عالمی یوم جمہوریہ پہ سندھ میں میرٹ و انسانی حقوق کا جنازہ ، تحریر انشال راؤ

0
23

پندرہ ستمبر بروز اتوار دنیا بھر میں عالمی یوم جمہوریہ منایا گیا، جمہوریت کا انسانی حقوق سے گہرا تعلق ہے جسے عالمی انسانی حقوق کے چارٹر UDHR کے آرٹیکل 21 میں واضح کیا گیا ہے، اقوام متحدہ کے مطابق "Democracy is fundamental building block for peace, sustainable development & human rights”. انسانی معاشرے کی فلاح کے لیے اقوام متحدہ نے ایجنڈہ 2030 تک sustainable development کے لیے سترہ اہم نکات پر کام کرنے کی ٹھان رکھی ہے، کسی بھی معاشرے کی ترقی میں تعلیم و تعلیم یافتہ طبقے کی کلیدی حیثیت ہے اور بچے اس معاشرے میں Sustainable Development کا چہرہ ثابت ہوتے ہیں،
بانی پاکستان قائداعظم محمد علی جناح نے فرمایا کہ "Education is the matter of life & death for nation” اور آئین پاکستان میں تعلیم کی سہولت دینا حکومت کا فرض اور ذمہ داری ہے آج بہتر سال گزرنے کے بعد بھی حقائق انتہائی المناک اور مایوس کن ہیں UNESCO کی رپورٹ کے مطابق پاکستان میں دو کروڑ سے زائد بچے اسکول کا منہ نہیں دیکھتے جس سے روز روشن کی طرح حقیقت سب پہ عیاں ہوجاتی ہے کہ ملک و قوم کی تنزلی کی اصل وجہ کیا ہے، تعلیم کی زبوں حالی کی فہرست والے ممالک کے حساب سے پاکستان افریقہ کے پسماندہ ترین و جنگ زدہ ممالک سے بھی پیچھے ہے، پاکستان کے تمام یونٹس میں صوبہ سندھ ایک ایسا یونٹ ہے جو تعلیم میں سب سے پیچھے ہے اگر سندھ کی تعلیم کا بغور جائزہ لیا جائے تو معلوم ہوتا ہے کہ دنیا میں تعلیمی پسماندگی و معذوری کے حساب سے سندھ نیچے سے ٹاپ پر ہے،
پچھلے دنوں سیکریٹری تعلیم کو ایک نجی ٹیلیویژن چینل پر انٹرویو دیتے سنا جس میں ایسے ایسے انکشافات سامنے آئے کہ حیرانگی خود حیران ہوکر رہ گئی مگر ایک سیکریٹری تعلیم تھے کہ ان کی ڈھٹائی کو سلام ہے، سیکریٹری تعلیم نے انکشاف کیا کہ 2019 تک محکمہ تعلیم سندھ کے پاس محکمہ کا ڈیٹا ہی جعلی تھا، انہیں کچھ نہیں معلوم تھا کہ کتنے اسکول بند ہیں، کتنے کھلے ہیں، کتنے اسکولوں میں فرنیچر ہے اور کتنے اسکول بجلی پانی وغیرہ کی بنیادی سہولیات سے محروم ہیں، کون کون سے اسکول صرف ریکارڈ میں ہیں جنکا گراونڈ پر کوئی وجود نہیں ہے، کتنی انرولمنٹ ہے، قاضی شاہد پرویز سیکریٹری تعلیم ڈھٹائی کیساتھ ہنستے ہوے بتاتے رہے کہ آفس میں بیٹھ کر افسران و سپرنٹنڈنٹ صاحبان ڈیٹا بناکر بھیج دیتے تھے، تعلیم کی ابتر حالت کو دیکھتے ہوے محکمہ تعلیم سندھ نے SPSC پر عوام و دنیا کا عدم اعتماد دیکھتے ہوے ورلڈ بینک کی شراکت سے ملک کے مستند ترین اچھی ساکھ والے ادارے IBA کے زریعے ٹیسٹ کے زریعے 2000 ہیڈماسٹرز بھرتی کرنے کا اشتہار دیا جس کے لیے تقریباً بیس ہزار افراد نے درخواستیں جمع کروائیں مگر بمشکل ایک ہزار امیدوار ہی کامیاب ہوپائے،
