عمران خان کی معاشی ٹیم کی ناتجربہ کاری، رل گئی عوام بیچاری

0
49

سابق وزیراعظم عمران خان صاحب اپنی تقریروں میں اکثر کہا کرتے تھے میں سیاسی مخالفین کو رلاؤں گا مگر اقتدار میں آنے کے بعد ان کی معاشی ٹیم نے اعداد وشمار کے ایسے گورکھ دھندے میں عوام کو الجھائے رکھا کہ آج غریب آدمی ناکوں چبانے پر مجبور ہوچکا ہے ،عمران خان ملک کی تاریخ کے پہلے وزیراعظم کا اعزاز حاصل ہے کہ جن کے خلاف قومی اسمبلی میں تحریکِ عدم اعتماد کامیاب ہوئی، کسی بھی حکومت کے لیے سب سے بڑا چیلنج معاشی محاذ ہوا کرتا ہے مگر عمران خان کا ہمیشہ سے یہ دعویٰ رہا کہ وہ ملک کی معیشت کی کایا پلٹ دیں گے، مرجائیں گے مگر آئی ایم ایف کے پاس نہیں جائیں گے، قرضے کم کریں گے، مہنگائی کا خاتمہ کریں گے مگر وقت نے ثابت کیا کہ اقتدار میں آنے کے بعد عمران خان کے تمام دعوے بس نعروں کی حدتک محدود تھے۔ ملکی معیشت کی بہتری کے لئے عمران خان کے دعوے
پاکستانی روپے کی قدر میں ریکارڈ گراوٹ، مہنگائی سے لے کر قرضوں کے حجم میں اضافے تک کئی معاشی چیلنجز کے سامنے ریت کی دیوار ثابت ہوئے اور عمران خان نے اپنی ناکامی تسلیم کرنے کے بجائے ساڑھے تین سال کے عرصہ میں وزیر خزانہ اسد عمر, حفیظ شیخ اور شوکت ترین کی صورت میں تین وزرائے خزانہ بدل ڈالے۔

عمران خان حکومت کی معاشی پالیسیوں اور گورننس کا بہت بُرا حال اور ہر گزرتے دن کے ساتھ معاملات خراب سے خراب رہے خان صاحب کہا کرتے تھے کہ میں انہیں رُلائوں گا۔ اُن کا مقصد اپنے سیاسی مخالفین کو رلانا تھا لیکن ساتھ ساتھ عوام کو بھی بری طرح رلایا خان صاحب نے جو وعدے کیے تھے، برسر اقتدار آنے کے بعد حقیقت میں سب اُس کے برعکس کیا اور عام آدمی کے لئے معاشی صورتحال ایک ڈراؤنے خواب کی سی رہی، ملکی معیشت پر بات کریں تو سوچ کے دماغ کی شریانیں پھٹنے لگتی ہیں کہ پاکستان کا کیا بنے گا اور اگر اس اسلامی دنیا کی واحد ایٹمی پاور کا معاشی طور پر گراوٹ کا یہ سفر اسی تیزی سے جاری رہا تو ہماری کیا حالت ہو گی؟ تبدیلی والوں کی حکومت آنے کے بعد تو مہنگائی کم ہونی چاہئے تھی، گیس بجلی، پٹرول سستا ہونا چاہے تھا لیکن ایسا کیا ہوا کہ چور ڈاکو چلے بھی گئے لیکن تبدیلی والے ’’ایمانداروں‘‘ نے ایسے حالات پیدا کر دیے تھے کہ غریب غریب تر ہو گیا، غربت پہلے سے بڑھ گئی، نوکریاں ملنے کی بجائے ہاتھ سے جانے لگیں۔ جب ملکی معیشت کی بات کریں تو قرضے پاکستان کی تاریخ میں اتنے نہیں بڑھے جتنے پی ٹی آئی کی حکومت کے ساڑھے تین برسوں میں بڑھ چکے تھےسابق وزیر اعظم عمران خان کے مطابق معاشی حالات بہتر ہو چکے تھے لیکن پھر کورونا کی وبا آئی اور عالمی سطح پر مہنگائی میں اضافہ ہوا۔وزیر اعظم نے یکم اپریل کو ایک ٹی وی انٹرویو میں حکومت کی معاشی پالیسی کا دفاع کرتے ہوئے کہا کہ مہنگائی ایک عالمی مسئلہ ہے شہباز شریف آ کر کیا کرے گا؟ سارے خطے میں سب سے سستا پٹرول ہم بیچ رہے ہیں، ہم نے ریکارڈ ٹیکس اکٹھا کیا۔ سب سے زیادہ بر آمدات اور ترسیلات زر ہمارے دور میں ہوئیں۔اور حکومت کی جانب سے یہ دعویٰ بھی کیا گیا کہ ان کے دور میں ریکارڈ نوکریاں پیدا ہوئیں۔ پاکستان کے ادارہ شماریات کے لیبر فورس سروے میں دعویٰ کیا گیا ہے کہ گذشتہ تین سال کے دوران55 لاکھ نوکریاں پیدا ہوئیں یعنی ہر سال 18 لاکھ نوکریاں پیدا ہوئیں۔لیکن پاکستان کے سابق وفاقی وزیر خزانہ ڈاکٹر حفیظ شیخ نے اس دعوے کو مسترد کرتے ہوئے کہا کہ جب حکومت کا خاتمہ قریب ہو تو اس وقت ایسا دعویٰ سیاسی طور پر فائدہ اٹھانے کے لیے کیا جاتا ہے تاہم اس وقت حقائق سے اس کا کوئی واسطہ نہیں ہے۔انھوں نے کہا کہ حکومت اقتصادی شرح نمو کو جیسے زیادہ پیش کر رہی ہے اور افراطِ زر کو کم سطح پر دکھا رہی ہے اسی طرح حکومت زیادہ ملازمتوں کے پیدا ہونے کو بھی اپنے فائدے کے لیے استعمال کر رہی ہےتحریک انصاف حکومت کی معاشی پالیسیاں مجموعی طور پر انتظامی ناکامی اور نا اہلی کا شکار رہیں۔ ‘بنیادی معاشی اعشاریے وہی ہیں جو چالیس سال سے چلے آ رہے ہیں، ان میں کوئی بہتری نہیں ہوئی۔انتظامی ناکامی کی مثال دیتے ہوئے انھوں نے کہا کہ ‘جب مانگ میں اضافہ ہونا تھا تو کہا گیا کہ جو باہر سے کارگو آنا تھا وہ نہیں آ رہا جس سے بحران شدید ہو گیا تحریک انصاف نے کسی بھی گذشتہ حکومت کے مقابلے میں سب سے زیادہ قرضے لیے۔ ‘یہ ان کی مجبوری بھی تھی، کیوں کہ پہلے سے لیے جانے والے قرضوں کی واپسی کے لیے اور پیسہ چاہیے اور اب آنے والی کو ان سے بھی زیادہ قرضہ لینا پڑے گا کیوں کہ ایسا لگتا ہے کہ یہ فیصلہ کر لیا گیا ہے کہ قرضوں سے ہی ملک چلے گا

