اسلام اور تصورِ علم .تحریر :شاہ زیب

اسلام جس کی ابتداء ہی اقراء سے ہوئی دراصل بنیادی طور پر ایک تعلیمی تحریک ہے.
رسول اللہ صلی اللہ علیہ والہ وسلم نے فرمایا ” انما بعثت معلما ” بے شک مجھے معلم بنا کر بھیجا گیا ہے, مزید فرمایا "علماء انبیاء کے وارث ہیں ",
گویا نبی مکرم صلی اللہ علیہ والہ وسلم کے بعد تعلیم دینا قیامت تک علماء کا فریضہ ٹھہرا ہے.

اسلام واحد مذہب ہے جس نے تمام انسانوں کے لئے علم حاصل کرنا فرض قرار دیا اور اس فرض کی انجام دہی کو معاشرے کی ایک ذمہ داری بنایا.

آقا کریم صلی اللہ علیہ والہ وسلم پر جو پہلی وحی نازل ہوئی وہ علم کے مقام اور اسکی اہمیت کو اجاگر کرتی ہے.
اسلامی تعلیمات کی بنیادی خصوصیات ہیں کہ انکا محور روحانی, دنیاوی اور شعوری معراج ہے.

اسلامی تعلیم کے مطابق علم کا سرچشمہ ذاتِ باری تعالیٰ ہے.
اشیاء و ہدایت سب اسی کی طرف سے ہے.
علم کو مقصد حیات کا درجہ رکھتا ہے, دنیا میں انسان کی حیثیت توحید, رسالت, آخرت اور انفرادی و اجتماعی زندگی کی تربیت اور اخلاقیات کے آفاقی اصول اسلامی تعلیمات کا بنیادی جزو ہیں.
اسلام تربیت کو تعلیم سے علیحدہ نہیں کرتا تربیت ہی انسان کو اللہ کا خاص بندہ بناتی ہے.

اسلام فکر و تدبر کی دعوت دیتا ہے علم و بصیرت کی پذیرائی کرتا ہے.روحانیت اور سائنسی و معاشرتی قوانین فطرت کو سمجھنے کی دعوت دیتا ہے.

اسلام میں تعلیم اور علم کسی ایک کے لئے یا مخصوص طبقے کے لئے نہیں جیسے برہمن اور پادری وغیرہ کے لئے ہوتا ہے بلکہ کل انسانیت کے لیے فرض ہے.
اور علم کو بغیر عمل فتنہ قرار دیا گیا ہے
اسلام کی نظر میں تعلیم تحریک ہے
تعلیم تبلیغ ہے
تعلیم دینے اور لینے میں بے ایمانی اور کنجوسی کی حوصلہ شکنی کی گئی ہے اسلام میں.
اپنی اگلی نسلوں کے لئے خود بھی تعلیم حاصل کرنا چاہئے اور اسلامی خطوط پر بچوں کی پرورش کے لئے تگ و دو کرنی چاہئے.
وما علینا الا البلاغ المبین.
@shahzeb___

Comments are closed.