ان ہیڈماسٹرز سے پہلے سندھ کے سرکاری اسکولوں میں مجبور سے مجبور والدین بھی اپنے بچوں کو داخل کروانا پسند نہیں کرتے تھے، سندھ کے اسکول بالخصوص پرائمری اسکول اوطاقوں، شادی ہالز، پارٹی دفاتر، گودام و مویشی کے باڑوں کے طور پہ استعمال ہوتے تھے، اساتذہ کی اکثریت کو پڑھانے سے زیادہ گپ شپ میں دلچسپی تھی، نوبت یہاں تک آ پہنچی تھی کہ تاریخی اسکولوں میں جن میں ہزاروں میں انرولمنٹ ہوا کرتی تھی کہ ڈبل ڈبل شفٹ لگانا پڑتی تھی وہاں تیس اساتذہ پینتیس طلبہ، چوبیس اساتذہ سولہ طلبہ، پچاس پچاس اساتذہ چالیس سے پچاس طلبہ کی تعداد تک آ پہنچے تھے، اساتذہ پرائیویٹ اسکولوں میں تو پڑھالیتے مگر سرکار سے بھاری تنخواہیں وصول کرکے بھی پڑھانا پسند نہ کرتے تھے، بقول سیکریٹری قاضی شاہد پرویز و منسٹر محکمہ تعلیم کے کلرک بادشاہ اور پیراشوٹی افسران آفسز میں بیٹھ کر رپورٹیں بناکر کاغذوں کا پیٹ بھرتے رہتے، جو فنڈز سرکار سے آتے وہ ہوا میں اڑ یا اڑا دئیے جاتے جبکہ اسکولوں میں بچوں کے بیٹھنے کی بینچز تک نہ ہوتیں، رہی بات پانی بجلی، لیٹرین یا دیگر سہولیات کی وہ تو سوچنا ہی محال ہے، کھیل و تفریح کے لیے فنڈز تو باقاعدگی سے جاری ہوتے رہے مگر کسی اسکول میں ایک پلاسٹک انڈہ بال تک کا وجود نہیں، اساتذہ کی بڑی تعداد ویزا سسٹم پر رہتی جنہیں منتھلی لیکر ڈیوٹی فری سہولت دے دی جاتی، ان حالات کی وجہ سے سرکاری اسکول و اساتذہ سندھ کی عوام میں اپنا اعتماد مکمل کھوچکے تھے،
IBA کے زریعے بھرتی کردہ ہیڈماسٹرز و ہیڈمسٹریسز نے اسکولوں میں آکر انتھک محنت و لگن سے کام کیا، اپنے ہاتھوں سے رنگ روغن چونا وغیرہ کیا، کچروں کے ڈھیروں کو اسکول سے یا آس پاس سے اٹھایا، کمیونٹی کے مخیّر حضرات سے مل کر اسکول میں بنیادی سہولیات کو بحال کرکے بہتر ماحول بنایا، تعلیم پر خصوصی توجہ دی جن سے کمیونٹی کا اعتماد سرکاری اسکولوں پر بحال ہونا شروع ہوا، اساتذہ کی اپنے ذاتی رسورسز پر ٹریننگز و موٹیویشنز کیں تاکہ وہ بہتر تعلیم مہیا کرسکیں، تاریخ میں پہلی بار SMC کمیٹیوں کو ایکٹیو کرکے پوری دیانتداری سے SMC فنڈز کو اسکولوں میں یوٹیلائز کیا، پرائیویٹ اسکولوں کی طرز پر اپنی مدد آپ کے تحت نرسری کلاسز کو قائم کیا، پہلی بار پرائمری سطح پر نصابی سرگرمیوں کیساتھ ساتھ غیرنصابی سرگرمیوں کو متعارف کروایا، اس کے علاوہ حقیقیططور پر گلی گلی گھر گھر پھر کر انرولمنٹ ڈرائیو مہم چلائیں جن سے ہزاروں آوٹ آف اسکول چلڈرن اسکولوں میں داخل ہوے الغرض کہ جن اسکولوں میں آئی بی اے ہیڈماسٹرز کو تعینات کیا گیا وہ کھنڈر اسکول سے ماڈل اسکول میں تبدیل ہوگئے جن کی بدولت سندھ کے سرکاری اسکولوں پر عوام کا اعتماد بحال ہوا،
یہ آئی بی اے ہیڈماسٹرز ہی تھے جنہوں دور دراز تک اپنے خرچ پر جا جا کر اسکول پروفائیلنگ کی جس کی بنیاد پہ محکمہ تعلیم کو پہلی بار حقیقی ڈیٹا دستیاب ہوا اور اب وہ اسی ڈیٹا کی بنیاد پہ کوئی بھی پالیسی بناکر کامیاب بناسکتے ہیں، ان کی دیانتداری و شاندار کارکردگی کو نہ صرف محکمہ کے افسران بلکہ سیکریٹری و وزیر تعلیم تک سراہتے رہے ہیں اور انہیں مستقل کرنے کی یقین دہانی کرواتے رہے لیکن پھر مافیا مائنڈسیٹ کو جب کرپشن و اقربا پروری کے خاتمے کا ڈر ہوا تو "اس کو چھٹی نہ ملی جس نے سبق یاد کیا” کے مصداق سندھ حکومت کے کرپٹ افسران و وڈیرہ شاہی حکومت نے میرٹ پہ بھرتی اور دیانتدار ہیڈماسٹروں کو ہی محکمے سے فارغ کرنے کی ٹھان لی اور ان کی نوکریوں کو ختم کرنے کا نوٹیفکیشن جاری کردیا جسکے خلاف ہیڈماسٹرز و ہیڈمسٹریسز احتجاج کرنے کے لیے کراچی پہنچ گئے،
