انسانوں کی وجہ سے کرۂ ارض میں تبدیلیاں

0
49

کیا انسانی سرگرمیاں زمین سے زندگی کو معدوم کر رہی ہیں .

کرّۂ ارض کی تاریخ میں نامساعد حالات نے پانچ مرتبہ زیادہ تر جانداروں کو صفحۂ ہستی سے مٹایا ہے۔ سائنسدانوں کا کہنا ہے کہ زمین پر زندگی ایک بار پھر خطرے میں پڑ سکتی ہے، کچھ کا یہ بھی کہنا ہے کہ ہم چھٹی بڑی معدومیت کا شکار ہو سکتے ہیں۔ کوئی بھی معتبر سائنسدان اس بات سے انکار نہیں کرتا کہ جس رفتار سے فطرت تباہ ہو رہی ہے اس کے حوالے سے ہم بحران کا شکار ہیں. انسانوں کی وجہ سے موسمیاتی تبدیلیاں، زمین کے استعمال میں تبدیلیاں اور آلودگی تیزی سے کرۂ ارض کو تبدیل کر رہی ہے، جس سے مختلف انواع کے لیے موافقیت پیدا کرنا اور زندہ رہنا مشکل ہو رہا ہے۔

کینیڈا میں فطرت کے لیے ’آخری موقع‘ قرار دیے جانے والے سربراہی اجلاس میں سائنس دان اور رہنما بحران کے پیمانے کو بتانے کی شدت سے کوشش کر رہے ہیں۔ حال ہی میں ’کوپ-15‘ (COP15) نامی ماحولیات پر بین الاقوامی کانفرنس کا افتتاح کرتے ہوئے اقوام متحدہ کے سکریٹری جنرل انتونیو گوٹیرس نے کہا کہ 10 لاکھ حیاتیاتی انواع اب ’معدومیت کے دہانے پر‘ ہیں۔ اُنھوں نے کہا کہ ’دنیا بھر میں سینکڑوں برسوں سے ہم نے افراتفری کا ایک ہنگامہ برپا کیا، تباہی کے اقدامات کیے ہیں۔‘
بڑے پیمانے پر معدوم ہونا کیا ہے؟

بڑے پیمانے پر معدومیت زمین کی تاریخ میں ایسے واقعات ہیں جب کرۂ ارض پر تیزی سے اپنی تین چوتھائی یا اس سے زیادہ انواع معدومیت کا شکار ہوجاتی ہیں۔ سائنس دان جو فوسل ریکارڈ (ماضی کی پتھر میں بدلی ہوئی اشیا کا سائینٹیفک مطالعہ نیز مدفون یا پتھر میں بدلے ہوئے ہونے کے حالات) کا مطالعہ کرتے ہیں وہ ’پانچ عظیم‘ (Big Five) بڑے پیمانے پر معدومیتوں کا حوالہ دیتے ہیں جو 54 کروڑ سالوں کے دوران رونما ہوئے ہیں۔ ایک چھوٹے سیّارچے یا ایسٹرائیڈ کے زمین سے ٹکرانے کے اثرات کے بارے میں خیال کیا جاتا ہے کہ تقریباً ساڑھے چھ کروڑ سال پہلے اس کی وجہ سے ڈائنوسار معدوم ہوگئے تھے۔

جو واقعہ کچھ عرصہ پہلے وقوع پذیر ہوتا ہے وہی زیادہ مشہور بھی ہوتا ہے- جب ساڑھے چھ کروڑ سال پہلے ایک سیارچہ (ایسٹرائیڈ) کرہ ارض کے اب میکسیکو والے حصے سے ٹکرایا تو اُس واقعے نے جنوب مغربی امریکہ کے اُس خطے میں آگ لگا دی اور زمین پر چلنے والے ڈائنوسارز کو معدوم کردیا۔ دیگر مثالوں میں 25 کروڑ سال پہلے ’قدیم حیاتی‘ دور کا تباہی کا واقعہ ’عظیم معدومیت‘ (Great Dying) شامل ہے، جب زمین پر تقریباً 90 فیصد انواع فنا ہوگئی تھیں۔ یہ بالکل معلوم نہیں ہے کہ ان تمام تمام بڑے پیمانے پر معدومیت کے واقعات کے وقوع پذیر ہونے کی وجہ کیا تھی، لیکن ان کے امکانات میں آب و ہوا، سمندروں اور زمین میں تیز اور ڈرامائی تبدیلیاں بھی شامل تھیں۔

