اسلام میں سیاست کا تصور از قلم ۔۔۔ عاقب شاہین میر

0
66

اسلام میں سیاست کا تصور

از قلم۔۔۔
عاقب شاہین میر

اسلام ایک مکمل دین ہے .اس دین کو اپنانے کےلیے قرآن نے ہمیں کچھ مسائل پیش کیے ہیں .جیسے توحید ،وعظ ،احوالِ معاشرہ وغیرہ ہیں ، ویسے ہی ایک اہم مسئلہ سیاست politics ہے لیکن یہ نام سنتے ہی ہمارے اندر ایک نفرت کی لہر پیدا ہو جاتی ہے کیونکہ ہم دنیا کے گندے سیاست دانوں کے ذریعے ہی سیاست کو پہچانتے ہیں.آج میں بحیثیت ایک طالب علم آپ کے سامنے "اسلام میں سیاست کیا ہے” پیش کرنے جارہا ہوں .اللہ کوتاہیوں اور غلطیوں کو معاف فرما دے آمین .
سیاست ,ساس یوس ,کا مصدر ہے جس کے معنی ہیں معاملات کی تدبیر کرنا اور نظام کو چلانا ۔قرآن مجید نے سیاست کے اصول و معالم کو بیان کردیا اور اس کے راستوں کو واضح کردیا ہے .سیاست کی دو قسمیں ہیں .خارجی سیاستforeign politics اور داخلی سیاستindigineous politics.
قرآن کریم میں لفظ سیاست تو نہیں البتہ ایسی بہت سی آیات موجود ہیں جو سیاست کے مفہوم کو واضح کرتی ہیں، بلکہ قرآن کا بیشتر حصّہ سیاست پر مشتمل ہے، مثلاً عدل و انصاف، ا مر بالمعروف و نہی عن المنکر ،مظلوموں سے اظہارِ ہمدردی وحمایت ،ظالم اور ظلم سے نفرت اور اس کے علاوہ انبیا ٴاور اولیأ کرام کا اندازِ سیاست بھی قرآن مجید میں بیان کیا گیا ہے۔
ڈاکٹر حمید اللہ لکھتے ہیں کہ ہمارے ہاں سیرت طیبہ کا جو پہلو سب سے زیادہ نمایاں ہے وہ حضور ﷺ کا داعی اور معلم انسانیت ہونا ہے، جبکہ لفظ "معلم” کا تقاضا یہ ہے کہ معلمِ انسانیت کی زندگی کے ہر پہلو کو سمیٹا جائے اور اس کی سیرت و سوانح کا علاقہ سیاسیات،سماجیات،اخلاقیات،معاملات،دعوت و تبلیغ اور زندگی کے ہر پہلو سے متعلق ہو مگر اکثر و بیشتر مصنفین اس پہلو سے پہلو تہی برتتے رہے ہیں ،علامہ ابن قیم رحمۃ اللہ علیہ  فرماتے ہیں کہ عدل وانصاف پر مبنی سیاست اسلامی شریعت کے خلاف نہیں ہو سکتی۔ بلکہ یہ عین اسلامی شریعت کا جزو ہے۔اسے ہم سیاست کا نام اس لیے دیتے ہیں کہ لوگوں میں یہی نام رائج ہے ورنہ اس کے لیے عدل الٰہی کا نام زیادہ موزوں ہے۔ امام غزالی رحمۃ اللہ علیہ  کہتے ہیں کہ دنیا آخرت کی کھیتی ہے اور دنیا کے بغیر دین مکمل نہیں ہو سکتا ۔دین ایک بنیاد ہے اور حکمران اس بنیاد کا محافظ ہوتا ہے۔اسی لیے عادل حکمرانوں کو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم  کا نائب کہا جاتا ہے یہ ایک حقیقت ہے کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم  مبلغ اور داعی ہونے کے ساتھ ساتھ زبردست سیاسی انسان بھی تھے.معروف لغوی طریحی اپنی کتاب مجمع البحرین میں لکھتے ہیں:
السیاسة القیام علی الشیء بما یصلحه؛ کسی شے کی اصلاح کرتے ہوئے جو اقدام کیا جائے اس کو سیاست کہا جاتا ہے۔
خارجی سیاست کا مدار دو اصولوں پر مشتمل ہے
1دشمن کا قلع قمع کرنے کےلیے کافی قوت تیار کرنا ارشاد باری تعالی ہے :
وَأَعِدُّوا لَهُمْ مَا اسْتَطَعْتُمْ مِنْ قُوَّةٍ وَمِنْ رِبَاطِ الْخَيْلِ تُرْهِبُونَ بِهِ عَدُوَّ اللَّهِ وَعَدُوَّكُمْ.(انفال 60)
تم ان کے مقابلے میں اپنی بھر قوت کی تیاری کرو اور گھوڑوں کے تیار رکھنے کی کہ اس سے تم اللہ کے دشمنوں کو خوف زدہ رکھ سکو اور ان کے سوا اوروں کو بھی .
2اسی قوت پر مشتمل اتحادواتفاق کو قائم رکھنا .ارشاد باری تعالی ہے:
ہر موقع پر مسلمانوں کو اللہ تعالیٰ پر توکل کی تعلیم دینے والا قرآن کریم مسلمانوں کو ہر طرح کے سامان جنگ سے لیس ہونے کی تاکید کر رہا ہے۔9
اس آیت میں اللہ تعالیٰ نے مومنین کو حکم دیا ہے کہ وہ دشمنوں اور کافروں سے مقابلہ اور جنگ کرنے کے لیے اسلحہ، ساز و سامان، جنگ اور قوت و طاقت جمع کریں تاکہ دشمن خوف زدہ رہیں اور مسلمانوں کے خلاف اٹھنے کی جرات نہ کریں یعنی جنگ و جہاد اور دفاع کا حکم دیا گیا ہے ظاہر ہے سیاست کے بغیر یہ امور سر انجام دینا ممکن نہیں ہیں اس طرح سیاست کی اہمیت واضح ہو جاتی ہے۔
اسلامی حکومت کے فرائض میں سے ایک امت مسلمہ کے اتحاد کو مستحکم کرنا اور اس کے مفادات کی حفاظت کرنا بھی ہے۔ اس طرح سیاست کی اہمیت واضح ہو جاتی ہے کہ اس کے ذریعے رعایا کی فلاح و بہبود اور ان کی حفاظت ہوتی ہے۔اتحادِ امت کے فروغ کے لیے سیاست ضروری امر ہے.ارشاد باری تعالی ہے۔۔ وَاِنْ جَنَحُوْا لِلسَّلْمِ فَاجْنَحْ لَھَا وَتَوَکَّلْ عَلَی اللہِﺚ اِنَّھ۫ ھُوَ السَّمِیْعُ الْعَلِیْمُ﴾
ترجمہ: اگر وہ صلح کی طرف جھکیں تو بھی صلح کی طرف جھک جا اور اللہ پر بھروسہ رکھ، یقیناً وہ بہت سننے، جاننے والا ہے۔
آیت میں دشمن سے معاہدہ امن کی پالیسی کی وضاحت کی گئی ہے۔
صلح و امن کے معاہدے کرنا اورسیاسی اعمال میں خارجہ پالیسی متعین کرنا ، ظاہرہے کہ ان امور کے لیے سیاست کا ہونا ضروری ہے۔
۷– دیگر امور کی انجام دہی کے لیے:
داخلی سیاست کے مسائل امن و سلامتی,استحکامِ معاشرہ,ظلم کا خاتمہ اور مستحق کو اس کا حق دینا وغیرہ پر مشتمل ہیں داخلی سیاست چھ عظیم اصولوں پر مبنی ہے.
1دین کی حفاظت :بنی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد گرامی ہے .من بدل دينه فاقتلوه (بخاري)
جس نے اپنے دین کو بدل لیا اس کو قتل کردو.
2جانوں کی حفاظت :وَلَكُمْ فِى الْقِصَاصِ حَيَاةٌ يَّّآ اُولِى الْاَلْبَابِ لَعَلَّكُمْ تَتَّقُوْنَ (179)