پندرہ ستمبر کو کراچی پریس کلب پر کئی گھنٹے احتجاج کے بعد جب کسی حکومتی نمائندے نے ان کی ذات تک نہ پوچھی تو انہوں نے وزیراعلیٰ ہاوس کے سامنے دھرنا دینے کا اعلان کرکے پریس کلب سے کوچ کیا، آئی بی اے ہیدماسٹرز و ہیڈمسٹریسز کو روکنے کے لیے پولیس کی بھاری نفری آڑے آگئی اور ان پر تاریخ کا بدترین تشدد شروع کردیا جسکے نتیجے میں متعدد ہیڈماسٹرز و ہیڈمسٹریسز زخمی ہوگئے اور بہت سارے گرفتار کرکے جیل منتقل کردئیے گئے، زخمی ہیڈماسٹرز میں دو کی حالت انتہائی نازک بتائی جاتی ہے متعدد خواتین بھی شدید زخمی ہوئیں جن میں سے ایک کے بازو میں فریکچر بھی ہوگیا، عالمی یوم جمہوریہ پر سندھ حکومت نے نہتے ہیڈماسٹروں پہ تشدد کرکے دنیا میں یہ پیغام دیدیا ہے کہ ان کے نزدیک انسانی حقوق کی کوئی حیثیت نہیں، یہ وڈیرے تھے اور وڈیرے ہیں جو بات انہیں ناگوار گزریگی تو وہ یہ کسی طور پہ برداشت نہیں کرینگے،
آئین پاکستان ہر شہری کو پرامن احتجاج اور قانونی چارہ جوئی کا حق دیتا ہے اس کے علاوہ عالمی انسانی حقوق چارٹر میں پرامن احتجاج، اپنے حق کے لیے آواز اٹھانے اور قانونی چارہ جوئی کا حق ہر انسان کے لیے یکساں موقع ہے جبکہ سندھ حکومت کے نزدیک نہ آئین پاکستان کا احترام ہے نہ ہی کسی عالمی قانون کا، پندرہ ستمبر کے دن سندھ کی حکمران جماعت نے محض ایک شخص کی ذاتی رائے پہ مبنی بیان کو بنیاد بناکر پورے سندھ میں احتجاجی جلسے و ریلیاں نکالیں لیکن وہی حق عوام کو دینے کے لیے تیار نہیں، یہ میڈیا ریکارڈ کا حصہ ہے کہ کس بیدردی سے سندھ پولیس نے آئی بی اے ہیڈماسٹروں پر بہیمانہ تشدد کیا،
میڈیا نمائندگان جوکہ کسی بھی معاشرے کی کان آنکھ اور زبان کا کردار ادا کرتے ہیں زمہ داری کا مظاہرہ کرتے ہوے جب میڈیا نے سندھ حکومت کے آئی بی اے ہیڈماسٹروں سے غیرانسانی و غیراخلاقی سلوک پر احتجاج کیا اور سوالات کیے تو ترجمان وزیراعلیٰ سندھ بیرسٹر مرتضیٰ وہاب نے ڈھٹائی کیساتھ اس مذموم حرکت کو جائز قرار دے دیا اور انہیں مستقل نہ کیے جانے کے سوال پہ موقف دیا کہ گریڈ 17 میں کسی کو بغیر کمیشن کے بھرتی نہیں کیا جاسکتا اس لیے قانونی رکاوٹوں کے باعث انہیں مستقل نہیں کیا جاسکتا، جبکہ یہی سندھ حکومت ہے جس نے وٹرنری ڈاکٹرز کو بغیر کسی تحریری امتحان کے گریڈ سترہ میں بھرتی کرکے اسمبلی بل کے زریعے مستقل کردیا، ریونیو اور انفارمیشن ٹیکنالوجی کے محکمے میں گریڈ سترہ میں اپنے پیاروں کو بغیر کسی کمیشن یا کسی تحریری ٹیسٹ کے بھرتی کرکے انہیں اسمبلی بل پاس کرکے مستقل کرتے ہوے نہ تو کوئی قانونی رکاوٹ پیش آئی نہ ہی کسی میرٹ کا احترام یاد آیا،