ماہرین کا کہنا ہے کہ ہم زندگی کی محتلف انواع کو اس سے کہیں زیادہ تیزی سے کھو رہے ہیں جتنا کہ زندگی کا ارتقاء اُنھیں پیدا کر رہا ہے، اور کچھ ماہرین تو کہتے ہیں کہ یہ ہمیں ایک نئے بڑے پیمانے پر معدوم ہونے کے راستے پر ڈال سکتا ہے – اس معدومیت کا شکار ہماری اپنی نسلِ انسانی بھی ہو گی۔ میکسیکو سٹی کی یو این اے ایم یونیورسٹی کے ماہر ماحولیات ڈاکٹر جیرارڈو سیبالوس کہتے ہیں، ’ہم ارتقاء کا راستہ بدل رہے ہیں۔ اگرچہ ہم بڑے پیمانے پر معدومیت میں نہیں ہیں لیکن ہم جو کچھ کر رہے ہیں وہ اس نظام کو خطرے میں ڈال رہا ہے جس نے ہمارے لیے زندہ رہنا ممکن بنایا ہے۔‘ معدومیت کی شرح کی پیمائش کرنا مشکل ہے کیونکہ آج بھی ہم اکثر انواع کے بارے میں زیادہ نہیں جانتے یا یہ کہ وہ کتنے خطرے سے دوچار ہو سکتی ہیں۔

دستیاب محدود ریکارڈ سے پتہ چلتا ہے کہ ہم نے پچھلے 500 سالوں میں 1 فیصد سے کم انواع کو کھو دیا ہے، لیکن بہت سے سائنس دانوں کا خیال ہے کہ حقیقی اعداد و شمار اس سے کہیں زیادہ ہو سکتے ہیں کیونکہ زیادہ تر انواع جن کے بارے میں ہم جانتے ہیں ان کو 1800 کی دہائی کے وسط تک بیان نہیں کیا گیا تھا۔2015 میں سائنس دانوں نے زمینی گھونگوں کی 200 معلوم انواع کے میوزیم کے مجموعوں، ریکارڈز اور ماہر تبصروں کا مطالعہ کیا۔ انھیں پتہ چلا کہ جب سے اصلی جنگلی حیات میں ایک نوع کے طور پر ان انواع کی درجہ بندی کی گئی تھی اس وقت سے بہت سی انواع کو جنگلی حیات میں نہیں دیکھا گیا تھا اور اُس کا دسواں حصہ پہلے ہی سے معدوم ہو چکا تھا۔ اگر وسیع تر رجحانات کی علامت کے طور پر لیا جائے تو رپورٹ تیار کرنے والوں کا اندازہ ہے کہ اس کا مطلب یہ ہو سکتا ہے کہ ہم تمام معلوم انواع میں سے ساڑھے سات فیصد سے 13 فیصد تک کے درمیان پہلے ہی کھو چکے ہیں۔

مانچسٹر میٹروپولیٹن یونیورسٹی کے اورنیتھولوجسٹ (پرندوں کے ماہر) ڈاکٹر الیگزینڈر لیز کہتے ہیں کہ یہ ’ایک بہت بڑے نقصان کا اشارہ ہے جو موجودہ اعداد و شمار کا نمائندہ نہیں ہے۔‘ اگرچہ ہم نہیں جانتے کہ حالیہ برسوں میں کتنی انواع معدوم ہوئی ہیں، جنگلی حیات کی تعداد تیزی سے کم ہو رہی ہے۔ یہ اندازہ لگایا گیا ہے کہ صرف 50 سالوں میں عالمی جنگلی حیات کی آبادی میں اوسطاً 69 فیصد کمی آئی ہے۔ یونیورسٹی آف کیلیفورنیا، برکلے کے ماہر حیاتیات پروفیسر انٹونی بارنوسکی کہتے ہیں کہ ’آپ کو (معدومیت کے) اس مقام تک لے جانے میں پچاس سال سے زیادہ وقفے نہیں لگتے جہاں ان میں سے زیادہ تر انواع تباہ اور ختم ہونے والی ہیں۔‘

