا سے ایک خاتون ڈاکٹر کی آپ بیتی

0
61

میں 1995 میں یو این پیس کیپنگ مشن میں بوسنیا کے شہر Tuzla کے قریب Visca کیمپ میں پاک فیلڈ ہاسپیٹل کمانڈ کر رہا تھا ۔ یونائٹڈ نیشن مشن کے مطابق ہم صرف وہاں کے شہریوں کا علاج معالجہ اپنے فیلڈ ہاسپیٹل میں رہ کر کر سکتے تھے

ہمارے ساتھ پاکستان سے لیڈی ڈاکٹرز یا نرسز نہیں گئی تھیں ۔ ہمیں UN سے اجازت ملی کہ ہاسپیٹل میں Bosnian Nurses کو ملازم رکھ لیں ۔ بہت کوشش کی نرسز تو نہ ملیں مگر 18 میڈیکل اسٹوڈنٹس مل گئیں جو یونیورسٹی بند ہونے کی وجہ سے فارغ بیٹھی تھیں ۔ وہ انگلش بھی بولتی تھیں تو اس طرح ہمارے اور لوگوں کے درمیان ترجمانی کا مسلہ بھی حل ہو گیا ۔

ایک لڑکی جو میرے ساتھ ترجمانی کے فرائض سرانجام دیتی تھی نے بتایا کہ ڈاکٹرز نہ ہونے کی وجہ سے Tuzla Hospital کا حال بہت برا ہے ۔ بوسنیا کے زخمی لوگ وقت پر آپریشن نہ ہونے کی وجہ سے مر رہے ہیں اور انکو آپ کے پاس بھی نہیں لایا جا سکتا ۔ میں نے کہا کہ ہم کیا کرسکتے ہیں ہم تو صرف UN Charter کے مطابق کام کرتے ہیں کہ یہاں لے آو تو آپریشن کردیں گے ۔ کہنے لگی ہماری ایک پروفیسر آپ سے ملنا چاہتی ہیں ۔ بہرحال دوسرے دن شام ڈھلے ایک خاتون مجھ سے ملنے آئی ۔ بات کرتے ہوئے وہ بمشکل اپنے آنسو چھپا رہی تھی ۔ وہ انیستھیسیا کی پروفیسر تھی اور مدد مانگنے آئی تھی ۔ کہنے لگی کیا یہ ممکن ہے کہ آپ ہمارے 15 سے 20 لوگوں کے آپریشنز ہاسپیٹل میں آکر کردیں کہ وہ اپاہج ہونے سے بچ جائیں ۔ میں نے اپنے پاکستانی فورس کمانڈر سے بات کی تو انہوں نے لا پرواہی سے کہا کہ کر سکتے ہو تو ضرور کرو لیکن اگر شکایت ہوئی تو میں بچاونگا نہیں ۔ سزا کے لئے تیار رہنا ۔

دوسرا مرحلہ میرے اپنے سرجن اور بیہوشی والے ڈاکٹر کو منانا تھا ۔ دونوں سے الگ الگ بات کی کہ انکے ہاسپیٹل میں وقت نکال کر جانا ہوگا ۔ میجر جنجوعہ تو فورا مان گیا مگر سرجن نے ڈرتے ڈرتےحامی بھری ۔ میں نے اپنے کمانڈر کو بتایا کہ آج رات ہم مشن پر جائیں گے ۔ کہنے لگے واپسی پر مجھے اطلاع کردینا ۔ ہم تینوں رات کے کھانے کے بعد واک کے لئے نکلے اور دور کھڑی گاڑی میں بیٹھ کر کیمپ سے غائب ہوگئے ۔

اس رات Tuzla Hospital میں اس پروفیسر کے علاوہ کسی کو پتہ نہیں تھا کہ ہم کون ہیں ۔ وہ زخمیوں کو اپنے بچوں کی طرح پیار سے دلاسے دے رہی تھی کہ اب تم ٹھیک ہو جاو گے ۔ اس رات تین لوگوں کا آپریشن ہوا ۔ میں ایک آفس میں بیٹھا دعائیں کرتا رہا کہ خدا خیر کرے ۔باہر بلا کی سردی تھی ۔ رات کے تین بجے واپسی پر میں نے کمانڈر کو فون کیا تو انہوں نے پہلی گھنٹی پر فون اٹھایا اور صرف اتنا کہا اوکے اب میں سونے لگا ہوں ۔

پھر یہ سلسلہ تب تک چلتا رہا جب تک انکے تمام زخمیوں کے آپریشن مکمل نہ ہوگئے بلکہ کبھی کبھار ہم خود بھی پوچھ لیتے ۔ میں اور میجر جنجوعہ پاکستان واپس آنے سے پہلے اس پروفیسر سے ملنے گئے ۔ ہمیں رخصت کرتے ہوئے وہ اپنے آنسو صاف کرتی رہی اور کہنے لگی کہ ہم آسماں پر خدا سے اور زمین پر پاکستانی فوج سے امیدیں لگا کر دن گزارتے رہے ہیں ۔ آپ خیریت سے اپنے ملک جائیے ۔ صرف میں نہیں میری پوری قوم آپ کی احسان مند رہے گی اور پھر جب بوسنیا سے پاکستان آرمی واپس آرہی تھی تو تزلہ شہر کے لوگ باہر سڑکوں پر کھڑے پھول پھینک کر ہمیں الوداع کہہ رہے تھے ۔

واپسی پر دوران فلائیٹ میں نے اپنے کمانڈر سے شکوہ کیا کہ سر اگر ہماری شکایت ہو جاتی کہ ہم اپنے ہاسپیٹل سے باہر جاکر لوگوں کے آپریشن کرتے تھے تو کیا واقعی آپ ہمارا ساتھ نہ دیتے ۔ کہنے لگے بوسنیا کے ایک سینیر ڈاکٹر نے یہ بات پہلے مجھ سے کی تھی ۔ اسے میں نے ہی راستہ دکھایا تھا کہ یہ غلط کام خوش اسلوبی سے کون سر انجام دے سکتا ہے ۔ میں پوچھتا رہا کہ سر یہ بات میں اپنی تعریف کے زمرے میں لوں یا سدھرنے کیلئے وارننگ سمجھوں ۔

اس قوم کی دعائیں کچھ تو لگیں ہونگی کہ ہم چاروں میں سے ایک میجر جنرل اور تین برگیڈیر رینک سے ریٹائر ہوئے ۔

بشکریہ
#برگیڈئربشیرآرائیں

Leave a reply