میڈیکل کالجز یونیورسٹی اور بورڈز میں اپنے من پسند افراد و عزیز و اقارب کی بھرتی بغیر ٹیسٹ کے کرلی جائے تو بھی عین جائز و آئینی ہے، ڈاکٹرز جن سے لاکھوں نہیں کروڑوں افراد کی جان و صحت کا معاملہ وابستہ ہے انہیں بغیر کسی انٹرویو یا ٹیسٹ کے بس گھر بیٹھے اپائنٹمنٹ آرڈرز دئیے گئے ان سب کا قانونی جواز پیدا ہوجانا بھی سمجھ سے بالاتر ہے، ان سب سے بڑھ کر تعجب و حیرانکن بات یہ کہ محکمہ قانون سندھ میں گریڈ 17 اور گریڈ 18 کے اٹارنیز کو گھر بیٹھے آرڈر دیکر حال ہی میں مستقل کردیا گیا تو کوئی قانونی رکاوٹ آڑے نہیں آئی، یہ پاکستانیوں کیساتھ ساتھ پاکستان کی بدقسمتی ہے کہ وڈیرہ شاہی کا تسلط ہے ان کے نزدیک قانونی رکاوٹیں تمام تر خرابیاں صرف میرٹ پہ بھرتی افراد کے معاملے میں ہی پیدا ہوجاتی ہیں اس کی دو اہم وجوہات ہیں ایک یہ کہ ان میں نہ انکے سیاسی غلام ہوتے ہیں نہ ہی ان کو کروڑوں روپے دیکر آئے ہوے ہوتے ہیں اس لیے ان کے لیے کوئی جگہ نہیں جبکہ جو لوگ ان کے اپنے ہوں یا بھاری رشوت دیکر ان کرپٹ بیوروکریٹس و وڈیروں کی جیبیں گرم کرکے آئیں تو وہ عین جائز ہیں،

آئین پاکستان کا آرٹیکل 27 تعصبانہ قانون کی مخالفت کرتا ہے ایک ہی ملک یا صوبے میں ایک طبقے کے لیے قانون کچھ اور جبکہ غریبوں و مڈل کلاس طبقے کے لیے کچھ اور، بیرسٹر مرتضیٰ وہاب صاحب ایک ہی صوبے میں دو قانون کیا آرٹیکل 27 کی کھلی خلاف ورزی نہیں؟ بیرسٹر صاحب آپکے نزدیک قانونی جوکہ اصل میں نااہل ہیں وہ تو بغیر کسی ٹیسٹ کے بھرتی ہوے جبکہ یہ ہیڈماسٹر صاحبان و ہیڈمسٹریسز تو ملک کے سب سے مستند ادارے IBA کے زریعے بھرتی ہوے ہیں اور رہی بات کمیشن SPSC کی تو اس کی ساکھ کا یہ حال ہے کہ سندھ کی عوام اسے ہاوس آف کرپشن اور سفارش کہتی ہے جسے ملک کی اعلیٰ عدلیہ سپریم کورٹ تک نے نااہل اور کرپٹ ترین ادارے کی سند سے نوازا ہے،
پنجاب حکومت نے ہزاروں ہیڈماسٹرز و تعلقہ ایجوکیشن افسران کو NTS کے زریعے بھرتی کیا اور مستقل کردیا، بالکل اسی طرح وفاق میں بہت سارے محکموں میں NTS و دیگر اچھی ساکھ کے اداروں کے زریعے گریڈ 17 اور 18 کی بھرتیان کنٹریکٹ پر کی گئیں جن کی مستقلی کے لیے موجودہ وفاقی حکومت نے پچھلے ماہ ہی کمیٹی تشکیل دی ہے، سندھ حکومت کو آئی بی اے ہیڈماسٹرز کی مستقلی میں قانون کی پابندی کا کوئی احترام نہیں معاملہ صرف بدنیتی پر مشتمل ہے کہ ان کے اپنے پیارے اور ان کے سیاسی غلام کوئی نہیں جس کی بنا پر سندھ حکومت اور اسکی کرپٹ بیروکریسی کو یہ لوگ برداشت نہیں،
معلوم نہیں سندھ میں کب تک یوں ہی میرٹ کا جنازہ نکالا جاتا رہیگا؟ نجانے کب تک اندھیرنگری چوپٹ راج ایک ہی صوبے میں دو دو چار چار قانون رہینگے؟ پتہ نہیں وہ کونسا خوش نصیب دن ہوگا جب سندھ میں بھی میرٹ کی بحالی و قدر ہوگی؟ ہوگی یا نہیں یہ تو آنے والا وقت ہی ثابت کریگا مگر اس میں کوئی دو رائے نہیں کہ سندھ حکومت و سندھ کی بیوروکریسی میرٹ کی ازلی دشمن ہے، اخلاقی طور پر پاکستانی عوام و پاکستان کے باضمیر اشرافیہ کو سندھ میں میرٹ کی بحالی کے لیے کردار ضرور ادا کرنا چاہئے۔
تحریر انشال راؤ

Leave a reply