اسلام میں ٹیکسوں کا نظام تحریر سمعیہ رشید

0
49

مغربی ممالک میں حکومت کی آمدنیوں اور اخراجات کی پوری تفصیلات عوام کے سامنے لائی جاتی ہیں اور انہیں یہ جائزہ لینے کا موقع دیا جاتا ہے کہ وہ خود دیکھ لیں کہ کہاں سے حکومت نے فنڈ حاصل کیے اور کہاں خرچ کیے۔ عام مصلحتوں کا پوری طرح لحاظ رکھا جاتا ہے اور اسکولوں سے لے کر اسپتالوں تک عوام کی ضرورتیں پوری کی جاتی ہیں۔ نہ کوئی بھی ٹیکس بغیر عوامی نمائندوں کی منظوری کے لگایا جاسکتا ہے نہ ان کی منظوری کے بغیر کوئی خرچ کیا جا سکتا ہے۔ گویا حق کے ساتھ حکومت مال لیتی ہے اور حق کے ساتھ خرچ کرتی ہے۔
لیکن ہماری یہاں کیا صورت رہی ہے؟ مجھے عربی شاعر شریف کے اشعار یاد آتے ہیں یہ شاعر عباسی خلافت کے مقابلے میں خروج کرنے والے نفس زکیہ کے ساتھ تھا وہ اللہ تعالی سے فریاد کرتا ہے۔ "خدایا! ہمارا مال منصفانہ تقسیم کے جائے اہل اقتدار و دولت کے درمیان ہی گردش کر رہا ہے۔ حکومت و امارت مشورہ کے بجائے استبداد سے کام لیتی ہے۔ عام مال میں یتمیوں اور بیواؤں کاحق لہوولعب او عیش و عشرت میں ضائع کیا جارہا ہے ۔ ہر علاقہ کا حاکم وہاں کا سب سے بد کردار شحض بنادیا گیا ہے۔ خدایا! باطل کی اس کھیتی کو اب کاٹ دے۔ تا کہ اپنی بہترین صورت میں نمایاں ہو”۔
عالم اسلام میں اس پرانی آہ و بکا کی صورتیں اب بھی جاری ہیں۔ٹیکسوں سے مراد وہ مال ہوتا ہے جو حکومت عوام سے مختلف صورتوں میں لیتی ہے اور عام خدمات اور فلاح و بہبود کی مختلف صورتوں میں پھر عوام ہی کو واپس کرتی ہے۔ اس لیے ٹیکس ادا کرنا ضروری ہے اور اس سے بھاگنا قومی غداری کے شابہ ہے۔
اچھے نظام والے ملکوں میں یہ شاذو نادر ہی ہوتا ہے کہ ٹیکسوں کی رقم کسی نجی خواہش کی تکمیل میں ضائع کی جائے۔ اس لیے ٹیکس چوروں کو ایسے مجرم سمجھا جاتا ہے جو بدترین الزامات کے لائق اور بڑے عہدوں سے محروم کئے جانےکے قابل ہیں۔
ٹیکس اور زکوۃ میں فرق یہ ہے کہ اللہ تعالی نے زکوۃ اس لیے فرض کی ہے کہ نفس کو بخل کی برائی سے پاک کیا جائے اور غریبوں کو مسائل سے نمٹنے میں مدد دی جائے اور زکوۃ کے خرچ کی مدیں متعین ہیں۔ ٹیکسوں کا دائرہ بہت وسیع ہے ۔ انہی سے قوم کا سیاسی، قومی اور تہذیبی ڈھانچہ کھڑا ہوتا ہے اور انہی سے نظام حکومت چلایا جاتا ہے ہنگامی حالات مثلا جنگ کی صورت میں ٹیکسوں کی تعداد و مقدار بہت بڑھ جاتی ہے گویا زکوۃ اور ٹیکسوں کے دائرے ایک دوسرے سے مختلف ہیں۔ اسلام نے زکوۃ کی مقدار اور اس کے مستحقین تعین کر دی ہے۔ پھر اللہ کی خوشنودی کی راہ میں مسلمانوں کے خرچ کی کوئی حد مقرر نہیں ہے تعلیم وتربیت، دعوت و تہذیب، فوجی ضروریات اور صنعتوں وغیرہ کے میدان بہت زیادہ مالی وسائل چاہتے ہیں۔
” نفقہ” کے لفظ میں فرض زکوۃ، نفلی صدقات اور اللہ تعالی کی راہ میں خرچ کی مختلف شکلیں شامل ہیں کبھی ضرورت کا تقاضا ہوتا ہے کہ کچھ بھی باقی نہ رکھا جاۓ۔
ترجمہ:۔ اور وہ لوگ تم سے پوچھتے ہیں کیا خرچ کریں۔ کہہ دو جو کچھ تمہاری ضروریات سے زیادہ ہو۔ اللہ نے مومنین سے ان کی جانیں اور مال خرید لیے ہیں جنت کے بدلے ۔ (التوبة:١١١)
یہ ضرورت ٹیکسوں سے پوری ہوتی ہے ۔ بیشتر مسلم ممالک میں نظام حکومت کے بگاڑ اور سر کاری وسائل کے ساتھ کھلواڑ کی بدولت ٹیکس کا لفظ ناپسندیدہ ہوگیا ہے لیکن دیگر ممالک اس مصیبت سے محفوظ ہیں ۔ جو کچھ ٹیکس وبندگان سے لیا جاتا ہے اسے بہترین جگہوں پر خرچ کیا جاتا ہے اور تیز نگاہوں سے اس کی نگرانی کی جاتی ہے ۔ لہذا زیادہ دولت والے اور صنعتی وغیر صنعتی پیداور کرنے والے اپنی قوموں کے مفادات کی پاسداری خوشی سے کرتے ہیں۔
ترجمہ:۔ اور جو نیکی بھی یہ کریں گے اس کی نا قدری نہ کی جائے گی اور اللہ پرہیز گار لوگوں کو خوب جانتا ہے ۔ (آل عمران: ۱۱۵)

شیخ یوسف قرضاوی لکھتے ہی کہ ہنگامی حالات میں دولت مندوں پر مزید ٹیکس لگائے جاسکتے ہیں۔ شریعت اس کی تائید کرتی ہے۔ کیونکہ ہنگامی حالات کے تقاضوں کو پورا نہ کیا گیا تو خود دولتمندوں کےلیے بھی زیادہ تباہی آئے گی اس لیے زیادہ برائی کو دفع کرنا ضروری ہے۔
پھر زیب وزینت اور آسائش والی چیزوں پر ٹیکس لگانے میں کوئی خرچ نہیں کیونکہ اس سے غریبوں اور معذوروں کی مدد ہوگی۔ اسی طرح قومی مصنوعات کے تحفظ اور فروغ کےلیے بیرونی مصنوعات پر ٹیکس لگانا بھی بہتر ہی ہے ۔کیونکہ متعدد ممالک اس طریقے سے خود کفالت حاصل کرچکے ہیں۔
وجودِ زن سے ہے، تصویر کائنات میں رنگ

Leave a reply