سٹیٹ بینک آف پاکستان کے اعداد و شمار کے مطابق مالی سال 2007-08 کے اختتام سے مالی سال 2017-18 کے اختتام تک پاکستان کے کُل قرض میں 49 ارب ڈالر کا اضافہ ہوا اور وہ 46.2 ارب ڈالر سے بڑھ کر 95.2 ارب ڈالر ہو گیا۔ بظاہر تو یہ سو فیصد سے زیادہ کا اضافہ ہے۔

اس 49 ارب ڈالر میں سے پیپلزپارٹی کے دور میں یعنی 2008 سے 2013 کے درمیان 14.7 ارب ڈالر جبکہ سال مسلم لیگ نواز کے دور حکومت میں 34.3 ارب ڈالر قرض لیا گیا جبکہ وزارت اقتصادی امور کے اعداد و شمار سے پتا چلتا ہے کہ غیر ملکی قرضوں کا حجم گزشتہ ساڑھے 3 سالوں میں مسلسل بڑھ رہا ہے جو مالی سال 2019 میں 10 ارب 59 کروڑ ڈالر سے مالی سال 2020 میں 10 ارب 66 کروڑ 20 لاکھ تک پہنچا اور پھر مالی سال 2021 میں 14 ارب 28 کروڑ ڈالر تک پہنچ گیا اور اس کے بعد رواں مالی سال کے پہلے 7 مہینوں میں 12 ارب ڈالر تک پہنچ گیا وفاقی بجٹ 22-2021 میں غیر ملکی قرضوں کے لیے سالانہ بجٹ کا ہدف 14.088 ارب ڈالر مقرر کیا گیا تھا اور حکومت نے پہلے 7 ماہ میں 12.022 ارب ڈالر کا قرضہ لیا۔

عمران خان کی حکومت نے مالی سال 2021 میں کُل 14 ارب 30 کروڑ ڈالر کا قرضہ لیا تھا۔ اس کے ساتھ ساتھ کے 43 ماہ کے دوران بیرونی ذرائع (پاکستانیوں کے علاوہ) سے مجموعی غیر ملکی قرضہ 47 ارب 55 کروڑ ڈالر تک پہنچ گیا
پی ٹی آئی حکومت نے اپنے اس دور حکومت میں پاکستان کی تاریخ میں سب سے زیادہ قرضے لیے اور سب سے زیادہ کرپشن کی گئی پنجاب میں عثمان بزدار کی کرپشن سے کون واقف نہیں ہے اب پتہ چلتا ہے کہ عمران خان جو ہمیشہ کہتے تھے کہ "سب سے پہلے گھبرانا نہیں ہے "وہ سیاستدانوں کےلیے تھا کہ کرپشن کرو موج کرو گھبراو نہیں” اور دوسرا مشہور جملہ بولتے تھے کہ "میں انکو رلاونگا اصل میں وہ سیاستدانوں کو نہیں بلکہ عوام کو رلانے کی بات کیا کرتے تھے، دیر آید درست آید کے مصداق اب عام آدمی بھی سمجھ چکا ہے کہ عمران خان کے پاس محض نعروں، دعووں اور وعدوں کے سوا عوام کو دینے اور ڈیلیور کرنے کے لئے کچھ ہے ہی نہیں۔

Leave a reply