سائنس دانوں نے اندازہ لگایا ہے کہ ہم فوسل ریکارڈ کو دیکھ کر اور اس وقت کے دوران جب بڑے پیمانے پر معدوم نہیں ہو رہے تھے، معدومیت کی اوسط ’پس منظر کی شرح‘ کا حساب لگانے کے لیے اس کا استعمال کرتے ہوئے ہم کتنی تیزی سے انواع کو کھو رہے ہیں۔ اس کے بعد وہ اس پس منظر کی شرح کا موازنہ معدومیت کی جدید شرحوں کے ساتھ کرتے ہیں جو ریکارڈز سے جمع ہوتے ہیں تاکہ یہ معلوم کیا جا سکے کہ دونوں کی صف بندی کیسے ہوتی ہے۔ مانووا یونیورسٹی آف ہوائی کے ماہر ماحولیات ڈاکٹر رابرٹ کووی کے مطابق، ان مطالعات سے پائے جانے والے تخمینوں کی ضخامت ہمیں بتاتی ہے کہ آج معدومیت کی شرح نمایاں طور پر پہلے سے زیادہ ہے – 100 سے 1,000 گنا کے درمیان زیادہ۔
مزید یہ بھی پڑھیں
حرا کلچرل کالونی: مکہ مکرمہ آنے والوں کے لیے ایک نیا تجربہ
ملتان ٹیسٹ؛ ہدف کے تعاقب میں پاکستان کی بیٹنگ جاری
فیفا ورلڈ کپ؛ ارجنٹائن اور کروشیا کی ٹیمیں سیمی فائنل میں کل آمنے سامنے ہوں گی
روزگار کی تلاش میں بیرون ملک جانیوالے پاکستانیوں میں 3 گنا اضافہ
’’ٹک ٹاک‘‘ پر بہادری دکھانے کا انجام، مصری لڑکا معذور ہو گیا
روزگار کی تلاش میں بیرون ملک جانیوالے پاکستانیوں میں 3 گنا اضافہ
کچھ سائنسدانوں ان نتائج کی درستگی پر شک کرتے ہیں، لیکن زیادہ تر ماہرین اس بات پر متفق ہیں کہ معدوم ہونے کی شرح ماضی کے اکثر اوقات کے مقابلے آج زیادہ ہے۔ محققین زمین پر مختلف ادوار کے دوران معدومیت کی شرح کا اندازہ لگانے کے لیے فوسل ریکارڈ کا استعمال کرتے ہیں۔ بہرحال چاہے ان سب کا مطلب یہ ہو کہ ہم بڑے پیمانے پر معدومیت میں ہیں یا نہیں، اس معاملے پر بہت زیادہ بحث ہوتی ہے۔ میکسیکو سٹی کی یو این اے ایم یونیورسٹی کے ماہر ماحولیات ڈاکٹر سیبالوز کا کہنا ہے کہ ان کا خیال ہے کہ ہم 2150 کے آخر تک مکمل طور پر بڑے پیمانے پر معدومیت میں داخل ہو جائیں گے، اور یہ کہ ہم اگلی دو صدیوں میں تمام پودوں اور جانوروں کا 70 فیصد کھو سکتے ہیں۔

امریکہ کی ییل یونیورسٹی کے ماہر امراضیات، پروفیسر پنسیلی ہل کا کہنا ہے کہ فطرت پر ہمارے کاموں کے اثرات کے نقصان کو محسوس کرنے کے لیے انسانوں کے لیے بڑے پیمانے پر معدوم ہونے کے واقعے کی ضرورت نہیں ہے، اس لیے ہمیں اس بارے میں کارروائی کرنے کی ضرورت کے لیے معیار کے طور پر استعمال نہیں کرنا چاہیے۔ وہ کہتی ہیں کہ ’بہت چھوٹی آب و ہوا کی خرابیوں نے پورے معاشرے کو ختم کر دیا ہے۔ 20 سال کی خراب خشک سالی ایک پوری تہذیب کو تباہ کر سکتی ہے – یہی وہ پیمانہ ہے جو ہمارے لیے اہمیت رکھتا ہے۔ ماہرین کا کہنا ہے کہ انواع کی قدرتی رہائش گاہوں کی حفاظت اور جنگلی حیات کے لیے راہداری بنا کر ہم فطرت کو موافقت اور اس کی بحالی میں مدد دے سکتے ہیں۔

Leave a reply