اور اے عقل مندو! تمہارے لیے قصاص میں زندگی ہے تاکہ تم (خونریزی سے) بچو۔
اور دوسری جگہ بھی اللہ فرماتا ہے : كُتِبَ عَلَيْكُمُ الْقِصَاصُ فِى الْقَتْلٰى..تم پر مقتولوں کا قصاص لینا فرض کیا گیا ہے .قرآن نے ہمیں واضح کر رکھا ہے کہ کیسے اس نظام زندگی کو چلایا جائے .
3عقل کی حفاظت اللہ کا ارشاد ہے: يَآ اَيُّـهَا الَّـذِيْنَ اٰمَنُـوٓا اِنَّمَا الْخَمْرُ وَالْمَيْسِـرُ وَالْاَنْصَابُ وَالْاَزْلَامُ رِجْسٌ مِّنْ عَمَلِ الشَّيْطَانِ فَاجْتَنِبُوْهُ لَعَلَّكُمْ تُفْلِحُوْنَ (90)

اے ایمان والو! شراب اور جوا اور بت اور فال کے تیر سب شیطان کے گندے کام ہیں سو ان سے بچتے رہو تاکہ تم نجات پاؤ۔
عقول کی حفاظت کے لئے ہی تو شارب خمر پر حد واجب کی گئی ہے .
4انساب کی حفاظت اللہ فرماتا ہے .اَلزَّانِيَةُ وَالزَّانِىْ فَاجْلِـدُوْا كُلَّ وَاحِدٍ مِّنْهُمَا مِائَةَ جَلْـدَةٍ.
زناکار عورت ومرد میں سے ہر ایک کو سو کوڑے لگاؤ (النور 2)
5 عزت کی حفاظت : ارشاد باری تعالی .
وَالَّذِينَ يَرْمُونَ الْمُحْصَنَاتِ ثُمَّ لَمْ يَأْتُوا بِأَرْبَعَةِ شُهَدَاءَ فَاجْلِدُوهُمْ ثَمَانِينَ جَلْدَةً.(النور4)

اور جو لوگ پرہیزگار عورتوں کو بدکاری کا عیب لگائیں اور اس پر چار گواہ نہ لائیں تو ان کو اَسی درے مارو.
اور جو آخری مسئلہ ہے اس داخلی سیاست کا وہ ہے.
6 مالوں کی حفاظت اللہ رب العزت فرماتا ہے .وَالسَّارِقُ وَالسَّارِقَةُ فَاقْطَعُـوٓا اَيْدِيَـهُمَا جَزَآءً بِمَا كَسَباَ نَكَالًا مِّنَ اللّـٰهِ ۗ وَاللّـٰهُ عَزِيْزٌ حَكِـيْـمٌ (المائدہ 38)

اور چور خواہ مرد ہو یا عورت دونوں کے ہاتھ کاٹ دو یہ ان کی کمائی کا بدلہ اور اللہ کی طرف سے عبرت ناک سزا ہے، اور اللہ غالب حکمت والا ہے۔
مزکورہ اصولوں سے یہ بات واضح ہوجاتی ہے کہ معاشرے کے من جملہ مسائل و مصالح کا حل قرآن مجید میں موجود ہے .یہی وہ کتاب ہے جس میں ہر سوال کا جواب ہے ۔۔-

Leave a reply